کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان عبادت گاہوں کے زیر تصرف سونے، دولت کے انبار اور وسیع و عریض اراضی کو بھگوان کے عقیدت مندوں یا اللہ کے بندو ں کی فلاح و بہبود اور ان کی غربت دور کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا۔مہنتوں و پجاریوں کوبھی احساس ہونا چاہیے کہ اس دولت پر کنڈلی مار کربیٹھنے کے بجائے اس کو خرچ کرنے سے ہی بھگوان زیادہ خوش ہوجاتے، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے بندو ں کو بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
ہندوستان میں لوگوں میں سونا جمع کرنے کا ایک جنون سا ہے۔ لڑکی کی پیدائش کے فوراً بعد والدین اس کی شادی کے لیے سونا جمع کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہندو کلینڈر میں چند ایسے دن ہیں، جب سونا خریدنا مبارک سمجھا جاتا ہے۔ سونا اور دولت جمع کرنے کا خبط بس عوام تک ہی محدود نہیں ہے۔ عبادت گاہیں بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔
ہندو مٹھوں و مندروں میں دولت کے بڑے ذخیرے موجود ہیں۔ شرادھالوں یا عقیدت مندوں کے ذریعےبھگوانوں کو ارپن یا دان کیے جانے والے چڑھاوے سے ان عبادت گاہوں کے خزانوں بھرے پڑے ہیں۔ سکھ گردوارے بھی دولت جمع کرنے کی دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔
مسلم عبادت گاہوں میں دولت تو نہیں، مگر کئی صدیوں سے حکمرانوں اور امیر وں نے لاکھوں ایکڑ کی زمینیں وقف کی ہوئی ہیں۔ہندو عبادت گاہوں میں بے پناہ دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دہائی قبل ورلڈ گولڈ کونسل کے تخمینے کے مطابق ان کے پاس تقریباً4000 ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر میں سے 80 فیصد تو صرف دس مندرو ں میں ہے۔
جنوبی صوبہ کیرالا میں پدمنابھاسوامی مندر، آندھرا پردیش میں تروپتی وینکٹیشورا مندر، تمل ناڈو میں میناکشی مندر، شمال یعنی جموں میں وشنو دیوی مندر میں سب سے زیادہ دولت کے ذخائر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر ان دس امیر ترین مندروں کی دولت عوام میں بانٹی جائے تو ہندوستان دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوگا۔
مگر وائے بدقسمتی،یہ دولت کورونا وبا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حا ل میں بھی عقیدت مندوں کے کام نہیں آسکی۔ ہاں کئی جگہوں پر دیگر رفاء عام کے اداروں کی طرح مندروں کے پجاریوں اور منتظمین نے وباسے متاثر اور مہاجر مزدوروں میں مفت کھانا تقسیم کیا، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھا۔
تاہم اس صورت حا ل میں مہاراشٹر صوبے میں واقع گرودوارہ تخت حضور صاحب نے ایک مثال قائم کی۔ یہ گرودوارہ سکھ مذہب کے پانچ مقدس تختوں میں سے ایک ہے۔اس گرووارے کے منتظمین نے اعلان کیا کہ عبادت گاہ میں پچھلے 50 سالوں سے جمع سونے کو اسپتال، کالج اور یونیورسٹیاں بنانے میں استعمال کیا جائےگا۔
کورونا نے اس صوبہ کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا۔ لہذا اس گرودوارہ نے ناندیدشہر میں جہاں یہ واقع ایک سپر اسپیشلٹی اسپتال بنانے کا بھی اعلان کردیا۔ اس علاقے کے عوام کو علاج معالجہ کے لیے ممبئی یا حیدرآباد کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ سکھ گردوارے تو ویسے ہی ارپن کی ہوئی دولت کا صحیح استعمال کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔
مئی کے ماہ میں جب حکومت آکسیجن کانسنٹیٹر وغیرہ کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، دہلی سکھ گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی نے مغربی ممالک میں بسنے والے سکھوں کی مدد سے 250 مشینیں درآمد کروائیں۔ حکومت کے کورونا کیئرمراکز کے قیام سے قبل ہی گردواروں نے تمام سہولیات سے مزین سینٹر ز قائم کر دیے تھے۔ اس کے لیے دان دی جانے والی جمع رقوم کا استعمال کیا گیا۔
لگتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہمارے آباو اجداد نے عبادت گاہوں میں دان و پن دینے کی جب شروعات کی تھی تو ان کا مقصد یہی رہا ہوگا کہ آفات سماوی کے وقت بھگوان کی حفاظت میں جمع یہ دولت عوام اور عقیدت مندو ں کے ہی کام آجائے۔
مگر شاید ہی دیگر عبادت گاہیں، اس دولت کو عقیدت مندوں کی بہبودی کے لیے خرچ کرتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گرودوارے دیگر عبادت گاہوں کے برعکس ایک منتخب ادارہ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ذریعے چلائے جاتے ہیں، جو برطانوی دور میں1925میں ایک لمبی جدوجہد کے بعد پاس کیے گئے قانون کے تابع ہے۔
اس طرح سے یہ ادارہ سکھ عوام کے سامنے جوابدہ رہتا ہے۔ گو کہ ہندوستان میں سکھ برادری کی آبادی2فیصد سے بھی کم ہے،مگر چاہے کشمیر کا سیلاب ہو یا لاک ڈاؤن، تامل ناڈو میں سونامی ہو یا زلزلہ ہو، گردوارے امداد پہچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
اس کے برعکس مندریا مٹھ خاندانی پنڈتوں یا پچاریوں کے تحت ہوتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے گردواروں کی طرز پر 1925میں ہی مندروں کے انتطام کے لیےبھی قانون کو تشکیل دینے کی کوشش کی تھی، مگر اس پر زبردست احتجاج ہوا اور اس کو چیلنج کیا گیا۔ کیونکہ منتظمین اور پجاری کسی بھی صورت میں قبضہ چھوڑنے کے لیےتیار نہیں تھے۔
حکومت اور مندروں کے مابین کئی سالوں کے تنازعہ کے بعد جنوبی ہندوستان کے چند صوبوں نے ان امیر مندروں کو کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری افسر متعین کیے ہیں۔ مگر یہ انتظام جزو ی ہی ہے، کیونکہ ان مندروں کی انتظامیہ اور پجاری سیاسی طور پر خاصے اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اس جزوی کنٹرل کے خلاف بھی آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جگی واسودیوا جیسے مذہبی لیڈروں نے حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ہوائی کمپنیوں اور صنعتوں کو چلانہیں پا رہی ہے، تو وہ مندر وں کا انتظام کیسے کرسکتی ہے۔
مگر سکھ اسکالروں کا کہنا ہے کہ اگر سکھ اپنی جدوجہد سے گردواروں کو مہنتوں اور پچاریوں کے چنگل سے آزاد نہیں کرواتے، تو ان کی بھی حالت کم و بیش مندروں جیسی ہی ہوتی۔ اور ان پر چند افراد کی اجارہ داری ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ احتساب اور جوابدہی کی وجہ سے ہی یہ اچھی صحت میں ہیں۔
یاد رہے کہ 1921 میں سکھوں نے مہنتوں کے قبضے سے گرودواروں کو آزاد کرانے کی تحریک کی شروعات کی تھی۔سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کی جائے پیدائش، ننکانہ صاحب، جو اب پاکستان میں ہے، میں مہنتوں اور سکھ ہجوم کے درمیان تصادم ہوا، جس میں 250 افراد ہلاک بھی ہوگئے۔اس گردوارے کے پاس اس وقت 19000 ایکڑ اراضی تھی اور مہنت نارائن داس جو اس کا منتظم تھا، اس کی ملکیت کا بھی دعویدار بن بیٹھا تھا۔
معلوم ہوا کہ اس کی زیر نگرانی گردوارہ کو غیر قانونی کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس خونریز واقعہ کے بعد اس وقت متحدہ پنجاب کے گورنر سر میلکم ہیلی نے گردوارے کو حکومت کے کنٹرول میں لانے کے احکامات صادر کیے اور مہنت اور اس کے حواریوں کو نکال باہر کروادیا۔ اس کے چار سال بعد حکومت نے صلاح و مشوروں کے بعد سکھ گردوارہ ایکٹ نافذ کرکے ان عبادت گاہوں کو سکھوں کے منتخب ادارہ شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی حوالے کردیا۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے پروفیسر گورمیت سنگھ بتاتے ہیں کہ سکھ مت کے بانی گرو نانک اور اس کے بعد دیگر گرووں نے خدمت کو مذہب کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ سکھ تعلیمات کے مطابق ایک سکھ کے لیے لازم ہے کہ پڑوسی کو بھوکا پیٹ نہ سونے دے۔ ان کا کہنا ہے کہ سکھ انسانیت کے مقصد سے کیے جانے والے کامو ں میں فراخدلی سے شرکت کرتے ہیں۔لہذا تعداد میں کم ہونے کے باوجود گردواروں میں سخت حالات کے دوران رقوم خرچ کرکے امداد بہم پہچانا ایک عام سی بات ہے۔
ہندوستان میں مسلم عبادت گاہوں اور اداروں کے پاس بھی وسیع و عریض اراضیاں ہیں۔ دارالحکومت نئی دہلی میں واقع جدید اور مایہ ناز یونیورسٹی جامعہ ہمدرد اور کرناٹک کی خواجہ بندنواز یونیورسٹی وقف کیے گئے رقوم اور اراضی سے ہی چلتے ہیں۔ مگر عمومی طور پر مسلم سماج وقف کا خاطر خواہ استعمال نہیں کرپایا ہے۔ سولہ سال قبل جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے انکشاف کیا تھا کہ پورے ملک میں4.9 لاکھ رجسٹرڈ وقف املاک بکھر ی پڑی ہیں۔
اس کمیٹی نے حساب لگایا تھا کہ اگر اس املاک کو پروفیشنل طریقے سے استعمال میں لایا جاتا ہے تو اس سے سالانہ 12بلین روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ یعنی ملک میں مسلمانوں میں نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوسکتاہے، بلکہ ان رقوم سے لاتعداد فلاحی ادارے چلائے جاسکتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر قیصر شمیم، سابق سکریٹری سینٹرل وقف کونسل نے بتایا بیشتر املاک قبرستان، درگاہوں اور مسجدوں پر مشتمل ہیں، جن سے کسی محصول یا آمدنی آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ سکھ سماج کی اکثریت پنجاب تک ہی محدود تھی، اسی لے ان کے لیے گردوارہ مینجمنٹ قانون پاس کروانا اور عبادت گاہوں کو پروفیشنل طریقے سے چلانا نسبتاً آسان تھا۔ مسجدوں و درگاہوں کی نسبت گردوارں کی تعداد بھی محدود تھی۔مگر وقف املاک پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اورہر صوبے کا اپنااراضی قانون ہے۔
دوسری طرف حکومتوں نے بھی کبھی اس املاک کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اکثر تو اس املاک کی نگرانی پر پشت در پشت مامور متولیوں نے ہی سرکاری افسران کے ساتھ مل کر اس کو بیچ کر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔دہلی کی ایک وسیع و عریض وقف املاک پر تو حکومت کے اعلیٰ اداروں نے ہی قبضہ کرکے ان پر اپنے دفاتر تعمیر کیے ہیں۔ اب ان قبضوں کو چھڑانا تقریباً ناممکن ہے۔
خیر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان عبادت گاہوں کے زیر تصرف سونے، دولت کے انبار اور وسیع و عریض اراضی کو بھگوان کے عقیدت مندوں یا اللہ کے بندو ں کی فلاح و بہبود اور ان کی غربت دور کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا۔مہنتوں و پجاریوں کوبھی احساس ہونا چاہیے کہ اس دولت پر کنڈلی مار کربیٹھنے کے بجائے اس کو خرچ کرنے سے ہی بھگوان زیادہ خوش ہوجاتے، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے بندو ں کو بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر