حیرت کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک اہم لیڈر جب اس مجوزہ قانون کا اعلان کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائےگا اس لیڈر کے اپنے آٹھ بچے ہیں ۔ خود اترپردیش اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے 152اراکین کے تین سے زیادہ بچے ہیں۔
دہلی کی جھلستی گرمی اور حبس سے چھٹکارا پانے کے لیے میں پچھلے ایک ہفتے سے زائد عرصے سے ہماچل پردیش کے ہرے بھرے پہاڑوں میں پناہ لینے کے لیے پہنچی تھی۔ بطور صحافی دوران سفر کان اور آنکھیں کھول کر رکھنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ کیا پتہ کہاں کس وقت کسی اسٹوری کا نزول ہو یا راستے میں ہی لکھنے کے لیے کوئی آئیڈیا ملے۔
آج کل ویسے ہی اکثر ایسے افراد سے ملاقات تو ہوتی ہی رہتی ہے، جو سوشل میڈیا کی یونیورسٹیوں سے علم حاصل کرکے اور تصدیق کیے صرف یقین ہی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اپنے آپ کو اسکالر سمجھ کر اس ناقص و بغیر تصدیق معلومات پر ستائش وصول کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
اسی گروپ میں آج کل ایک گروپ بھگتوں کا ہے، جو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے وہاٹس ایپ گروپوں میں شامل ہیں، اور اس میں جو کچھ مشتہر کیا جاتا ہے اس پر آنکھ بند کیے یقین کرکے اس کو اور پھیلاتے ہیں۔
ہاں اس سفر کے دوران ٹرین کی کھڑکی سے کہیں دور سے ایک مسجد کے میناروں سے اذا ن کی آواز آرہی تھی۔ تو پاس بیٹھے ایک شخص نے لقمہ لگایا۔
یہ لوگ(مسلمان) کئی کئی شادیا ں کرکے پچیس بچے پیدا کرکے اس ملک کا بیڑا غرق کرنے پر تلے ہیں۔ویسے ہی اتنی زیادہ آبادی ہے، یہ پوری خوراک ہضم کرجاتے ہیں۔
اتنا تو یقین ہوگیا کہ یہ ادھیڑ عمر کا آدمی اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور سوشل میڈیا کی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے۔ میں نے اپنا رخ اس کی طرف کرکے پوچھا کہ ؛انکل آپ کا کیا کوئی مسلمان دوست ہے؟“ ظاہر سی بات ہے کہ جواب نفی میں تھا۔ میں نے پھر پوچھا کہ جس آفس میں آپ کام کرتے ہیں، تو وہاں کوئی مسلمان تو ہوگا یا جس علاقہ میں آپ رہتے ہیں، وہاں آس پاس کوئی مسلم لوکلٹی تو ہوگی۔
معلوم ہوا کہ ان کے دفتر میں چپراسی اور چوکیدار مسلمان ہیں اور ان کی لوکلٹی میں بھی چند مسلم گھرانے ہیں۔ میں نے بات آگے بڑھانے کے لیے کہا ”کہ ان کے دفتر کے چوکیداور چپراسی کی کتنی بیویاں اور بچے ہیں اور ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں جو مسلم گھرانے ہیں ان کے ہاں کتنے بچے ہیں؟“ وہ اس پر اپنی بغلیں جھانکنے لگے۔ میں نے کہا کہ اپ اتنی بڑی بات اس طرح چھوڑ کر پہلے تصدیق کیوں نہیں کر تے ہو؟
آج کل مڈل کلاس میں کسی کی ہمت ہے کہ دو بیویاں رکھے اور پھر بچے پیدا کرتا رہے۔ بچے کے اسکول ایڈمشن پر ہی تو تو دانتوں پسینہ آتا ہے۔ پرانے زمانے میں مسلمان کیا ہندو ایک قبائلی سسٹم اور دیہاتوں میں کھیتی وغیرہ کے لیے سبھی کو زیادہ افراد کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لیے زیادہ بچوں کا مطلب مضبوط قبیلہ اور کھیتی باڑی کے لیے زیادہ ہاتھ ہونا ہوتا تھا۔ کیا رامائن کے اہم کردار بھگوان رام کے والد راجہ دشرتھ کی چار بیویاں نہیں تھیں۔ کئی اور ہندو اساطیری کہانیوں کے کرداروں کی بھی تو ایک سے زائد بیویاں ہوتی تھیں۔
چونکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم انتخابی ایشو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنااور ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر عالیشان رام مندر تعمیر کرنا اب مکمل ہو چکے ہیں اس لیے اب اس کے لیڈران کوئی نیا ایشو کھڑا کرنے کے فراق میں ہیں، جس سے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ووٹ بٹور سکیں۔
بی جے پی کی قیادت میں متعدد صوبائی حکومتوں نے ان دنوں آبادی کنٹرول سے متعلق قوانین بنانے کی کوشش شروع کیں ہیں۔ ادھر پارلیامنٹ کے رواں مون سون اجلاس میں بھی بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیامنٹ نجی بل لانے کی تیاری کررہے ہیں۔ اگلے سال اتر پردیش میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
اس لیے ہندو مسلم شادیوں پر پابندی عائد کرنے اور آبادی کا کنٹرول کرنے والا قانون لاکر وہ مسلمانوں کو معتوب بناکر انتخابات کے لیے ماحول تیار کر رہے ہیں۔ اس قانون کی رو سے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے خاندانو ں کے لیے سرکاری اسکیموں سے فائدہ حاصل کرنے پر پابندی عائد ہوگی وہ انتخابات بھی نہیں لڑ سکیں گے۔
حیرت کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک اہم لیڈر جب اس مجوزہ قانون کا اعلان کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائےگا اس لیڈر کے اپنے آٹھ بچے ہیں۔ خود اترپردیش اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے 152اراکین کے تین سے زیادہ بچے ہیں۔دیکھنا ہوگا اب اس قانون کے بعد وہ ان بچوں کا کیا کریں گے۔
وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ 2024 کے عام انتخابات میں وزارت اعظمیٰ کے بھی دعویدار ہیں۔ لیکن اتر پردیش میں کورونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی اور نظم و نسق کی بگڑتی ہوئی صورت حا ل نے ان کے سیاسی قد کو خاصا نقصان پہنچا یا ہے۔ کوئی ایسی کارکردگی نہیں ہے، جو کو لےکر ووٹ مانگے جاسکیں یا وہ اپنے آپ کو نریندر مودی کا جانشین ثابت کرسکیں۔ ان کے لیے زعفرانی لباس پہن کر ہندو ووٹروں کورام کرنا ہی مشکل ہو رہا ہے۔
ترقیاتی کاموں اور سرکاری فلاحی منصوبوں وہ صفر ہی کیوں نہ ہوں، صوبہ کی79.73 فیصد ہندو آبادی کو 19.26 فیصد مسلمانوں کے خلاف کو بھڑکانا ان کو ایک آسان ہتھیار لگتا ہے۔ آدتیہ ناتھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آسام کے وزیر اعلی ہیمت بسوا سرما نے تو پہلے ہی اسمبلی انتخابات میں ہندو بنان مسلمان اور بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بناکر ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔
ان کی حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں علاقوں میں گوشت فروخت کرنے پرپابندی عائد کر رہی ہے۔ کیا گوشت صرف مسلمان ہی کھاتے ہیں؟ میرا تجربہ تو ہے کہ ہندوؤں کو بھی گوشت کے سالن اور بریانی سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کسی اور کو۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول نہیں کیا گیا، تو چند برسوں میں ہی ہندو ہندوستان میں اقلیت میں تبدیل ہوگی۔ ان عقل کے اندھوں کو اب کون بتائے کہ مسلم حکمرانوں کے ایک ہزار سالہ دور اور پھر برطانیہ کے دو سو سالہ اقتدار میں جب ہندوستان میں ہندو اقلیت میں نہیں پہنچے تو اب وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں ان کی آبادی کو کیسے خطرہ ہے؟
ایک ہزار سال حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں کا تناسب آبادی میں 20فیصد سے کم ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کو بھی جوڑا جائے، پھر بھی ہندو آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
ماہر بشریات بتاتے ہیں کہ زیادہ بچوں کا رجحان غریبوں میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کو کمانے کے لیے کئی ہنر مند ہاتھ چاہیےیا اگر زیادہ ہی غریب ہے تو بھیک اکٹھی کرنے کے لیے زیادہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہاتھوں کی ضروت پڑتی ہے۔ اس کا کسی کے فرقہ یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت پر سچر کمیٹی اور اس کے بعد کی دیگر رپورٹوں میں چونکہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں وہ صحت،تعلیم اور فی کس آمدنی کے معاملے میں خاصے پیچھے ہیں، اس لیے اس طبقہ میں زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان ہے۔قومی اوسط 64.8 فیصد خواندگی کے نسبت، مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 59.1 فیصد ہے۔ حکومت سے متعلقہ ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی شرکت انتہائی کم ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غریبی کی سطح سے نیچے رہنے والوں کی آمدن کو بڑھانے اور ان کو مڈل کلاس میں پہنچانے سے ہی آبادی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مانع حمل فارمولہ ہے۔ تعلیم اور اعلیٰ معیار زندگی کا کم بچے پیدا کرنے کے ساتھ براہ راست رشتہ ہے۔لیکن حکومت اس عام فہم وضاحت کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور ترقی پر توجہ دینے کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت کو قائم رکھنے میں ہی فائدہ محسوس کرتی ہے۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دو بچوں کے اصول کو نافذ کرنے سے طلاق کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ اس سے خواتین کے حمل گرانے کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا اور اس سے جنسی تناسب کم ہو جائےگا۔عالمی سطح پر بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
جب چینی حکومت نے ایک بچے کے اصول کو نافذ کیا تھا تب بہت سے چینی خاندانوں نے بیٹے کی خواہش میں اپنی بیٹیاں کو پیدا ہونے سے قبل ہی رحم گرا دی تھیں۔ چین کے علاوہ کسی بھی ملک نے بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی ہے۔
کسی ایک فرقہ کو نشانہ بنانے کے بجائے حکومت کو عوام کا معیار زندگی بلند کر نے پو توجہ دینی چاہیے، جس سے خود ہی خاندان چھوٹے ہو جائیں گے اور ملک بھی خود کفیل ہو جائیگا۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے جب فرقہ وارانہ بنیادوں پر کھڑی سیاست کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی، جس کے امکانات فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)