خبریں

کشمیری صحافی نے کہا-ڈی لٹ ٹوئٹ کو لے کر پولیس نے پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی

کشمیری صحافی عرفان امین ملک نے جموں وکشمیر کی فلم پالیسی کے بارے میں سات اگست کی شام کو ایک ٹوئٹ پوسٹ کیا تھا۔ حالانکہ ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے دو منٹ کے اندر ہی انہوں نے اسے ڈی لٹ کر دیا تھا، لیکن جموں وکشمیر پولیس نے آٹھ اگست کو ملک کو جنوبی کشمیر کے ترال پولیس اسٹیشن بلایا، جہاں ان سے اس بارے  میں پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔

کشمیری صحافی عرمان امین ملک ،فوٹو: فیس بک

کشمیری صحافی عرمان امین ملک ،فوٹو: فیس بک

کشمیر کے ایک صحافی کو ایک ٹوئٹ کی وجہ سےپولیس اسٹیشن میں طلب کرنے اور ان سے لگ بھگ پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ کشمیری صحافی عرفان امین ملک نے یہ ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے دو منٹ بعد ہی اسے ڈی لٹ کر دیا تھا، لیکن پھر بھی انہیں طلب کیا گیا۔

دی وائر کے لیے لگاتار لکھنے والے ملک (30)کو اظہار رائے  کی آزادی کے اپنے بنیادی حق  کا استعمال کرنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔دراصل جموں وکشمیر پولیس نے گزشتہ آٹھ اگست کو ملک کو جنوبی کشمیر کے ترال پولیس اسٹیشن بلایا، جہاں ان سے ایک ٹوئٹ کو لےکر پوچھ تاچھ کی گئی۔ یہ ٹوئٹ انہوں نے اپنے نجی ٹوئٹر ہینڈل سے کیا تھا۔

یہ ٹوئٹ دراصل یونین ٹریٹری کی فلم پالیسی کو لےکر تھا، جس کی حال ہی میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے رونمائی  کی تھی۔ملک نے کہا کہ انہوں نے ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے دو منٹ کے بعد ہی اسے ڈی لٹ کر دیا تھا، لیکن کسی طرح پولیس کو اس کا پتہ چل گیا۔

ملک کہتے ہیں،‘ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ایک جمہوری نظام میں رہتے ہیں جہاں سب کے پاس اظہاررائے  کی آزادی کا حق ہے اور ہر کوئی اپنی رائے رکھ سکتا ہے اور میں نے بھی اپنے اسی حق  کا استعمال کیا۔’

انہوں نے بتایا،‘میں شادی شدہ ہوں اور میری ایک بیٹی ہے۔ میری فیملی پولیس اسٹیشن کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔ انہیں بھی اس تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا، لیکن مجھے طلب کیا گیا اور ایک مجرم کی طرح گھنٹوں تک پولیس اسٹیشن میں مجھ سے پوچھ تاچھ کی گئی۔’

انہوں نے کہا کہ کسی کے اہل خانہ نہیں چاہتے کہ ان کے بیٹے کو پولیس اسٹیشن بلایا جائے۔ ملک نے کہا کہ ان کے والدین ان سے پوچھ تاچھ کے بعدفطری طور پر فکرمند تھے۔ملک نے کہا،‘پولیس نے مجھے اپنی رائےکا اظہارکرنے کے لیے طلب کیا۔ یہ کئی سطحوں پر پریشان کن ہے۔ ہمارے پاس اپنے خیالات کے اظہار کا تھوڑا اسپیس ہونا چاہیے۔’

ایک ٹوئٹ پر سمن

ملک نے دی وائر سے فون پر بات چیت میں کہا کہ انہیں جموں وکشمیر کی فلم پالیسی کے بارے میں سات اگست کی شام کو ایک ٹوئٹ پوسٹ کیا تھا، جسے لےکر انہیں کچھ شبہ تھا۔ملک نے کہا کہ ٹوئٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فلم صنعت کے ریوائیول سے وادی  میں ریونیو اورمواقع پیدا ہوں گے۔

چونکہ، اس ٹوئٹ کو پوسٹ کرنے کے دو منٹ کے بعد ہی ڈی لٹ کر دیا گیا تھا اس لیے دی  وائر کو اس ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ نہیں مل سکا۔

ملک نے کہا،‘ٹوئٹ ڈی لٹ کرنے کے فوراً بعد ترال پولیس اسٹیشن سے ایک فون آیا اور انہیں شخصی طور پر پولیس اسٹیشن میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ پولیس اسٹیشن میں دو پولیس افسروں نے ان سے کئی گھنٹوں تک ان کے ٹوئٹ کو لےکر پوچھ تاچھ کی۔’

انہوں نے کہا کہ وہ لگ بھگ پانچ گھنٹوں تک پولیس اسٹیشن میں رہے۔

انہوں نے کہا،‘میں حیران تھا کیونکہ میں نے دو منٹ کے بعد ہی ٹوئٹ ڈی لٹ کر دیا تھا۔ حالانکہ میرا ٹوئٹ نقصاندہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی طرح سے قابل اعتراض  تھا۔ میں نے یقیناً وہاں پر اپنادفاع کیا۔’انہوں نے کہا کہ پولیس افسروں نے انہیں بتایا کہ انہیں اعلیٰ حکام سے ان کے ٹوئٹ کے بارے میں شکایت ملی تھی کہ اس ٹوئٹ سے پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور یہ نظم ونسق  کومتاثر کر سکتا ہے۔

پولیس افسروں  نے انہیں یہ بھی بتایا کہ سرکار اپنی نئی پالیسی کے ذریعے فلم انڈسٹری کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ملک نے کہا، ‘آخرکار پانچ گھنٹے بعد مجھے رہا کیا گیا۔ رہا کرنے سے پہلے انہوں نے کچھ کاغذات پر مجھ سے دستخط لیے۔’

ملک نے کہا کہ مستقبل میں وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرنے سے پہلے احتیاط سے کام لیں گے۔انہوں نے کہا، ‘میں اپنا کام کرتا ہوں۔ ہم روزانہ بہت دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ کشمیر میں صحافی ہونا آسان نہیں ہے۔’

بتا دیں کہ 2019 میں جموں کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کیے جانے کے کچھ دنوں بعد ملک کو نامعلوم وجوہات سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ملک نے کہا،‘میرا ماننا ہے کہ ہر چیز سرولانس کے دائرے میں ہے۔ یہاں تک کہ ہماری نجی زندگی بھی اس سے اچھوتی نہیں ہے۔ یہ پریشان کن صورتحال ہے۔’اس سلسلے میں اونتی پورہ کے ایس پی محمد یوسف نے دی وائر کے کال اورمیسیج کا جواب نہیں دیا۔ پولیس انتظامیہ  سےردعمل ملنے پر اس اسٹوری  کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

بتا دیں کہ پانچ اگست کو لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے فلم ایکٹرعامر خان اور فلمساز راج کمار ہرانی کے ساتھ جموں وکشمیر فلم پالیسی 2021 کی رونمائی  کی تھی۔

اس موقع پر سنہا نے اس دن کو تاریخی بتاتے ہوئے کہا تھا کہ سرکار نے جموں وکشمیر کا دورہ کرنے والے فلمسازوں کو مراعات دیے جانے کے علاوہ ایک سنگل ونڈو کلیرنس سسٹم تیار کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی آلات، لوکیشن اور صلاحیتوں کی ایک ڈائریکٹری تیارکی ہے۔ اس نئی پالیسی کا مقصد باصلاحیت مقامی فن کاروں  کی صلاحیت کو بڑھانا اور لوگوں کے لیےروزگار  کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں