خبریں

یو پی ایس سی میں ’بی جے پی کے سوالوں‘ کے بعد بنگال سول سروس کے امتحان میں آئے ساورکر، این آرسی پر سوالات

اس سے پہلے گزشتہ آٹھ اگست کو یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے تحت آرمڈ پولیس فورسز  (سی اے پی ایف) کی بحالی  کے امتحان میں مغربی  بنگال میں اس سال اپریل میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے بعد تشدد اور تین متنازعہ زرعی  قوانین کے خلاف  ہو رہے کسانوں کے مظاہرے کو لےکر سوال پوچھے گئے تھے۔

بی جے پی کا لوگو، وی ڈی ساورکر اور ترنمول کانگریس کا لوگو (فوٹو :دی وائر)

بی جے پی کا لوگو، وی ڈی ساورکر اور ترنمول کانگریس کا لوگو (فوٹو :دی وائر)

نریندر مودی حکومت اور مغربی بنگال کی ممتا بنرجی حکومت کے بیچ سیاسی رسہ کشی اب سول سروسزکے امتحان  کے سوالنامے تک پہنچ گئی ہے۔

یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی)کے امتحان میں مغربی  بنگال کے انتخاب  کے بعد ہوئےتشدد کو لےکر پوچھے گئے سوال کے بعداب گزشتہ اتوار(22 اگست)کو ہوئےمغربی بنگال سول سروس(ڈبلیوبی ایس سی)امتحان کےسوالنامے میں ایسے کئی سوالات پوچھے گئے، جن سے تنازعہ پیداہو گیا ہے۔

ان میں سے ایک سوال میں پوچھا گیا کہ وہ کون سا انقلابی رہنماتھا، جس نے جیل سے برٹش حکومت کومعافی نامے لکھےتھے۔دراصل اس کا صحیح جواب ساورکر ہے، جو بی جے پی کے نظریاتی گرواور آر ایس ایس کے نظریے کےبنیادی ذرائع میں سے ہیں۔

اس سوالنامے میں این آرسی اور ٹول کٹ کے بارے میں بھی سوال پوچھے گئے۔ ان دونوں ہی معاملوں میں حال ہی میں نریندر مودی حکومت عالمی سطح پرتنازعات  میں رہی تھی۔

اس سے پہلے یو پی ایس سی کے امتحان میں بنگال انتخاب کے بعد ہوئےتشدد کے بارے میں سوال پوچھنے کے بعدوزیر اعلیٰ  ممتا بنرجی نے یو پی ایس سی جیسےادارے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بی جے پی کی طرف سے دیےسوال پوچھ رہی ہے۔

انہوں نے کولکاتہ میں صحافیوں سے کہا،’یو پی ایس سی پہلے ایک غیرجانبدارادارہ ہوا کرتا تھالیکن اب بی جے پی اسے پوچھنے کے لیے سوال دے رہی ہے۔ یہاں تک کہ سوالنامے میں کسانوں کے مظاہرہ کے بارے میں پوچھا گیا سوال بھی سیاست  سے متاثر تھا۔ بی جے پی یو پی ایس سی جیسےاداروں کو برباد کر رہی ہے۔’

یو پی ایس سی کے سوالنامےمیں امیدواروں سے بعض موضوعات کےحق میں یا اختلاف میں دلائل  لکھنے کو کہا گیا تھا، جیسے کیا صوبوں  میں انتخاب ایک ساتھ ہونے چاہیے یا کیا کسانوں کا مظاہرہ سیاست  سےترغیب شدہ ہے۔

وہیں اتوارکومغربی بنگال انتخاب پرامتحان  میں ایک سوال پوچھا گیا، جس میں کہا گیا تھا، ‘کس انقلابی رہنما نے جیل سے انگریزوں کو معافی نامہ  لکھا تھا اور اس کے چار متبادل دیے گئے وی ڈی ساورکر، بی جی تلک، سکھدیو تھاپر اور چندرشیکھر آزاد۔’

برٹش راج میں کئی مجاہدین آزادی نےمعافی نامہ لکھا تھا، جن میں نمایاں ناموں میں صرف ساورکر تھے، جنہوں نے انڈمان کی سیلولر جیل میں قید کے دوران یہ معافی نامہ  کئی بار لکھا تھا۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ ساورکر کی1923 کی کتاب ‘ہندوتوا’نے اس نظریے کو شکل دینے میں اہم رول  ادا کیا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد ساورکر کےجدوجہدآزادی سے دوری بنانے کے خاطرخواہ شواہد ہیں۔ انہوں نے رہائی کے بعد صرف ہندو اور ہندوتوا پر ہی توجہ مرکوزکی تھی۔

ساورکر کے انگریزوں سے معافی نامے کا معاملہ ملک  کے ہندوتوا خیمے کے لیے بہت ہی حساس  معاملہ رہا ہے کیونکہ اس خیمے نے ساورکر کو فائربرانڈ اورسمجھوتہ نہیں کرنے والے انقلابی رہنماکےطورپر دکھانے کی بہت کوشش کی اورمعافی نامے سےجڑے معاملے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔

وہیں اس مغربی  بنگال کے سول سروس اگزام  میں حصہ لے چکے کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس قدم کو ممتا بنرجی کا نریندر مودی سرکار سے بدلہ لینا بتایا ہے۔

ٹی ایم سی کی قیادت نے حالانکہ امتحان کے پرچہ  تیار کرنے میں کسی بھی طرح کی سیاسی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے پرچہ تیار کیا ہے، وہ  آزادانہ طورپر کام کرتے ہیں اور ان کا پارٹی یا سرکار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حالانکہ سوالنامےمیں یہ واحدسوال نہیں تھا، جو سیاست سے متعلق تھا۔ ایک دوسرے سوال میں پوچھا گیا کہ فی الحال ملک  میں این آرسی کس صورت میں ہے اور اس کے متبادل بھی دیے گئے تھے۔

بتا دیں کہ این آرسی کا معاملہ تنازعات میں رہا ہے اور اس معاملے نے انٹرنیشنل میڈیا میں بھی سرخیاں حاصل کی  ہیں۔ ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)سمیت اکثر اپوزیشن پارٹیوں نے این آرسی کی مخالفت  کی ہے۔

پرچے میں ایک اور سوال ‘ٹول کٹ‘سے متعلق بھی تھا۔

زرعی قوانین کو لےکر ٹول کٹ کے تنازعہ  پر بینگلورو کالج کی اسٹوڈنٹ  اورماحولیاتی کارکن دشا روی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر معروف ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر کے ساتھ اس ٹول کٹ کو شیئرکرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ دشا روی کی گرفتاری کو کئی بڑے انٹرنیشنل  میڈیا اداروں  نے منفی انداز میں پیش کیا تھا۔

دراصل امتحان  کےپرچے میں پوچھا گیا کہ ٹول کٹ حقیقت  میں کیا ہے اور اس کے چار متبادل بھی دیے گئے۔

کولکاتہ کی ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ساسوتی گھوش نے کہا،’سیاسی نظریات لمبےعرصے سے امتحان کے پرچوں کے ذریعے باہر آتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ مغربی بنگال میں لیفٹ محاذکی حکومت کے دوران جادھوپور یونیورسٹی جیسےاہم اداروں  میں داخلہ امتحان  کےپرچوں میں بھی نظریاتی اثرات  دیکھنے کو ملتے تھے۔ یہ لمبے عرصے سے پیٹرن رہا ہے کہ سوالناموں کو اس طریقے سے تیار کیا جاتا ہے جس میں امیدواروں کوامتحان  پاس کرنے کے لیےمقتدرہ پارٹی کےنظریات سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔’

ڈبلیوبی ایس سی کے پرچے میں یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ کون سے سرکاری منصوبے ہیں، جن پروزیر اعلیٰ کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ ریاستی  سرکار کی سواستھیہ ساتھی یوجنا کو لےکر بھی ایک سوال پوچھا گیا تھا، جس میں امیدواروں سے جواب دینے کو کہا گیا کہ سواستھیہ ساتھی یوجنا کا کتنا تناسب ریاستی  سرکار برداشت کرتی ہے۔

معلوم ہو کہ اس سے پہلے گزشتہ آٹھ اگست کو یونین پبلک سروس کمیشن(یو پی ایس سی)کے تحت آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف)کی بحالی کے امتحان میں مغربی  بنگال میں اس سال اپریل میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے بعد تشدد اور تین متنازعہ زرعی  قوانین کے خلاف  ہو رہے کسانوں کے مظاہرے کو لےکر سوال پوچھے گئے تھے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)