پیگاسس پروجیکٹ: سابق الیکشن کمشنراشوک لواسا کے فون کی فارنسک جانچ کے بنا یہ بتا پانا ممکن نہیں ہے کہ اس میں کامیابی کے ساتھ پیگاسس اسپائی ویئر ڈالا گیایا نہیں، حالانکہ نگرانی فہرست میں ان کے نمبر کا ہونا یہ دکھاتا ہے کہ ان کے فون میں سیندھ لگانے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔
نئی دہلی: سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کےالزامات پر وزیراعظم نریندر مودی کو دی گئی کلین چٹ کی مخالفت کرنے والے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا کا نام لیک ہوئی اس فہرست میں شامل ہے، جن پر پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
فرانس واقع میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز نے لیک ہوئے ان ان دستاویزوں کو حاصل کرنے کے بعد دی وائر سمیت دنیا بھر کے 16 میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیا ہے، جس میں 50000 سےزیادہ فون نمبر ہیں۔
اس گروپ کا ماننا ہے کہ اسرائیل واقع این ایس او کے کلائنٹس کے ذریعے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کر کےسال 2016 سے ان لوگوں پر نگرانی رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
دی وائر اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ سال 2019 کے دوران لواسا جس فون نمبر کا استعمال کرتے تھے، وہ اس فہرست میں شامل ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل دینے یا اس رپورٹ میں کسی طرح کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کے فون کی فارنسک جانچ کے بنا یہ بتا پاناممکن نہیں ہے کہ ان کے فون میں کامیابی کے ساتھ پیگاسس اسپائی ویئر ڈالا گیا تھا یا نہیں۔ حالانکہ نگرانی فہرست میں ان کے نمبر کی موجودگی یہ دکھاتی ہے کہ این ایس او کے کلائنٹ کے ذریعےان کے فون میں سیندھ لگانے کامنصوبہ بنایا گیاتھا۔
این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا پیگاسس اسپائی ویئر صرف ‘سرکاروں’ کو ہی بیچتے ہیں، لیکن انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے ان کے 36 کلائنٹ میں کون سے ممالک ہیں۔
دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا انتخاب کے دوران پانچ مواقع پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کےالزامات پر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو ملی کلین چٹ کی مخالفت کرنے بعد سے اشوک لواسا پر نگرانی کرنے کامنصوبہ بناتھا۔ ان پانچ شکایتوں میں سے چار شکایتیں وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق تھیں۔
مودی کے خلاف کی گئی شکایت میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی انتخابی ریلی میں نوجوان رائے دہندگان سے کہا ہے کہ وہ اس بار اپنا ووٹ پلوامہ حملے کے شہیدوں کے نام پرکریں، جس میں سی آر پی ایف کے 44 جوان شہید ہوئے تھے۔
وہیں ایک دوسرے معاملے میں وزیر ارعظم پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے کانگریس کے اس وقت کےصدرراہل گاندھی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وایناڈ سے اس لیے انتخاب لڑ رہے ہیں کیونکہ‘وہاں اکثریت اقلیت میں ہیں۔’
اس معاملے کو لےکرالیکشن کمیشن کے دو دیگرممبروں سشیل چندرا اور سنیل اروڑہ نے مودی کے ذریعے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بات نہیں مانی تھی، لیکن لواسا نے کہا کہ مودی نے انتخابی ریلی میں فوج کے نام پر اپیل کی تھی، جو الیکشن کمیشن کےضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے کئی ہفتوں بعدسابق الیکشن کمشنر کے نمبر کو نگرانی کے لیےممکنہ ٹارگیٹ کی فہرست میں ڈالا گیا۔
مودی کو انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کا قصوروار ٹھہرانے کے بعد لواسا ستمبر 2019 سے جانچ ایجنسیوں کے نشانے پر آ گئے تھے۔ ان کی بیوی کومحکمہ انکم ٹیکس نے انکم ٹیکس فائلنگ میں مبینہ خامیوں کے لیے نوٹس دیا تھا۔
بعد میں نومبر 2019 میں ای ڈی نے فارن ایکس چینج مینجمنٹ ایکٹ(ایف ای ایم اے)کی مبینہ خلاف ورزی کے لیے ایک کمپنی کے خلاف جانچ شروع کی، جس میں لواسا کے بیٹے ڈائریکٹر تھے۔ اسی سال دسمبر میں لواسا کی بہن کو بھی محکمہ انکم ٹیکس نے مبینہ اسٹامپ فیس کی چوری کو لےکر نوٹس دیا تھا۔
کچھ مہینے بعد لواسا نے الیکشن کمیشن چھوڑنے اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک(اےڈی بی)میں نائب صدرکے عہدے پر جانے کا راستہ چنا، جبکہ وہ طے ضابطوں کےمطابق چیف الیکشن کمشنر بننے والے تھے۔
اےڈی بی میں بڑے عہدوں پرتقرری عام طور پر سرکار کی رضامندی کے بعد ہی ہوتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ لواسا کو اس لیے بینک میں بھیجا گیا تاکہ انہیں الیکشن کمیشن جیسےسیاسی طور پر اہم ادارے سے نکالا جا سکے، کیونکہ اس وقت کئی صوبوں میں اسمبلی انتخاب شروع ہونے والے تھے۔
اس معاملے کو لےکرصرف لواسا ہی نہیں، بلکہ اس کیس سے جڑے دو اور افراد کا نام نگرانی فہرست میں ہے۔ اس میں سے ایک انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والےادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمز(اےڈی آر)کے بانی جگدیپ چھوکر اور مودی کے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اسٹوری کرنے والی انڈین ایکسپریس کی صحافی رتیکا چوپڑہ کے نام شامل ہیں۔
اس سلسلے میں چوپڑہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن انڈین ایکسپریس نے دی وائر کے انکشاف کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح ہندوستان کے 40 سے زیادہ صحافیوں کی نگرانی کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں چوپڑہ کا بھی نام ہے۔
چھوکر نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں نہیں پتہ کہ انہیں کیوں نشانہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘میں حقیقت میں اس کے بارے میں نہیں جانتا۔ میں پچھلے 20 سالوں سے ملک میں جمہوریت اور انتظامیہ کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہوں اور اس کے لیے کبھی کبھی سرکار یا مختلف سیاسی پارٹیوں کی نکتہ چینی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کبھی انہیں یا اےڈی آر کو سرکار یا ریاستی ایجنسیوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس پر انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع آئے ہیں، جب ان سے پوچھا گیا ہے کہ کچھ چیزوں کو انتخابی نگرانی رپورٹ میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔
چھوکر نے کہا کہ انہیں پچھلے کچھ سالوں میں دھمکی بھرے فون بھی ملے ہیں اور اےڈی آر کے خلاف ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔