پیگاسس : جب میرے فون کی فارنسک جانچ کی تو معلوم ہو اکہ 2017سے ہی اس کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے اور 2019 تک اس میں سے وقتاً فوقتاً فون کالز کے ساتھ ساتھ ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا ہے۔ یہ وہی مدت تھی جس کے دوران کشمیر پر دبئی کی ٹریک ٹو کانفرنس کا تنازعہ کھڑا ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی اور دھمکیوں کے ایک سلسلہ کے بعد 2018 میں رفیق اور کشمیر کے معروف صحافی شجاعت بخاری کو قتل کیا گیا اور اس دوران مجھے بھی تختہ مشق بنایا گیاتھا۔
چند ماہ قبل فرانسیسی میڈیا تنظیم فاربڈین ا سٹوریز کے ایک عہدیدار کا ای میل موصول ہوا، جس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ وئیر پیگاسس سے متعلق ایک سال سے جاری ان کی تحقیق کے مطابق میرا فون بھی نگرانی کی لسٹ میں ہے۔ میں نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لےکر جواب لکھا کہ ؛
‘میں کوئی اتنی اہم شخصیت نہیں ہوں، جس کے لیے ہندوستانی یا اسرائیلی خفیہ اداروں کی نیندیں حرام ہوں اور وہ اس قدر وسائل اور وقت میرے فون کی نگرانی کرنے کے لیے صرف کردیں گے۔بطور صحافی ہمارا کام جلد یا بدیرپبلک ڈومین میں آہی جاتا ہے۔’
مگر جب اس کے بعد دہلی میں موجود مقتدر صحافیوں، بشمول دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل میں کام کرنے والے ایک دوست نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دوران تفتیش دنیا بھر میں جو 180صحافی پیگاسس کی لسٹ میں پائے گئے ہیں، ان میں میرا نام بھی شامل ہے، تو کسی حد تک یقین کرنا پڑا۔
بعد میں تصدیق کےلیے فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی کی تکنیکی ٹیم نے جب میرے فون کی فارنسک جانچ کی تو معلوم ہو اکہ 2017سے ہی اس کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے اور 2019تک خاصے مستعدانہ طریقے سے اس میں سے وقتاً فوقتاً فون کالز کے ساتھ ساتھ ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا ہے۔
یہ وہی مدت تھی، جس کے دوران کشمیر پر دبئی کی ٹریک ٹو کانفرنس کا تنازعہ کھڑا ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی اور دھمکیوں کے ایک سلسلہ کے بعد 2018میں رفیق اور کشمیر کے معروف صحافی شجاعت بخاری کو قتل کیا گیا اور اس دوران مجھے بھی تختہ مشق بنایا گیاتھا۔
I didn't know I am so important that Indian and Israeli intelligence will waste time, resources, and energy to record my phone.. https://t.co/hZ6JkLvPC5
— Iftikhar Gilani (@iftikhargilani) July 18, 2021
اس کے بعد بھی کلی طور پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ میں بھی فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں، جنوبی افریقہ کے صد ر سرل راما فوسا، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، ہندوستانی اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی، وزیر اعظم نریندر مودی کے کئی وزراء، لندن کے اخبار فائننشل ٹائمز کے ایڈیٹر رولے خالاف و دیگر ایسے افراد کے زمرے میں شامل ہوں، جن کے موبائل فون کو اتنا اہم سمجھ کر اس کی جاسوسی کی جارہی ہو۔وسائل کے زیاں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ایک فون پر پیگاسس سافٹ ویئر نصب کرنے کی لاگت اور اس کا لائسنس خرچہ ایک لاکھ 35ہزار ڈالر یعنی ایک کروڑ ہندوستانی روپے کے لگ بھگ ہے۔
سال 2017میں ہی نیشنل سیکیورٹی کاؤنسل سکریٹریٹ کے بجٹ میں ہوش ربا اضافہ کرکے 33 کروڑ روپے سے بڑھا کر 333 کروڑ روپے کر دیاگیا تھا اور سائبر سیکیورٹی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے نام سے الگ ادراہ قائم کیا گیا تھا۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ اسی رقم سے اور اسی ادارے کے ذریعے صحافیوں، حقوق انسانی کے کارکنان و سیاستدانوں و افسران کی جاسوسی کرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔
پچھلی تین دہائیوں سے دہلی میں صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے اتنا تو اندازہ ہے کہ خفیہ ادارے مشکوک افراد کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے رہتے ہیں یا پولیس کو کسی کیس کو حل کرنے کے لیےبھی فون ریکارڈ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ قانونی طور پر اس کے لیے سکریٹری داخلہ کی اجازت لازمی ہے۔نگرانی کی دوماہ کی مدت طے کی گئی ہے، جسے 6ماہ سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔
ہیکنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔ موبائل میں نقب زنی کرنے کاحق حاصل کرنے کے لیے ہندوستانی وزارت داخلہ نے20 دسمبر 2018 کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت نوخفیہ ایجنسیوں اور دہلی پولیس کو انٹرنیٹ وموبائل میں جاسوسی کی قانونی اجازت مل گئی تھی۔
سرینگر کے کوہ سلیمان یا شنکر آچاریہ کی چوٹی سے اگر شہر کا جائزہ لیا جائے، تو جا بجا ایریل یا اینٹینا استادہ نظر آئیں گے۔ یہ ایسی شکار گاہیں ہیں، جہاں کئی برسوں سے مختلف خفیہ ادارے ہمہ وقت ٹیلی فون یا انٹرنیٹ پر نگاہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
اکثر ایک ہی شخص کے فون اور ایک ہی گفتگو کئی درجن بھر ادارے ایک ہی وقت ٹیپ کرتے رہتے ہیں۔2011میں فرنٹ لائن جریدہ میں صحافی پروین سوامی نے لکھا تھا کہ آئی بی کو سرینگر میں اعلیٰ تکنیکی آلات مہیا کرا دیے گئے ہیں، جن سے وہ تمام تر قسم کے سیلولر و لینڈ لائن فون، ریڈیو فریکونسی اور انٹر نیٹ پر نظر رکھ سکتی ہے۔
برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ اپنی کتاب دی میڈوز میں سرینگر میں موجود ایک خفیہ محکمہ کے اہلکار کے حوالے سے لکھتے ہیں۔؛
ہمارا طریقہ کار ایسا ہوتا تھا کہ مختلف عسکری اور مذہبی گروپوں کے درمیان کنفیوژن پیدا ہو، تاکہ کوئی ایک گروپ مضبوط نہ ہونے پائے۔ ہمارا گیم اس سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ ہم کسی ایک کے منہ سے کوئی بات کہلواتے تھے، جس سے دوستی، دشمنی میں تبدیل ہوتی تھی۔ ہم نے جھوٹی اور مصنوعی تنظیمیں قائم کرکے ناقابل بیان جرائم کی پشت پناہی کی۔ ہم نے نوجوان جوڑوں کی تنہائی میں کی گئی باتیں ریکارڈ کیں اور پھر ان کو بلیک میل کیا۔ ہم نے اخلاقیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا تھا۔ اس فعل کی کوئی سرحدیں نہیں تھیں۔ احساس جرم تب ہوا، جب ہم اس گیم سے باہر آچکے تھے اور ان کو یاد کرکے اب نفسیاتی گردآب میں پھنس گئے ہیں۔
ہندوستان کی داخلی اور سب سے طاقتور خفیہ تنظیم انٹلی جنس بیورو یعنی آئی بی کے ایک سابق سینئر افسر کے مطابق ٹیلی فون کے ذریعے یا ڈیٹا کو ٹریک کرکے معلومات حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا اس کا بعد میں تجزیہ کرنا اور اس کو قابل عمل انٹلی جنس بنانا۔ خفیہ اطلاعات کے حصول کے لیےحکومت سے رقوم حاصل کرنا ہندوستان میں خفیہ تنظیموں کا وطیرہ رہا ہے، مگر بعد میں ان معلومات کو قابل عمل انٹلی جنس میں تبدیل کرنے میں وہ اکثر ناکام رہے ہیں۔
ہندوستان کی خارجہ انٹلی جنس ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی راء کے ایک سابق افسر میجر جنرل وی کے سنگھ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ان کے دور میں ایک بار طے ہوا کہ سنگاپور کے نزدیک سمندر کی تہہ سے گزرتی ہوئی سی،می، وی یعنی جنوب مشرقی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کو جوڑنے والی آپٹک فائبر لائن کی نگرانی اور ٹیپ کرنے کی ضرورت ہے۔ چند افسران نے مخالفت کی اور کہا کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئے اے کے برعکس ہندوستان کی ضروریات محدود ہیں اور اگر کوئی شخص جرمنی سے جاپان فون کرتا ہے، تو راء کیوں اس فون کر ٹریک کرنے پر اپنے وسائل خرچ کرے اور یہ بھی سوال کیا گیا کہ اس مشق کے بعد ہزاروں، لاکھوں حجم کے ڈیٹا کو کون غور سے پڑھنے کے بعد اس کا تجزیہ کرےگا؟
مگر سبھی اعتراضات مسترد کرنے کے بعد کئی ارب روپے کے آلات خریدے گئے اور کام شروع کیا گیا۔ چند ہی مہینوں میں دفتر کی ایک ونگ کے کئی کمرے ٹیپ کے اسپو ل اور کاغذات سے بھر گئے۔ کسی کو فرصت تھی، نہ اتنے انسانی وسائل تھے، جو ان کو استعمال کرسکتے تھے۔ خیرکئی ما ہ بعد جب نئے سربراہ نے عہدہ سنبھالا اور اس نے ان کمروں میں موجود کاٹھ کباڑ کے بارے میں پوچھا، تو اس نے اس مشق کو بند کرنے کا فرمان جاری کردیا۔
قابل ذکر ہے کہ 2مارچ 2017کو میکسکو میں ایک صحافی سیسیلو پینڈا نے جب اپنے موبائل فون پر حکومتی عہدیداروں اور مقامی ڈرگ مافیا کے درمیان تال میل کے بارے میں ایک اسٹوری ریکارڈ کی اور اس کے ابتدائی حصے اپنے فیس بک پر اپ لوڈ کیے تو اس کے چند گھنٹوں کے بعد ہی کسی موٹر سائیکل سوار نے اس کے سینے میں چھ گولیاں اتار کر اس کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس کا موبائل فون بھی غائب تھا۔
فاربڈین اسٹوریز کی تحقیق کے مطابق پینڈا ان پچاس ہزار افراد کی لسٹ میں ہے، جن کے فون کو پیگاسس کے ذریعے ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ چونکہ اس کا فون برآمد نہیں ہوا اس لیے اس کی فارنسک چانچ نہیں کی گئی۔ اسی طرح اکتوبر 2018میں جب واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس جمال خاشقجی کو ترکی کے شہر استبول میں واقع سعودی قونصل خانہ کے اندر قتل کیا گیا، تو ان کے ایک قریبی دوست عمر عبدالعزیز کے فون کو پیگاسس کے ذریعے ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ نئے انکشافات کے مطابق پیگاسس کا سافٹ ویئر خاشقجی کی منگیتر حاطس چنگیز کے فون پر بھی قتل کی واردت سے چار دن قبل نصب کیا گیا تھا۔
تقریباً ایک سال قبل فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واشنگٹن پوسٹ، لندن کے گارڈین اخبار اور ہندوستان کے دی وائر کی مدد سے اسرائیلی کمپنی این ایس او ٹکنالوجی کے تیار کردہ پیگا سس سافٹ ویئر سے کی جانے والی جاسوسی نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑنے کا بیڑا اٹھایا۔
معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں 50ہزار کے قریب افراد اس کی زد میں ہیں، جن میں 180صحافی، 50سیاستدان، جن میں کئی مملکتوں کے سربراہان یا وزیر بھی شامل ہیں اور ایک بڑی تعداد انسانی حقوق کے کارکنان و افسران اور ججوں کی ہے۔ اس لسٹ کو حاصل کرنے کے بعد لندن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک سیکیورٹی لیب قائم کرکے ان میں سے اکثر افراد سے رابطہ کرکے ان سے اپنے فون کی فارنسک جانچ کروانے کی گزارش کی۔ دوبارہ تصدیق کے لیے کنیڈا کے تکنیکی گروپ سٹیزن لیب نے بھی معاونت کی۔
اسرائیلی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ یہ حساس سافٹ ویئرصرف حکومتوں کو ہی مہیا کرتے ہیں، اس لیے کسی غیر متعلق شخص یا پرائیویٹ پارٹی کا اس تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہے۔اس کو خریدنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے کیونکہ اس کی خریدوفروخت کی تمام دستاویزات مکمل طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 40ممالک میں ان کے 60کلائنٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سافٹ ویئر سے دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیموں پر قد غن لگانے میں مدد ملی ہے اورکئی حادثے ٹل گئے ہیں۔
مگر جو نام منظر عام پر آ ئے ہیں ان میں نہ تو کوئی دہشت گرد ہے اور نہ ہی جرائم پیشہ۔ بیشتر افراد تو حکومت کے سیاسی مخالفین ہیں یا پھر اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ اس کمپنی کے ایک افسر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اس سافٹ ویئر کے ذریعے صحافیوں و انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے کا نوٹس لےکر متعلقہ حکومتوں سے جواب طلب کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عام سافٹ ویئر نہیں ہے،اور اس کو نصب کرنے کے لیے تکنیکی مہارت کا ہونا لازمی ہے۔
ہندوستان میں میرے ایک سینئر ساتھی پرنجوئے گوہاٹھاکرتا کو اس سافٹ ویئر کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب وہ معروف صنعتی گھرانہ امبانی سے متعلق ایک اسٹوری پر کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے فون کو صرف اس وجہ سے ٹارگٹ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ اسٹوری کے لیے کون مواد فراہم کرا رہا ہے۔
اسی طرح میرے سابق ادارے ڈی این اے میں میرے دو کولیگ سیکت دتہ اور دیپک گڈوانی بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔ دہلی میں مقیم دو اور کشمیری صحافی انڈین ایکسپریس کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر مزمل جلیل اور ہندوستان ٹائمز کے لیے کانگریس پارٹی کو کور کرنے والے اورنگ زیب نقشبندی اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا یعنی پی ٹی آئی کے سیکیورٹی ایڈیٹر سمیر کول بھی پیگاسس کی زد میں رہے ہیں۔
دی وائر کا ایک طرح سے پورا اسٹاف ہی لسٹ میں ہے۔
الکٹرانک فرنٹیر فاؤنڈیشن میں سائبر سیکیورٹی کی ڈائریکٹر ایوا گالپی رن نے 2010میں پہلی بار پیگاسس کی مدد سے ویٹ نام اور میکسکو میں صحافیوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا پتہ لگایا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ 2011 تک اس کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ ایک ای میل بھیجی جاتی تھی۔ جونہی وصول کرنے والا شخص اس کو کھولتا تھا، تو اس کا میل ویئر اسکے کمپیوٹر میں جذب ہوکر اس کا ڈیٹا ارسال کرنے والے ادارہ تک پہنچاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سافٹ ویئر اب خاصا جدید ہو گیا ہے، اور اب میل وغیرہ بھیجنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ فون کو استعمال کرنے والے صارف کی کسی کارروائی کے بغیر ہی موبائل فون پر یہ لوڈ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فون کا سارا ڈیٹا، فون کالز، انکرپٹ کا دعویٰ کرنے والے ایپ یعنی وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام، سگنل وغیرہ سب نگرانی کرنے والے کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ گالپی رن کے مطابق پیگاسس کی مدد سے ٹارگٹ کیے گئے فون کے ذریعے آڈیو اور ویڈیو بھی ریمورٹ سے ہی ریکارڈ کیے جاسکتے ہیں۔
ویسے تکنالوجی کی آمد کے بعد دنیا بھر کے خفیہ ادارے انسانوں کے ذریعے خفیہ معلومات کے حصول یعنی HUMINTکے بجائے تکنالوجی کے ذریعے خفیہ معلومات یعنی TECHINTکے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ دو دہائی قبل تک کانگریس پارٹی کی بریفنگ کے بعد ہال یا دفتر کے باہر انٹلی جنس بیورو کے سیاسی سیل کے اہلکار گھومتے رہتے تھے اور صحافیو ں کی منت سماجت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ ترجمان نے آج کیا بیان دیا ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصے قبل بند ہو گیا ہے۔
شاید اب ان کو کسی لیڈر کے فون کی جاسوسی کرنا نسبتاً آسان لگتا ہوگا۔ دنیا بھر میں اب کئی حکومتیں اور کمپنیاں جاسوسی کے آلات بیچتی ہیں۔ اسی سال جون میں معلوم ہوا تھا کہ ایک فرانسیسی کمپنی ایمی سس نے 2007سے 2011تک لیبیا کی حکومت کو ایسا سافٹ ویئر فراہم کیا تھا، جس کی مدد سے وہ اپوزیشن لیڈروں کی نگرانی کر رہی تھی اور بعد میں ان کو گرفتار کرکے ٹارچر کیا گیا۔
ان تمام تر انکشافات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر اب دنیا بھر میں مخالفین اور تنقید کرنے والوں کو چپ کرانے کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کے بطور سامنے آگیا ہے۔ یہ بھی طشت از بام ہوگیا ہے کہ حکومتیں جمہوری ہی سہی، مگر وہ تمام ضابطوں کی دھجیاں بکھیر کر نجی زندگی میں کس حد تک مداخلت کرسکتی ہیں۔
یہ شاید پوری دنیا کے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔ یہ انکشافات کہہ رہے ہیں کہ اگر اب بھی نہ جاگے، اورضابطو ں و پرائیویسی کے قوانین کو اور سخت نہ بنایا گیاتو آپ کا بیڈ روم بھی کسی کی دسترس سے محفوظ نہیں ہے۔