خبریں

مرکز کے نئے وزیروں کی یہ تصویر بتاتی ہے کہ مودی حکومت میں بس مودی ہی اہم ہیں

وزراء کی کونسل میں توسیع کے بعد بھلے ہی وزیروں کی تعداد77پر پہنچ گئی ہو، لیکن منتخب کیے  گئے یہ تمام خواتین اور مردصرف اپنےمحبوب رہنما  کے رول کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے ہیں۔

7 جولائی2021 کو حلف لینے والے وزیروں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

7 جولائی2021 کو حلف لینے والے وزیروں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

مجھے نہیں پتہ کہ 8 جولائی کو ایک اخبار نے سرورق  پر لگائی گئی لیڈ فوٹوگراف کو کس وجہ سے منتخب کیا، لیکن ان کےذریعےنریندر مودی کی نئی  کابینہ کے وزیروں کی غیرجمالیاتی  تصویرہمیں آج کےہندوستان  کی حکومت  کے بارے میں وہ سب بتاتی ہے، جو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہ مرکزی کابینہ  میں ہوئی تازہ ترین تبدیلی اورتوسیع  سے کسی بھی ٹھوس تبدیلی  کاامکان کیوں نہیں ہے۔

جیسا کہ عام طور پر 15چہروں والے کولاژمیں ہوتا ہے، یہاں ہر وزیراکیلا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے محبوب رہنما کے لیے کسی پراپ (سہارے)کےطور پرموجود ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ دونوں لازم و ملزوم  ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، اور کابینہ  کا یہ ممبریا تو صرف ایک ضمیمہ ہے یا وزیر اعظم کی ہی توسیع۔

اگریہ کوئی چالاکی بھرا ادارتی فیصلہ تھا، جو اخبار کے مدیران  نے لیا تھا، تو انہیں میرا سلام۔ لیکن اگر، جیسا کہ مجھے شک ہے کہ یہ ڈیزائن کو لےکرناقص فہم تھی، تب بھی ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ظاہری  طور پر ایک تصویر کے ذریعے اس بات کی تصدیق  کر دی کہ مودی سرکار میں صرف مودی ہی مرکز میں ہیں۔ ایسے میں وزراء کی کونسل میں منتخب کیے  گئے یہ 77 خواتین  اور مردصرف انہی کےرول کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے ہیں۔

بدھ کو کابینہ کی  پھیر بدل ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب حکومت  کی ساکھ  اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جیسے ہی انہوں نے اپنے ناموں کی فہرست  کی جانچ کی، مودی جانتے تھے کہ لگ بھگ ہروزیرداخلہ ، خزانہ اور دفاع سے لےکر صحت ، تعلیم اور آئی ٹی تک – اپنے میدان میں یا تو خراب مظاہرہ کر رہا تھا یا تباہ کن ثابت ہو رہا تھا۔

اس حکومت کی بد انتظامی  کا اثر چاروں طرف  ہے لداخ میں، ہندوستان  کے کھیتوں اور شہروں پر، یہاں تک کہ سائبر اسپیس میں بھی۔ یہ صحت کے شعبہ  میں بالکل واضح  نظر آتا ہے، جہاں مہاماری سے نمٹنا کسی آفت سے کم ثابت نہیں ہوا ہے۔

مارچ2020 میں ڈبلیو ایچ اوکے ذریعےکووڈ 19 کو عالمی وباقرار دیے جانے کے بعد بھی جب وزارت صحت  اپنے ‘آل از ویل’ کی  قصیدہ خوانی  پر اڑا ہوا تھا، ہرش وردھن اس کام کے لیے پوری طرح سے نااہل  تھے۔ مہاماری کے پھیلاؤ کے بیچ ان کی غیرسائنسی  بیان بازیاں اور ان کے رشتے(کاروباری اور یوگ گرو رام دیو سمیت)ثبوت تھے کہ تبدیلی کی ضرورت تھی۔

برازیل نے پچھلے ایک سال میں دو بار وزیر صحت  بدلے ہیں، چیک جمہوریہ نے چار بار جبکہ دیگر ممالک نے بھی اپنے وزیر صحت کو خراب کارکردگی  کی وجہ سےتبدیل کیا۔ مودی کے لیے ہرش وردھن کو عہدےپر بنائے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ خود وزیر اعظم ذاتی طور پر مہاماری سے متعلق تمام پالیسیوں کو چلا رہے تھے، جو بعد میں ہندوستان  کے لیے مہنگی ثابت ہوئی، بالخصوص مہاماری کی تباہ کن  دوسری لہر کی تیاری اور اور ویکسین کی خاطر خواہ  خوراک کے معاملے میں۔

ایک بڑے  پھیربدل میں ہرش وردھن کےساتھ روی شنکر پرساد (آئی ٹی)، پرکاش جاویڈکر(آئی ٹی )اور رمیش پوکھریال (ایجوکیشن)جیسےدیگر ہائی پروفائل وزیروں کو برخاست کرتے ہوئے مودی کو امید ہے کہ 400000 سے زیادہ اموات کا قصور نااہل وزیروں کو دیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی وہ  اس المیےکو بھی کم کرکے دیکھ رہے ہیں، جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔

میراقیاس  ہے کہ جاویڈکر اور پرساد اضافی  نقصان ہیں، جنہیں وزیر اعظم پر آنچ نہ پہنچے اس لیے برخاست کیا گیا ہے۔ سیاسی  حلقوں میں قیاس آرائیاں  ہیں کہ جس طرح سے انہوں نے میڈیا اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنی دھمکیوں سے الگ تھلگ کر دیا ہے، اس کی قیمت انہیں چکانی پڑی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ ہندوستان  کی میڈیا، بالخصوص نڈر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کوکنٹرول  کرنا مودی کا ایجنڈہ ہے۔ مودی کا ایجنڈہ یہ بھی ہے کہ یہ یقینی  بنانے کی کوشش ہو کہ ٹوئٹر سرکاری  فیک نیوز کو چلنے دے اور ساتھ میں قانونی تنقید پر لگام لگائے۔ سرکار کے نئے آئی ٹی ضابطوں  کی مانیں تو یہ دونوں ہی مقصد اتنی آسانی سے جانے نہیں دیے جائیں گے۔

اصل میں انتخابی  ریلی میں‘گولی ماروں ٭٭٭ کو’ کا نعرہ لگانے والے انوراگ ٹھاکر کو وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے منتخب کیا جانا ہی دکھاتا ہے کہ آزاد میڈیا پر حملے بڑھیں گے۔

جہاں تک باقی کابینہ اورپورٹ فولیو کےمختص کی بات ہے، تو ان کی  بہت کم اہمیت ہے کیونکہ ہمارے یہاں پوری طرح مودی/وزیر اعظم دفتر پر سینٹرلائز اقتدار ہے، جہاں پالیسیاں اسٹیٹ  کی بھلائی، ڈیٹا،ریسرچ اور پیشہ ورانہ مشورےکے بجائے وزیر اعظم کی سنک، تصور اورنظریاتی تعصب پر بنتی ہیں۔

ہمارے یہاں ایک نئی‘کوآپریٹو’وزارت بھی لائی گئی ہے، جس کا کام ‘کوآپریٹو’ کوفروغ دینا، انہیں آگے بڑھانا ہے اور جسے مودی کا ایک‘دوررس’قدم بتایا جا رہا تھا۔ دلچسپ یہ ہے کہ اسے وزیر زراعت یا کسی محکمہ جو کوآپریٹو کے ساتھ کام کرتے ہیں، کو نہ سونپ کر وزیر داخلہ امت شاہ کو دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بنائی گئی کئی وزارتوں  کے امتزاج بھی عام فہم  سے بالاترہیں شہری ترقی اور تیل، جہازرانی اور آیوش، ریل اور ٹیلی کام، ماحولیات اورلیبر، انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ اینڈ اسپورٹس۔

اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وزارتی عہدوں کے لیےصلاحیت کی شدید کمی ہے یا مودی ان وزیروں کو ان پالیسیوں کے عمل درآمد کے لیے ڈرائیور کے طور پر دیکھتے ہیں،جنہیں وزیر اعظم دفتر چلائےگا۔ وزراء کی کونسل میں ہوئی اس پھیر بدل میں اچھی باتیں تلاش کررہے لوگوں کو کسی اور جگہ مثبت پہلو کی جستجو کرنی چاہیے۔

(اس مضمون  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)