کانگریس کےسینئررہنما پی چدمبرم نے کہا کہ سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا ہے کہ اس کے پاس جانکاری ہے، جسے حلف نامے کے ذریعےعوامی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ اس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا۔ جاسوسی معاملے میں مرکز نے منگل کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ حلف نامے میں اطلاعات کی جانکاری دینے سے قومی سلامتی کا مدعا جڑا ہے۔
نئی دہلی: کانگریس کےسینئر رہنما پی چدمبرم نے سپریم کورٹ کی جانب سے مبینہ پیگاسس جاسوسی معاملے میں مرکز کو نوٹس جاری کیے جانے کے پس منظر میں بدھ کو دعویٰ کیا کہ سالیسیٹر جنرل کا عدالت کے سامنےیہ کہنا پیگاسس کے استعمال کااعتراف ہے کہ اس اسپائی ویئر کے بارے میں سرکار کے پاس جانکاری ہے، جسے عوامی نہیں کیا جا سکتا۔
سابق وزیر داخلہ نے یہ سوال بھی کیا کہ آخر پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کس مقصد سے کیا گیا؟
انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘سالیسیٹر جنرل نے عدالت کو مطلع کیا کہ سرکار کے پاس جانکاری ہے، جسے حلف نامے کے ذریعےعوامی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ اس سافٹ ویئر/اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا۔ یہ کس کے لیے استعمال ہوا، ہم یہ نہیں جانتے۔’
SG tells SC that the government has information which he cannot divulge in public by way of affidavit
That is a confession that software-spyware was used. For what, we do not know
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) August 18, 2021
چدمبرم نے کہا، ‘ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایک اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا، جسے پیگاسس کہتے ہیں۔ اس کے استعمال کا مقصد کیا تھا؟ اگر سرکار اس سوال کا جواب دے توباقی سوالوں کے جواب اپنے آپ مل جائیں گے۔’
چدمبرم نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا، ‘این ایس او گروپ(اسرائیلی کمپنی)نےقبول کیا اور کہا کہ پیگاسس اسپائی ویئر ہے، جس کا استعمال فون ہیک کرنے میں ہوتا ہے۔ سرکار اس سوال کا جواب دینے کی خواہش مندکیوں نہیں ہے کہ کیا کسی ایجنسی نے پیگاسس اسپائی ویئر خریدا اور اس کا استعمال کیا؟ ہم اس کا سیدھا جواب چاہتے ہیں۔’
NSO Group has admitted and said that Pegasus is spyware and is used to hack phones.
Why is the government reluctant to answer the question, “Did any of the agencies buy Pegasus spyware and use it?”
We want a straight answer.
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) August 17, 2021
انہوں نے کہا، ‘اگر یہ پہلو آج کی شنوائی میں نہیں آیا تو پھر آنے والے دن میں یقینی طور پر آئےگا۔ عدالت کو اس سوال کا جواب سرکار سے مانگنا چاہیے۔ میں امیدکرتا ہوں کہ عدالت ایسا کرےگی۔’
غورطلب ہے کہ عدالت نے مبینہ پیگاسس جاسوسی معاملے کی آزادانہ جانچ کرانے کی مانگ سے متعلق عرضیوں پر منگل کو مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور یہ واضح کیا کہ وہ نہیں چاہتی کہ سرکار ایسی کسی بات کا انکشاف کرے،جس سے قومی سلامتی سے سمجھوتہ ہو۔
چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس انرودھ بوس کی تین رکنی بنچ نے یہ تبصرہ سرکار کے یہ کہنے کے بعد کیا کہ حلف نامے میں اطلاعات کی جانکاری دینے سے قومی سلامتی کا مدعا جڑا ہے۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا تھا کہ حلف نامے میں اطلاعات کی جانکاری دینے سے قومی سلامتی کا مدعا جڑا ہے۔
معلوم ہو کہ اس سے پہلےسوموارکومرکزی حکومت نے پیگاسس معاملے میں عرضی گزاروں کی جانب سے لگائے گئےتمام الزامات سے انکار کیا تھا۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر سے جڑے الزامات کے سبھی پہلوؤں کو دیکھنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کا تشکیل کرےگی۔
ایک حلف نامے میں سرکار نے کہا تھا، مذکورہ عرضی اورمتعلقہ عرضیوں کے تجزیہ بھر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ قیاس آرائیوں اورغیر مصدقہ میڈیا خبروں ونامکمل یا غیرمصدقہ مواد پر مبنی ہیں۔ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اس کورٹ کے رٹ دائرہ اختیار کو لاگو کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔
بتا دیں کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا گروپ نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این یس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کے افسروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیاکے17میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھیں، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
پیگاسس پروجیکٹ پر کام کر رہے میڈیا اداروں نے آزادانہ طور پر 10ممالک کے ایسے1500سے زیادہ موبائل نمبروں کی پہچان کی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
این ایس او گروپ ملٹری گریڈکا یہ اسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہیں۔حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے۔
اس انکشاف کے بعد فرانس کےنیشنل سائبرسیکیورٹی افسروں نے فہرست میں شامل دو فرانسیسی صحافیوں کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر ہونے کی تصدیق کی ہے۔
جہاں دفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار کر دیا ہے،وہیں مرکزی حکومت نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور اسے خریدنے پر خاموشی اختیار رکھی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں