یہ سچ ہے کہ برسوں تک مسلمانوں اور پاکستان کے متعلق میرے خیالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ کئی مسلمانوں کے ساتھ علیک سلیک تو تھی، مگر دادی کی کہانیاں یاد کرکے میں ان سے مزید تعلقات استوار کرنے سے کتراتی تھی۔سال 2015 میں کچھ ایسا ہواکہ میری کاپا پلٹ ہوگئی۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا، میں نے دیکھا کہ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی میری دادی جیسے کہیں کھو جاتی تھی۔ سونے سے قبل جب ہم بچے کہانی کی فرمائش کرتے تو وہ پریوں کے بجائے ہمیں پاکستانی شہر راولپنڈی کی کہانی سناتی تھی۔
اس کہانی کو سناتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی تھی۔ ہمیں بھی راولپنڈی، اس کے بازار صدر اور چاندنی چوک پریوں کے ہی دیس کی جگہیں لگتی تھیں۔75سال قبل ہندوستان اور پاکستان آزاد تو ہوئےمگر اپنےپیچھے ان گنت ایسی کہانیاں چھوڑگئیں کہ انسانیت شرما جائے۔
میری دادی اورنانی کا لٹا پٹا خاندان بھی مشکل سے اپنی جا ن بچا کر دہلی پہنچا، جہاں سے میرے دادا نے نہ معلوم کیوں شمال مشرقی صوبہ جھارکھنڈ (جو ان دنوں بہار کا ہی حصہ تھا) کے شہر رانچی میں سکونت اختیار کی۔
ہاں دادی کہہ رہی تھی،
‘کہ مسلمانوں کا روزوں کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ملی جلی بستی تھی۔ روزے غیر مسلم تو نہیں رکھتے تھے، مگر عید کا انتظارسبھی کو ہوتا تھا۔ چھٹی کا دن تو ہوتا ہی تھا، تاجروں کے لیے پورے سال بھرکی کمائی کا بھی دن ہوتا تھا۔ دلوں میں گانٹھیں پڑ چکی تھیں۔ بٹوارہ کااعلان ہو چکا تھا۔ سکھ اور مسلمان لوہڑی اور عید ایک قومی دن کے بطورمناتے تھے۔
ہم ضد کرکے نئے کپڑے سلواتے اور صبح ہی ہمارے مسلمان پڑوسی کےگھر جاکر عیدی وصول کرتے تھے۔ بہت مرادوں کے بعد بچوں کے لیے عید آتی تھی۔چاند کا جتنا انتظار ہمیں ہوتا، شاید ہی کسی کو ہوتا ہو۔ مگر اس اگست1947کو عید سے قبل ہی فسادات برپا ہوگئے۔’
سال در سال یہ کہانیاں میرے ذہن پر دستک دیتی تھیں۔ کیسے ایک نسل ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوگئی؟ یہ سمجھ سے باہر تھا۔ 1984میں جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور دیگر شہروں میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا، تو پتہ چلا کہ ایک انسان کی کھال کے نیچے ایک وحشی درندہ بھی بستا ہے۔ کل تک کے پڑوسی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہونے والےخون بہانے کی حد تک درندہ بن جاتے ہیں۔
بس یہی انسانی خون کا پیاسا وحشی درندہ 1974کے اگست میں بھی تانڈوکر رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ برسوں تک مسلمانوں اور پاکستان کے متعلق میرے خیالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ کئی مسلمانوں کے ساتھ علیک سلیک تو تھی، مگر دادی کی کہانیاں یاد کرکے میں ان سے مزید تعلقات استوار کرنے سے کتراتی تھی۔
سال 2015 میں کچھ ایسا ہوا کل مجھے پہلی بار پاکستان جانے کا موقع ملا۔ تب تک یہ ملک میرے خاندان کی بربادی کا ایک علامت تھا۔ مگر اس دورے کے دروان میری کاپا پلٹ ہوگئی۔ جو کچھ میرے خاندان نے سہا تھا، معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو بھی کچھ اسی طرح بسا اوقات اس سے بھی زیادہ خون کے دریا کوپار کرکے پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔
گھر پر سنی ان کہانیوں کے علاوہ پاکستان کے بارے میں جو سیاسی پروپیگنڈہ ہندوستان میں یہاں تعمیر کیا گیا ہے، وہ پاکستان کو ایک نارمل ملک کے بجائے دشمن اور عفریت کی طرح پیش کرتا ہے۔میرے کئی رشتہ داروں کویقین نہیں تھا کہ میں واپس بھی آپاؤں گی۔ وہ شاید میری آخری رسوم کی تیاریاں کر رہے تھے۔
میں تقریباً دس دن پاکستان میں لاہور، اسلام آباد، ننکانہ صاحب، پنچہ صاحب، حسن ابدال اور راولپنڈی کے شہروں میں گھومتی رہی۔ ٹیکسلا کےکھنڈرات کودیکھ کر اپنی تہذیب و وراثت کو یاد کیا۔ میں نے راولپنڈی کےگلی کوچوں کو چھان مار کر وہ گھر ڈھونڈ ہی لیا، جہا ں سے میرے دادا، دادی کا خاندان صدیوں سے آباد تھا اور جہاں سے وہ ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئےتھے۔ میں نے اپنی نانی کے قصبہ لالہ موسیٰ کی ہواؤں میں سانس لےکر اس کومحسوس کرکے اس کی مٹی کو چھوا۔ اگر پنجاب کا بٹوارہ نہیں ہوا ہوتا تو یہ میرا وطن ہوتا۔
پاکستانی عوام کی مہمان نوازی نے تو مجھے محو حیرت میں ڈال دیا۔ لگتا ہےکہ مہمان نوازی ان کے خون میں رچی بسی ہے۔جب ایک رکشہ ڈرائیور کومعلوم ہوا کہ میں ہندوستان سے آئی ہوں، تو اس نے کرایہ لینے سے منع کردیا۔ اس کا خاندان جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان وارد ہوا تھا۔ پورا دن ہمیں گھمانے کے بعد اس کا اصرار کے باوجود کرایہ نہ لینے کے قدم نے مجھےآبدیدہ کردیا۔
اس دورہ سے معلوم ہو اکہ میری دادی کی کہانیاں پاکستان میں بھی بکھری پڑی ہیں۔ جس طرح تقسیم کی کہانیاں سکھوں اور ہندو مہاجروں کےگھروں میں بیان کی جاتی ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی مہاجرین کے پاس ایسی کہانیوں کا انبار ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے خاندان ملے جنہوں نے مغربی پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں وسیع و عریض زمین وجائیدادیں چھوڑ کر فقیروں کی طرح ہجرت کی۔
یہ عجیب بات ہے کہ75 سال بعد بھی دونوں ممالک عداوت و کدورت کو بھلانہیں پا رہے ہیں۔ ایک ہی کلچر اور ایک ہی زبان و ثقافت کے حامل یہ ملک کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں؟ افسوس ہے کہ تعصب، نفرت کی سرحدیں دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتے ہی جا رہےہیں۔ میں نے ایک اور اہم مشاہدہ کیا کہ ہندوستانیوں کے برعکس پاکستانی ہم سے نفرت کا اظہار نہیں کرتا ہے۔ اس نے 1947کے واقعات کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔
کئی دوستوں کو یہ یقین دلانا مشکل ہوتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ اگرہندوستان میں آپ، کسی پاکستانی شخص کو دہلی کے کسی بازار میں شاپنگ کرتے یاکسی ریستوران میں کھانے سے لطف اندوز ہوتا دیکھ لیں، تو ردعمل یہ ہوگا کہ یہ شخص ایجنٹ یا جاسوس ہوسکتا ہے۔ مگر جناح مارکیٹ یا لاہور کے لبرٹی میں جس بھی دکاندار کو پتہ چلا کہ میں ہندوستانی ہوں، تووہ قیمت لینے سےانکار کرتا تھا کہ اپنے پاس سے کوئی تحفہ عنایت کرتا تھا۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کے حوالے سے اسی لیے کہاتھا کہ آپ دوستوں کا انتخاب کرسکتے ہیں، مگر پڑوسیوں کا نہیں۔ ان کے ساتھ گزارہ کرنا ہی ہے۔ وہی آپ کے دکھ درد کا ساتھی بن سکتے ہیں۔ جس بس میں1999 میں واجپائی نے لاہور کا دور ہ کیا تھایہ بھی ایک اتفاق تھا کہ جب میں نے اسی بس میں لاہور کا سفر کیا تو بس میں سیکیورٹی کا عملہ وہی تھا جس نے واجپائی کے ساتھ سفر کیا تھا۔
ایک سچے محب وطن ہندوستانی کی حیثیت سے، میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اگر ہم بحیثیت قوم اپنی سرحدوں پر امن چاہتے ہیں، تو سرحدیں کھلی ہونی چاہئیں اور ہر عام شخص کے لیے سرحد پار سفرکرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اب جب دونوں ممالک اپنی پلاٹینم سالگرہ منا رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ تعصب اور نفرت کی سیاست کو خیر باد کرکے مسائل پر امن طور پر سلجھا کر عوام کو ایک دوسرےسے ملنے دیں۔ مسائل کو بھی سیاسی بنیادوں کے بجائے عوامی بنیادوں پر حل کرنے کو ترجیح دیں۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر