خبریں

سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے اور بعد میں ممکنہ ہیکنگ کے نشانے پر تھے راہل گاندھی

پیگاسس پروجیکٹ: سرولانس کے لیے نہ صرف راہل گاندھی بلکہ ان کے پانچ دوستوں اور پارٹی کے مسائل پر ان کے ساتھ کام کرنے والے دو قریبی لوگوں  کے فون بھی منتخب کیے گئے تھے۔

راہل گاندھی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

راہل گاندھی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان  میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں کے فون پر بھی نظر رکھی جا رہی تھی۔ یہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ اپنےسیاسی حریفوں  کی ہیکنگ کرانے کے لیےحکومت  کس سطح تک پہنچ گئی ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر اور اس کے میڈیا پارٹنر اس بات کی تصدیق  کر سکتے ہیں کہ کانگریس رہنما راہل گاندھی کا کم از کم دو موبائل فون ہندوستان کے ان 300 مصدقہ  نمبروں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی نگرانی کرنے کے لیے اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ایک ہندوستانی  کلائنٹ کے ذریعےپیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرنے کا منصوبہ  بنایا گیا تھا۔

گاندھی کی ہیکنگ کرنے کاجنون اس حد تک تھا کہ ان کے پانچ قریبی لوگوں  پر بھی نشانہ بنانے کی تیاری کی گئی تھی، جبکہ ان پانچوں میں سے کوئی بھی سیاسی  یا عوامی  کاموں سے وابستہ نہیں ہے۔

ویسے تو گاندھی اب اس نمبر کا استعمال نہیں کرتے ہیں،لیکن یہ نمبر لیک ہوئے اس بڑے ڈیٹابیس کا حصہ ہے، جسے فرانسیسی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز نے حاصل کیا ہے اور اسے 16 نیوزاداروں  کے ساتھ ساجھا کیا ہے،جس میں دی  وائر، دی گارڈین، واشنگٹن پوسٹ، لموند وغیرہ  شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کےتکنیکی لیب کے ذریعے اس فہرست  میں شامل فون پر کی گئی فارنسک جانچ سے یہ واضح ہوا ہے کہ اس میں سے 37 ڈیوائس میں پیگاسس اسپائی ویئر تھا، جس میں سے 10 ہندوستانی شخصیات سے وابستہ ہیں۔

راہل گاندھی کے فون کی فارنسک جانچ نہیں ہو پائی ہے، کیونکہ فی الحال وہ اس ہینڈسیٹ کا استعمال نہیں کر رہے ہیں، جسے وہ 2018 کے وسط اور 2019 کے بیچ کیا کرتے تھے اور اسی دوران ان کا نمبر نگرانی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

فارنسک جانچ نہ ہو پانے کی وجہ سےیہ واضح طور پربتاناممکن نہیں ہے کہ گاندھی کے فون میں پیگاسس ڈالا گیا تھا یا نہیں، لیکن ان کے قریبی لوگوں سے وابستہ کم از کم نو نمبروں کا نگرانی ڈیٹابیس میں پایا جانا یہ دکھاتا ہے کہ اس میں راہل گاندھی کی موجودگی محض اتفاق نہیں ہے۔

گاندھی نے دی وائر کو بتایا کہ قبل میں انہیں مشتبہ وہاٹس ایپ پیغامات حاصل ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے فوراً اپنے نمبر اور فون بدل دیے تاکہ انہیں نشانہ بنانا آسان نہ ہو۔

این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپائی ویئر صرف سرکار کو بیچتے ہیں۔ ویسے تو کمپنی نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس کےکلائنٹ کون لوگ ہیں، لیکن پیگاسس پروجیکٹ اور اس سے پہلے سٹیزن لیب کی جانب سے کی گئی تفتیش اس جانب  اشارہ کرتے ہیں کہ ایک یا اس سے زیادہ سرکاری ایجنسیاں لوگوں کی نگرانی کرنے کے لیے پیگاسس کا استعمال کر رہی ہیں۔

اس اندیشےکو اور طاقت  ملتی ہے کیونکہ مودی سرکار نے اس معاملے میں واضح ردعمل  دینے سے باربار انکار کیا ہے، جس میں پیگاسس پروجیکٹ کا بھی سوال شامل ہے کہ سرکار نے پیگاسس کا استعمال کیا ہے یا نہیں۔

راہل گاندھی پر نگرانی کرنے کا منصوبہ ایسے وقت پر بنانا، جب وہ کانگریس کے صدر تھے اور نریندر مودی کے خلاف سال 2019 کے عام انتخاب میں اپنی پارٹی کی قیادت کر رہے تھے، پورے انتخابی عمل کی سالمیت پرسنگین سوال کھڑے کرتا ہے۔

سال 1972 میں امریکہ میں رچرڈ نکسن نے اپنےسیاسی حریفوں کے دفاتر پر جاسوسی کرانے کی کوشش کی تھی، جسے واٹرگیٹ اسکینڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعد میں انہیں استعفیٰ  دینا پڑا تھا۔

اس معاملے پراپنے ردعمل کا اظہار کرتےہوئے گاندھی نے پیگاسس پروجیکٹ کو بتایا،‘جیسا آپ بتا رہے ہیں،اگر اس طرح کی نگرانی میری یا کسی بھی اپوزیشن رہنمایا پھر کسی بھی شہری  کی گئی ہے، تو یہ بالکل ہی غیرقانونی اورقابل مذمت ہے۔ اگر آپ کی جانکاری درست ہے تو اس سطح کی نگرانی لوگوں  کی پرائیویسی  پر حملے سے آگے کی بات ہے۔ یہ ہمارے ملک  کی جمہوری بنیادوں  پر حملہ ہے۔ اس کی گہرائی سےجانچ ہونی چاہیے اور ذمہ دار لوگوں کی پہچان کرکے انہیں سزا دی جائے۔’

راہل گاندھی کے نجی فون کے علاوہ ان کے دو قریبی لوگوں النکار سوائی اور سچن راؤ کے نمبر بھی لیک ہوئے ڈیٹابیس میں شامل ہیں۔

راؤ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہیں، جو موجودہ وقت  میں پارٹی کیڈرکو ٹریننگ دیتے ہیں۔ جبکہ سوائی راہل گاندھی کے دفتر سے جڑے ہوئے ہیں اور عام طور پر اپنا زیادہ  وقت  ان کے ساتھ ہی بتاتے ہیں۔سوائی کا فون 2019 میں چوری ہو گیا تھا اور اس طرح اب یہ فارنسک جانچ کے لیےدستیاب نہیں ہے، جبکہ راؤ نے کہا کہ ان کا فون خراب ہو گیا ہے اور اب یہ سوئچ آن نہیں ہوتا ۔

دی وائر نے گاندھی کے ہر دوست  اورقریبی لوگوں  کو لیک ہوئے ڈیٹابیس میں نگرانی سے متعلق  فہرست میں ان کی موجودگی  کے بارے میں مطلع  کرنے کے لیےرابطہ کیا۔ پانچ میں سے تین اس مدعے پر چرچہ کرنے کے لیےراضی  ہوئے، جبکہ باقی کے دو لوگوں نے اس سے انکار کیا کیونکہ وہ  لوگوں کی توجہ ان کی طرف جانے کا جوکھم نہیں لینا چاہتے تھے۔

جن تین دوستوں نے دی وائر سے بات کی،اس میں سے دو خواتین ہیں، وہ نگرانی کے لیے نشانہ بنائے جانے کے خیال سے کافی فکرمند تھیں اور انہوں نے پیگاسس جیسےاسپائی ویئر سے خود کو بچانے کے بارے میں صلاح مانگی۔

وہ حیران تھیں کہ آخر کیوں کسی سرکاری  ایجنسی نے انہیں2019 کے وسط میں نشانہ بنانے کے لیےنشان زد کیا تھا۔ انہیں اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔

تین میں سے دو اب اس ہینڈسیٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں، جبکہ تیسرے نے کہا کہ وہ اپنے موجودہ ڈیوائس کی فارنسک جانچ کروانے کے بجائے اپنا فون بدلنا پسند کریں گے۔چونکہ راہل گاندھی کے ان پانچ قریبی لوگوں میں سے کوئی بھی عوامی زندگی میں نہیں ہے، اس لیے ان کی گزارش  پر ان کی پرا ئیویسی کے تحفظ  کے لیے پیگاسس پروجیکٹ ان کے ناموں کو عوامی  نہیں کر رہا ہے۔