بینک فنڈز تک رسائی والےممکنہ چار یا پانچ کارپوریٹ گروپ ہی ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، کوئلہ کانوں، گیس پائپ لائنوں اور بجلی پیداکرنے والےمنصوبوں کی طویل مدتی لیز کے لیے بولی لگائیں گے۔ایسے میں کہنے کے لیے بھلے ہی ملکیت حکومت کے پاس رہے، لیکن یہ عوامی اثاثےکچھ چنندہ کارپوریٹ گروپس کی جھولی میں چلے جائیں گے، جن کی پہلے ہی کسی حد تک اجارہ داری ہے۔
نریندر مودی حکومت نے اپنے عوامی اثاثہ منیٹائزیشن پروگرام کے ذریعے اگلے چار سالوں میں6 لاکھ کروڑ جمع کرنے کاہدف رکھا ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس پروگرام کےعمل درآمدکی راہ میں آنے والی کئی سطحوں کی تصوراتی اورآپریشنل دقتوں کے بارے میں غوروخوض نہیں کیا ہے۔
ہوائی اڈوں، ریلوے، سڑکیں، بجلی، بندرگاہ، گیس پائپ لائنیں، کان کنی اور ٹیلی کام سیکٹرکے عوامی اثاثے کی تعمیر پچھلے 70 سالوں میں کڑی محنت سےکام کرنے والےٹیکس دہندگان کے پیسے سے کی گئی ہے۔اب ایک لمحے میں ملک کی ریڑھ جیسے بنیادی ڈھانچے کو بنانے والےان اثاثوں کو 25-50 سال کی طویل مدتی لیز کے راستے سے نجی کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں سونپنے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
کئی معنوں میں یہ اگلے 30 سے 50 سالوں کے دوران ان اثاثوں سے ہونےوالی آمدنی کو آج ہی پوری طرح سے ہتھیا لینے کی طرح ہے۔
چاہےپاورگریڈ کارپوریشن کے ذریعے چلائی جانے والی28600 سرکٹ کیلومیٹر لمبی پاور ٹرانس میشن لائنیں ہوں یا گیل کے ذریعے بنی8154 کیلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن یا 160 کوئلہ کانوں کےمنصوبے ہوں جن کی قیمت مجموعی طور پر1 لاکھ کروڑ روپے کے قریب ہے حکومت ان اثاثوں کو نجی شعبوں کوطویل مدتی لیز پر سونپنے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن کرایے کی ساری رقم سے آج ہی اپنی جیب بھرکر۔
کاغذ پرحکومت کا کہنا ہے کہ لیز کی طویل مدت کے دوران بھی ان اثاثوں کی ملکیت اس کے پاس ہوگی، جو نجی شعبوں کے ذریعے چلائے جائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مدت کے آخرمیں ان کی قیمت پوری طرح گھٹ کرصفر ہو جائےگی۔
یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ :حکومت ٹیکس دہندگان کی ملکیت والے اثاثوں سےمستقبل میں ہونے والی تمام آمدنی کو آج ہی ایک بار میں ہتھیانا چاہتی ہے، لیکن اس کے بدلے ٹیکس دہندگان کو دیے جانے والے معاوضے کو لےکر کوئی وضاحت نہیں ہے۔
آپ یہ تصور کیجیےکہ ایک ٹیکس دہندہ کے طور پر ملک کی گیس پائپ لائن یامعدنیاتی ذخائر کے ایک حصہ پر آپ کا بھی حق ہے۔ یعنی اگلے 30سالوں میں اس اثاثے سے ہونےوالی آپ کی آمدنی پر حکومت آج ہی جھپٹا مار رہی ہے۔ بدلے میں آپ کو کیا ملےگا،یہ بالکل بھی واضج نہیں ہے،سوائے ایک مبہم وعدے کہ اس پیسے کا استعمال اور زیادہ انفراسٹرکچرکی تعمیر کےلیےکیا جائے گا۔
انتہائی ناقص نظام کی وجہ سےموجودہ ریونیو خسارے والے منظرنامے میں اس پیسے کا ایک بڑا حصہ تنخواہ دینے اور دوسرے جاری اخراجات کو پورا کرنے میں کیا جائےگا۔
یہ ایک اہم مسئلہ نسلوں کے بیچ مساوات کا ہے۔ حکومت کو اپنے سرکاری دستاویز میں اسے وضاحت کے ساتھ بتانا چاہیے۔ اگر حکومت مستقبل میں ہونے والی کمائی کو بھی آج ہی ہتھیا لیتی ہے، تو یہ آنے والی نسلوں کو اس کی بھرپائی کیسے کرےگی؟
عوامی اثاثوں کے اتنے بڑے پیمانےپرمنیٹائزیشنکو جائز ٹھہرانے کے لیےنسلوں کے بیچ مساوات کا ایک واضح فریم ورک پیش کرتے ہوئے نئے بننے والےاثاثوں کے بارے میں بتایا جانا چاہیےیا قومی قرض میں کمی لانے کا وعدہ کیا جانا چاہیے۔
اور نفاذ کے بارے میں کیا ،جس میں مودی حکومت صفر رہی ہے۔ حکومت اب تک پی ایس یوز کی سرمایہ کاری اور نجکاری کے آسان اہداف کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بی پی سی ایل جیسی بلیو چپ آئل کمپنی کے لیےایک عدد خریدار تلاش کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
ایسے میں یہ اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ 30-40 سالوں کے لیےنجی شعبے کو آؤٹ سورس کرنےوالے پیچیدہ منصوبے کا کیا حشر ہوگا؟
بڑے عالمی پنشن فنڈز ایسےپروگراموں میں ہاتھ ڈالنے کے لیے تب تک تیار نہیں ہوتے، جب تک کہ طویل مدتی معاہدے کا استحکام اورآزادانہ ریگولیشن کی یقین دہانی نہ ہو۔ پاورگریڈ کارپوریشن کے اثاثوں کو لیز پر دینے کے شروعاتی تجربات کی بنیاد پر نیتی آیوگ نے سیکٹر مخصوص کے لیے انفراسٹرکچر انویسٹمینٹ ٹرسٹوں کے قیام کی صلاح دی ہے۔
عوامی اثاثوں کو ایک الگ اکائی کومنتقل کر دیا جائےگا، جس کا خرچ ایسے ٹرسٹ اٹھائیں گے جو ایک طرح سے میوچل فنڈوں کا کام کریں گے،جس میں عالمی اور مقامی فنڈوں کی حصہ داری ہوگی۔لیکن عالمی فنڈ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی انتظامیہ میں پبلک سیکٹر کےممبروں کا دبدبہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ مفادات کے ٹکراؤ کی صورت پیدا کرےگا۔
اس کے علاوہ، کوئلہ کانوں جیسےحفری ایندھن والےاثاثےاورہائیڈرو/تھرمل پاور پلانٹ کے لیےطویل مدتی سرمایہ کاری کا ملنا مشکل ہوگا۔عالمی پونجی اپنی ماحولیاتی اور سماجی گورننس کی پالیسیوں کے تحت ایسے اثاثوں سے توبہ کر رہی ہے۔
ہوگایہ کہ بینک فنڈز تک رسائی والےممکنہ چار یا پانچ کارپوریٹ گروپ ہی ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، کوئلہ کانوں، گیس پائپ لائنوں اور بجلی پیداکرنے والےمنصوبوں کی طویل مدتی لیز کے لیے بولی لگائیں گے۔یہ پیسےکےشدیدارتکاز کی وجہ بنےگا، بھلے ہی ملکیت کہنے کے لیےحکومت کے پاس ہی رہے۔
یہی بات راہل گاندھی نے اٹھائی ہے کہ یہ عوامی اثاثے کچھ چنندہ کارپوریٹ گروپ کی جھولی میں چلے جائیں گے، جن کی پہلے ہی کسی حد تک اجارہ داری ہے۔
اس کےساتھ ہی ایک بڑا سوال سیاسی استحکام کا ہے۔اگر عوامی اثاثوں کو لیز پر دینے کا کام اتفاق رائے کے بغیرکیا گیا، جو مودی حکومت کی فطرت ہے تو مستقبل کی حکومتیں ایسےمعاہدوں سےمنہ موڑ سکتی ہیں۔
مودی حکومت کوسبھی اسٹیک ہولڈر کےساتھ رائے مشورہ کرنا چاہیئے، چاہے وہ اپوزیشن ہو، مزدوریونین ہوں، پبلک سیکٹر کے سینئر ملازم ہوں یا سول سوسائٹی کے لوگ ہوں۔ 70سالوں کی محنت سے تیار کیے گئےعوامی اثاثوں کو اس طرح سے بغیر سوچے سمجھے لیزپر نہیں دیا جا سکتا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)
Categories: فکر و نظر