گزشتہ 20 جولائی کومرکز کی نریندر مودی سرکار کی جانب سے راجیہ سبھا میں کہا گیا کہ کورونا وائرس انفیکشن کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی غیرمتوقع ڈیمانڈ کے باوجودکسی بھی صوبےیایونین ٹریٹری میں اس کے فقدان میں کسی کے مرنے کی اسے جانکاری نہیں ہے۔اس کے پاس اس بات کی جانکاری بھی نہیں ہے کہ دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں میں سے اب تک کتنے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
لکھنوی تہذیب کی نمائندگی کرنے والے اپنے وقت کےمعروف شاعر کرشن بہاری نور (1926-2003)کا ایک مشہور شعر ہے؛
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
گزشتہ20 جولائی کو راجیہ سبھا میں ہوئی چرچہ میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ملک میں آکسیجن کی کمی سے ایک بھی موت نہ ہونے کا دعویٰ کرکے نریندر مودی سرکار نے بلاشبہ اس شعرکے ‘جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں’ والے حصہ کی ہی تائید کی۔
اس کی جانب سےصحت اور خاندانی بہبود کے وزیرمملکت بھارتی پروین پوار کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں تحریری طور پر یہ بتانے کے بعد کہ کورونا انفیکشن کی دوسری لہر میں آکسیجن کی غیرمتوقع ڈیمانڈ کے باوجودکسی بھی صوبے یا یونین ٹریٹری میں آکسیجن کی کمی سےکسی کے مرنے کی اسے جانکاری نہیں ہے، ہمارے جواب مابعد سچائی کے دورمیں پہنچ جانے کو لےکر رہے سہےشکوک بھی ختم ہو جانے چاہیے۔
اب یہ تو ملک کے شہریوں کی‘بدقسمتی’ہے کہ اس مابعد سچائی کے دور میں بھی وہ سرکار کے اس قول کو ‘پالیٹکلی کریکٹ’ بھی نہیں مان پا رہے۔ ان کی اس بدقسمتی کے پیچھے انہیں اس بات کا علم ہونا ہے کہ اس سرکار کے پاس ایک نہیں کئی کئی زبانیں ہیں ایک زبان سے اس کے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومرمظاہرہ کر رہے کسانوں کوزرعی قوانین پر ‘کھلے من سے’بات چیت کے لیےمدعو کرتے ہیں تو دوسری زبان سے وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی اور کھیل اوراطلاعات ونشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر کسانوں کو موالی بتانے لگتے ہیں۔
بات دور تک جانے لگتی ہے تو میناکشی لیکھی تیسری زبان سے اپنے کہے پراظہار افسوس بھی کر دیتی ہیں۔
پیگاسس جاسوسی معاملے میں ایک زبان سے وزیر داخلہ امت شاہ اس کی کرونولوجی سمجھاتے ہیں تو دوسری زبان سے انوراگ ٹھاکر بھولے بن کر پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ وزیر داخلہ نے ایسا کب کہا۔
ایسے میں کئی شہری اب اس اندیشے سے پریشان ہوں تو حیرانی نہیں ہونی چاہیےکہ آگے کسی دن یہ سرکار یہ کہتی ہوئی نہ دکھ جائے کہ کورونا کی دوسری لہر تو ملک میں کبھی آئی ہی نہیں، وہ تو پہلی لہر کوکامیابی سے ہرا دینے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی بزدلی محض سے ڈرکر الٹے پاؤں واپس لوٹ گئی تھی!
ویسے اس سلسلے میں کچھ ‘ناشکروں’ کا یہ کہنا بھی کچھ کم قابل توجہ نہیں کہ دوسری لہرقہر برپا رہی تھی اور ایک کے بعد ایک لوگ دم توڑ رہے تھے، تو یہ سرکار منظرنامے سے پوری طرح غیرحاضرتھی۔ اس کی اسی غیرموجودگی کو تو اس کے حامی اسے بچانے کے لیے سسٹم کا فیل ہونا بتا رہے تھے۔ اس لیے بہت ممکن ہے کہ سچ مچ اس کے پاس اس دوران کسی کے بھی آکسیجن کی کمی سے دم توڑنے کی جانکاری نہ ہو۔
اوپر بتا آئے ہیں کہ اس میں ایک وزیر کو دوسرے کے بیانات تک کی معقول جانکاری نہیں رہتی۔ اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں داہنے ہاتھ کو پتہ نہیں رہتا کہ بایاں کیا کر رہا ہے؟ کسے نہیں معلوم کہ اس کے پاس اس بات کی جانکاری بھی نہیں ہے کہ راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر پچھلے کئی مہینوں سے مظاہرہ کررہے کسانوں میں سے اب تک کتنے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں؟
اسی طرح اسے قطعی معلوم نہیں کہ پچھلے سال سارے ملک پر بنا سوچے سمجھے تھوپ دیےگئے ٹوٹل لاک ڈاؤن کے دوران تقسیم کے بعد کی سب سے بڑی نقل مکانی کے شکار ہوئے مہاجرمزدوروں میں کتنے بھوکے پیاسے جان گنوانے کو ملعون ہوئے اور کتنے ریلوں و سڑک حادثات کی چپیٹ میں آکر؟
اسی معلوم نہ ہونے کی بنا پر ہی تو وہ ان کے اہل خانہ کو معاوضے کے طور پر پھوٹی کوڑی دینے سے بھی صاف انکار کرتی آ رہی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو ‘غنیمت’سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ سطریں لکھنے تک کورونا سے ہوئی 4.22 لاکھ سے زیادہ اموات سے انکار نہیں کر رہی اور انہی مطالعہ اور رپورٹس کو ‘ملک کی امیج بگاڑنے کی ملکی غیرملکی سازش’سے جوڑ رہی ہے، جو ثابت کر رہے ہیں کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد اس کے دیےاعدادوشمار کی دس گنی تک ہو سکتی ہے۔
‘ہر ہر مودی گھر گھر مودی’ کا جاپ کرتے آ رہے نیوز میڈیم،ملکی ہوں یا غیرملکی، اچانک کورونا سے موتوں کے معاملے میں‘بے ادب’ ہوکر ناموافق سچ بتانے اور سرکاری منصوبوں کے خلاف جانے لگیں تو کسی بھی سرکار کو ‘سازش’ کاشک تو ہوتا ہی ہے!
خاص طور سے جب اس نے اپنے سات سالوں میں ہی ذمہ داری وشفافیت جیسی جمہوری قدروں سے اپنا ناطہ پوری طرح سےتوڑ لیا اورحقائق کو چھپانے یا توڑمروڑکر پیش کرنے کو اپنے ڈی این اے میں شامل کر لیا ہو۔ ساتھ ہی فرض کی ادائیگی میں اپنی ناکامیوں کو نہ پارلیامنٹ کے باہر قبول کر پاتی ہو اور نہ اندر۔
اتنا ہی نہیں، تاریخ کے کئی گوشوں کو لےکرنیم صداقتوں و بےمعنویت سے کام چلاتے چلاتے حال کو بھی ان کے حوالے کر چکی ہو۔
ایسے میں اسے یاد دلانا فضول ہے کہ ابھی بھی اس ملک میں ہاتھ کے کنگن کو اپنی آنکھوں سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ اسے درپن میں دیکھنے کی روایت ابھی بھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی ہے، جتنی وہ سمجھتی ہے۔
اس لیے جو لاکھوں لوگ دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی سے جوجھنے اور اپنے اہل خانہ کو اسپتالوں، ان کے برآمدوں، گھروں، ایمبولینسوں اور کئی معاملوں میں سڑکوں پر ہی ہانپتے دیکھنے و گنوانے کوملعون ہوئے، وہ اس کے ایسی ایک بھی موت نہ ہونے کے دعوے کو گھاؤ پر نمک سے زیادہ کا درجہ دے پائیں گے۔
یہ ماننے کی وجہ ہیں کہ آج نہیں تو کل، وہ پوچھیں گے ضرور کہ آکسیجن کی کمی نہیں تھی تو کیا انہیں اس کے سلنڈروں کے لیے لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے گھروالوں کی زندگی بچانے کی ناکام کوشش میں وقت ضائع کرنے کا شوق چرایا ہوا تھا؟
عام لوگوں کو چھوڑ بھی دیں، تو کئی معروف ہسپتالوں تک میں آکسیجن ختم ہونے سے برپا چیخ و پکار کے جو ویڈیو اور رپورٹ سامنے آئے، کیا وہ سب کی سب انہیں بنانے لکھنے یا دیکھنے پڑھنے والوں کی آنکھوں کا بھرم بھر تھیں؟
اگر نہیں تو عام سمجھ سے بھی انہیں یہ سمجھنے میں پریشانی نہیں ہونے والی کہ جیسے کورونا سے ہوئی متعدداموات کو دیگر بیماریوں کی وجہ ہونا بتایا جاتا رہا ہے، آکسیجن کی کمی سے ہوئی ا موات کو بھی کسی اور کھاتے میں گن دیا گیا ہوگا۔
کورونا کے مینجمنٹ میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسے کرتب نہ صرف نریندر مودی کی بلکہ کئی صوبوں کی سرکاریں بھی کرتی رہی ہیں۔ ان میں سب سے تازہ مثال کورونا کی ٹیکہ کاری کی ہے، جس میں ٹیکوں کی شدید کمی کے بیچ کئی ریاستی سرکاریں ‘مفت ٹیکوں کے لیے مودی جی کاشکریہ’ ادا کرتی دیکھی گئی ہیں۔
یوں اس سلسلے میں بڑا سوال یہ ہے کہ ‘ستیہ میو جیتے’ کا نعرہ لگاتے رہے ملک میں سچ اور حقیقت کی توہین کی سرکاری سسٹم کی بے شرم کوششوں نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے اور ایسا ہی رہا تو آگے کہاں لے جاکر کھڑا کریں گی؟ شاید وہاں، جہاں جھوٹ اتنا عام ہو جائےگا کہ یہ سوال ہی غیرمتعلق ہوکر رہ جائےگا کہ سرکاریں اسے بولنے کی اتنی ہمت کہاں سے لاتی ہیں؟
اس سے ہماری جمہوریت کا جو سب سے بڑی نقصان ہوگا، وہ یہی کہ لوگ پارلیامنٹ کو بھی جمہوریت میں جوابدہی کے سب سے بڑے منچ کے بجائے ایسے منچ کے روپ میں دیکھنے لگیں گے کہ جہاں حکومتوں کے ذریعےاکثریت کی طاقت کے بوتے دن کو رات بتایا اور کسی بھی طرح کے جھوٹ کو اس کی کارر وائی میں شامل کرایا جا سکتا ہو۔
اس سےپارلیامنٹ کا وقارتو گرے گاہی، لوگوں کاجمہوریت اور اس کےاداروں پر سے بھروسہ بھی اٹھنے لگےگا۔ لیکن اس سے بھی بڑا اورصاف کہیں تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ویسا ہونے تک عوام سرکار کو جان بوجھ کر ‘موندہو آنکھی کتہں کچھو ناہیں’ کی راہ پر چلتی رہنے دیں گے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئرصحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر