ترنگے میں لپٹے ایک سابق وزیر اعلیٰ او رگورنر کےجسدخاکی کےنصف حصے پر اپنا جھنڈا ڈال کربی جے پی نے کلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کےاحترام کےمعاملے میں وہ اب بھی‘اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت’ کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
آخرکار بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی اپنی فطرت کو بے مثال ثابت کرکے ہی دم لیا کہ اپنے ہیرو کلیان سنگھ کی موت کے بعدسوگواری کےلمحوں میں ہی صحیح، جب اس نے اپنی ساری‘قوم پرستی’کو ترک کرکے ترنگے کی توہین سےپرہیز بھی گوارہ نہیں کیا۔
ترنگے میں لپٹے اس سابق وزیر اعلیٰ اورگورنر کےجسد خاکی کےآخری’درشن’ کے وقت اس نے اس کے نصف حصےپر اپنا جھنڈا ڈال کرکلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کے احترام کے معاملے میں وہ ابھی بھی اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
اس پر المیہ دیکھیے؛گزشتہ سوموار کو اس کی جانب سے کلیان سنگھ کے جسد خاکی کے نصف حصے پر اپنا جھنڈا ایسے ڈالا گیا، جیسے سابق وزیر اعلیٰ یاگورنر کے طور پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس کے جھنڈے کو ‘پرنام’کرنا بھی ضروری ہو۔ جیسے وہ صرف بی جے پی کے وزیر اعلیٰ یا گورنر رہے ہوں، سارے اتر پردیش، راجستھان، ہماچل یا ملک کے نہیں۔
یہاں یہ سوال غیرفطری نہیں کہ کہیں ان کی خدمات کو محدود کرنے کی یہ کوشش بی جے پی کے ویسے ہی کسی منصوبے کا حصہ تو نہیں جس کے تحت اس کا اندرونی اشرافیہ غلبہ ان کے زندہ رہتے پارٹی میں ان کا رہنا دوبھر کرتا اور کہیں اور پناہ لینے کو مجبورکرتا رہتا تھا؟
حیرت کی بات ہے کہ ترنگے کے اوپر اپنا جھنڈا رکھنے کو لےکر کئی حلقوں سے اعتراضات کے باوجود بی جے پی کو اپنی بھول کو ٹھیک کرنا گوارہ نہیں ہوا۔ الٹے کلیان سنگھ کی آخری خواہش کے احترام کے بہانے وہ اسے مناسب ٹھہرانے کی بے شرم و غیراخلاقی کوشش ہی کرتی رہی۔اس سوال کا جواب دے پانے میں نااہل رہی کہ یہ کلیان کی آخری خواہش کا کیسا احترام ہے، جو انہیں سارے ملک کے بجائے محض بی جے پی کا ‘ہیرو’ بنائے دے رہی ہے؟ کیا انہوں نے آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے متعلقہ صوبوں کی جوخدمت کی، وہ اتنی معمولی ہے؟
یہاں پل بھر کو رک کر اس آخری خواہش کے بارے میں جان لینا چاہیے، جس کی آڑ لےکر بی جے پی ترنگے کی اس توہین کو صحیح ٹھہرانے پر آمادہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کلیان سنگھ زندگی بھر بی جے پی کے ہوکر نہیں رہے سیاسی فائدے نقصان کے مدنظر اس کے اندر آتے و باہر جاتے رہے، ساتھ ہی موقع و دستور کے مطابق باتیں کہتے رہے۔
بی جے پی شاید ہی یاد رکھنا چاہے کہ ایک بار تو انہوں نے الگ پارٹی بناکر ہندوتوا کے سخت مخالف ملائم سنگھ یادو سے ہاتھ ملا لیا تھا اور بی جے پی کوتباہ کردینے کی قسم تک کھا لی تھی۔ اس کے اس وقت کے ہیرو اٹل بہاری واجپائی کو نشانہ بنا کر یہ تک کہہ دیا تھا: چھپن بھوگ مبارک تم کو…۔!
ہاں ایک بار بی جے پی میں لوٹنے پر جذباتی ہوتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ‘آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی اخلاقیات میرے خون کے ہر قطرے میں شامل ہے۔ میری خواہش ہے کہ زندگی بھر بی جے پی میں رہوں اور زندگی کا جب خاتمہ ہونا ہو تو میری لا ش بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے جھنڈے میں لپٹ کر جائے۔
اب بی جے پی کی جانب سے اسی کو بنیادبناکر کہا جا رہا ہے کہ اس کےقومی صدر جےپی نڈا نے ترنگے میں لپٹے ان کی لاش پر پارٹی کا جھنڈا ڈال کر ان کی اسی آخری خواہش کو احترام کیا۔ اس کی بات مان لی جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کلیان سنگھ نے اپنی آخری خواہش میں کہاں کہا ہے کہ ان کےجسدخاکی پر بی جے پی کا جھنڈا انہیں ترنگے میں لپیٹ کر ڈالا جائے؟
ترنگے کاوقارقائم رکھنے کے لیےیہ بھی تو ممکن تھا کہ ان کےجسدخاکی کو پہلے بی جے پی کے، پھر ترنگے میں لپیٹا جاتا؟ لیکن اس سے بی جے پی کو وہ سیاسی فائدہ نہیں ملتا، جس کی وہ کلیان کے ترنگے میں لپٹے جسدخاکی پر اپنا جھنڈا ڈال کر امید کر رہی ہے اور جس کے لیے اس نے ‘پارٹی کے جھنڈے میں لپٹ کر جانے’کی کلیان کی آخری خواہش کو ان کی لاش پر اپنا جھنڈا ڈال کر اسے نمائش میں بدل ڈالا۔
اسے بتانا چاہیے کہ یہ کلیان کی آخری خواہش کا احترام ہے یا اسے اپنی مرضی کے مطابق بدل کر ترنگے کے ساتھ اس کی بھی توہین؟
کیایہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ترنگے کےاحترام کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی جھنڈا کوڈ، 2002 کے بارے میں بھی بتانا پڑےگا، جس کے تیسرےحصے کی چوتھی دفعہ کے مطابق کسی دوسرے جھنڈے یا پرچم کو ترنگے سے اونچا یا اوپر نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: جس نے پارٹی کے مفاد کو ملکی مفاد سے اوپر رکھا، اس کے لیےقومی پرچم پارٹی کے جھنڈے کے نیچے ہی ہونا چاہیے
اسی طرح کسی دوسرے جھنڈے کو ترنگے کے برابر نہیں رکھا جا سکتا، نہ ہی کوئی دوسری چیز اس ستون کے اوپر رکھی جا سکتی ہے، جس پر جھنڈا پھہرایا جاتا ہے۔ ان چیزوں میں پھول یاہار و علامتیں بھی شامل ہیں۔
یہ کوڈ ترنگے کے اوپرکسی بھی پرچم کا رکھا جانا ممنوعہ بناتی ہے اور بی جے پی کا کلیان کے ترنگے میں لپٹی لاش پر اپنا جھنڈا لگانا اس کی خلاف ورزی ہے۔یہ خلاف ورزی اس معنی میں کہیں زیادہ قابل مذمت ہے کہ بی جے پی اپنےمخالفین سے تو قومی علامتوں کا جبراً بھی احترام کرانا چاہتی ہے، لیکن خود ایسا کرتی نظر نہیں آتی۔
کیا تعجب کہ اس کے مخالف اس کے اس فعل کو ‘نیو انڈیا’ میں‘ہندوستانی پرچم پر اس کے جھنڈے’کے روپ میں دیکھ اور کہہ رہے ہیں‘ملک سے اوپر پارٹی، ترنگے سے اوپر جھنڈا۔ ہمیشہ کی طرح بی جے پی کو کوئی افسوس نہیں، کوئی پچھتاوانہیں، کوئی دکھ نہیں۔’
اتنا ہی نہیں، وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ترنگے کی یہ توہین مادروطن کے احترام کا نیا طریقہ ہے؟
لیکن ملک واقف ہے کہ اس طرح کے پریشان کن سوالوں کا جواب دینا بی جے پی کی فطرت میں نہیں ہے اور جہاں تک ترنگے کی توہین کی بات ہے،کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حالت اس بلی جیسی ہو گئی ہے، جو اب تک نو سو چوہے کھا چکی ہے،پھربھی حج پر جانے کو تیار نہیں دکھتی۔
سچ تو یہ ہے کہ اب وہ ایسی پارٹی میں بدل گئی ہے جو کیرل میں مقتدرہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے ترنگے کے برابر اپنی پارٹی کا پرچم پھہرانے پر اعتراض کرتی ہے،لیکن اپنی پارٹی کے ریاستی صدر کےسریندرن کو پارٹی کے ریاستی دفتر میں ترنگے کو الٹا پھہرانے سے نہیں روک پاتی۔
اسی طرح مدھیہ پردیش کے آگر میں بی جے پی دفتر میں پارٹی کا جھنڈا ترنگے کے اوپر لہرایا جاتا ہے اور ایک بی جے پی رہنما ایک موقع پر بھارت ماتا کا فوٹو پھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
تھوڑا پیچھے جاکر دیکھیں تو ایک اور بڑاالمیہ نظر آتا ہے۔ یہ کہ بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو 2002 سے پہلے اپنے دفتر پر ترنگا پھہرانے سے بھی پرہیز تھا۔ آزادی کے بعد جب اسے قومی پرچم بنایا جا رہا تھا تو اس نے اس کے رنگوں کو ملک کے لیےمنحوس تک بتا ڈالا تھا۔
نریندر مودی کے راج میں بی جے پی کی جانب سے جموں وکشمیر میں کٹھوعہ میں جنوری، 2018 میں خانہ بدوش بکروال کمیونٹی کی آٹھ سالہ معصوم بچی کے گینگ ریپ و مرڈر کے معاملے کےملزمین کی حمایت میں نکالی گئی ریلی میں صوبے کی محبوبہ مفتی سرکار میں بی جے پی کے کوٹے کے وزیر چودھری لال سنگھ، چندر پرکاش گنگا اور ایم ایل اے راجیو جسروٹیا ترنگے کے غلط استعمال کے گواہ بنے، تو جیسےانہوں نے اس کی توہین کی انتہا کر دی تھی۔ بعد میں بھاری جگ ہنسائی کے بعد ان دونوں بی جے پی وزیروں کو استعفیٰ دینا پڑا تھا تو امید کی گئی تھی کہ بی جے پی اس سے کچھ سبق لےگی۔
لیکن صاف ہے کہ اس نے اب تک کوئی سبق نہیں لیا ہے، جو اس معنی میں زیادہ تشویش ناک ہے کہ اس کی جانب سے اگست مہینے میں پانچ و چودہ اگست کے حقائق کو پندرہ اگست یعنی یوم آزادی کے متوازی کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔اقتدار کا غلط استعمال کرکے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کےلیےقومی دنوں اورعلامتوں کے احترام سے اس کے ایسے کھیل کو قابل نفرت ہی کہا جائےگا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر