حقوق نسواں کی علمبردارکملابھسین اپنی سادگی اور صاف گوئی سےکسی بھی مسئلہ کےاندرون تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔انہوں نے ماہرین تعلیم اورحقوق نسواں کے علمبرداروں کےدرمیان جس سطح کی عزت حاصل کی، وہ سماجی کارکنوں کے لیےعام نہیں ہے۔ان کے لیے وہ ایک آئی-کان تھیں،تانیثی ڈسکورس کو ایک نئے نظریے سے برتنے کی ایک کسوٹی تھیں۔
کملا بھسین کی آخری لڑائی کینسر کےایک انتہائی مہلک قسم سےتھی۔ انہوں نے ایک ناقابل برداشت درد کا مقابلہ ٹریجڈی کے ساتھ اور سامنے کھڑی موت کا سامنا روزمرہ کےمعمول کے ساتھ کیا۔ ہندوستانی تانیثی ڈسکورس کو ان کی سب سے بڑی خدمات تھیں، اپنی مثالیت پسندی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے اور انہیں ایک بالکل الگ طریقے سے سلوک کرنے والی دنیا کے سامنے کہنے کا عزم۔
ان کی صلاحیت ان کے پیغام دینے کے طریقے میں مضمرتھی: جو پدری نظام کوآئینہ دکھانے والا اور انتہائی مظلوم لوگوں کو سہارا دینے والا تھا۔ یہ کام انہوں نے ایک ایسی زبان میں کیا جو سب کے ساتھ براہ راست،بے ساختگی اور گرم جوشی کے ساتھ مکالمہ قائم کرتی تھی۔
کملا کاڈسکورس کبھی بورنگ نہیں تھا۔
ان کے پاس پیچیدہ سیاسی تانیثی بحث کےمفہوم کوآسان تک بندی، لے اور گیت میں ڈھال دینے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔جس خوداعتمادی، بے ساختگی اور کشادہ ذہنی سے وہ متنوع گروہوں کوالگ الگ محاوروں میں تانیثی تصورات سے متعارف کراتی تھیں،وہ غیرمعمولی تھا۔
بھسین نے جرأت مندی اور صاف گوئی سے اپنی صلاحیت کا استعمال بات چیت میں غیرمعمولی نکات کو شامل کرنے اور ذہن کو چونکاکراس کوبند دائرے سے باہر نکالنے اور اس کے سامنے نئےامکانات کے دریچوں کووا کرنے کے لیے کیا۔
وہ اپنی جوانی کےبارے میں بات کرتی تھیں،جب انہیں ایک‘ٹام بائے’کہا گیا تھا، جب ان میں ہاکی کھیلنے کی بے پناہ چاہت تھی۔ 70کی دہائی میں اُدے پور میں موٹر سائیکل چلاکر انہوں نے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ یہ سب انہوں نے کسی کو دکھانے کے لیےنہیں، بلکہ فطری طورپر کیا تھا، لیکن ایسا کرتے ہوئے یعنی بس اپنے جیسا ہوکر انہوں نے لازمی طور پر پدری نظام کوچیلنج دیا۔
بنے بنائے سانچے میں ڈھالے جانے کے خلاف ان کی فطری مخالفت نے شاید انہیں تعصب اور شدت پسندی کی بنیاد اور لوگوں کو ذاتی اور اجتماعی طور پر نقصان پہنچا سکنے کی اس کی صلاحیت کو سمجھنے کی ایک قدرتی صلاحیت دی۔ اس کاامکان کم کم لگتا تھا کہ وہ اقوام متحدہ جیسےبین الاقوامی نوکر شاہی میں ٹک پائیں گی اور اپنی روشنی بکھیر پائیں گی۔
لیکن انہوں نے اس کا استعمال جسمانی اور جغرافیائی حدودسے بالاتر ہوکرتانیثی ڈسکورس کو قائم کرنے کے لیے کیا۔راجستھان میں اپنی جڑوں کو چھوڑے بغیرہندوستان، جنوبی ایشیا،جنوبی نصف کرہ کے لوگ ان کی سوچ کے دائرے میں شامل رہے۔
وہ خواتین کے اس گروپ کا حصہ تھیں، جس نے اکیلےلوگوں کو ایوارڈ دینے کے خیال کوچیلنج دیا اور دنیا بھر کی عورتوں کے ساتھ‘2005 کے نوبل ایوارڈ کے لیے ایک ہزارعورتوں کےیونین ’کی تشکیل کی۔ اس کے دستاویز میں کملا کا ایک قول ہے، ‘میں سرحد پر بنی دیوار نہیں، میں تو اس دیوار پر پڑی دراڑ ہوں۔’یہ عورتوں پر کہیں بڑے ڈسکورس کے تناظرمیں اپنا اہم رول دیکھ سکنے کی ان کی صلاحیت کا اظہار یہ ہے۔
ان سرحدوں کو عبور کرتےہوئےکملا نے ہندوستان میں شراکت داری قائم کرکے،کئی دوستیوں، رشتوں اور جنوبی ایشیاکےعلاقے میں خیالات کےتبادلہ کی شروعات کرنے والے کئی مکالموں کا اہتمام کرکےسیکولرازم کی زبان اورسیاست کو مالا مال کرنا شروع کیا۔وہ مختلف سماجی تحریکوں کے کارکنوں سے ملیں اور ان سے دوستیاں قائم کیں اور سب کے آپس میں ملنے جلنے پر زور دیا۔
ان سب نےہمارے علاقے کےمختلف جاگیردارانہ معاشروں کی پیدا کردہ عدم مساوات کا مقابلہ کرنے میں مدد کی۔اس نے‘انسان’کےبنائےسرحدوں کوتحلیل کرنے اور اس کوعبور کرجانے والےانسانی تنوع کےبھرپور وسائل کو آگے کرکے مذہبی سیاست کی شدت پسندی اور بدنامی سےبھی دودو ہاتھ کرنے میں مدد کی۔
انہوں نےتانیثیت کےموجودہ نقطہ نظراور اس کے عالمی ڈسکورس میں خدمات دیں جو جنسیت اور صنفی مرکزیت سےبالاترہوکرجنگ اور نفرت کو بھی پدری نظام کے طور پر دیکھتا تھا۔ یہ ان کے ترقی پذیر ڈسکورس کا حصہ بن گیا۔
میں جب ان کی زندگی کےآخری ہفتے میں ان سے ملی، انہوں نے وہ گانا گاکر سنایا جو انہوں نے خود لکھا تھا اور اسےمقبول اور روایتی دھنوں پر سجایا تھا۔انہوں نےنرمدا بچاؤ آندولن(این بی اے)اورمزدور کسان شکتی سنگٹھن (ایم کےایس ایس)جیسےسب سے زیادہ مظلوم اورمحروم لوگوں کی آوازوں کی نمائندگی کرنے والے عوامی تحریکوں کے لیے ان کے دل میں موجود جذبے کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے نیلےآسمان اور پیڑوں کے نیچے بیٹھنے، سونے اور لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بتایا۔انہوں نے اپنی زمینی وابستگی کا دعویٰ ہمیشہ فخر کے ساتھ کیا۔اپنی سادگی پر بات کرتے ہوئے وہ جان بوجھ کر علمی ڈسکورس سے دور رہنے کو لے معافی مانگا کرتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے کہے میں وہ ایک حصے سے زیادہ تھیں۔
وہ اپنی سادگی اور صاف گوئی سے کسی مسئلہ کے اندرون تک پہنچ پانے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے بے ساختگی سے ماہرین تعلیم اور حقوق نسواں کے علمبرداروں سے جس سطح کی عزت حاصل کی، وہ کارکنوں کے لیےعام نہیں ہے۔ان کےلیےوہ ایک آئی-کان تھیں،تانیثی ڈسکورس کو ایک نئے نظریے سے برتنے کی ایک کسوٹی۔
انہوں نے ہراسانی اور امتیازی سلوک کا شکار ہو رہی خواتین کی لڑائی تانیثی نقطہ نظر سے لڑنے کے لیے بااختیار بنانے کا ایک نیا فلسفہ تیار کیا۔ کافی باریکی سےتیار کیے گئے یہ طریقےانتہائی مہارت سے بنائے گئے تھے،جنہیں آسانی سےسمجھایا جا سکتا تھا، تاکہ عورتیں ان کا استعمال بنا کسی پریشانی کےآسانی سےکر سکیں ۔ انہوں نے اس کا استعمال جڑ پکڑچکےاسٹیریوٹائپ یعنی عقائد کو مضبوط بنانے والے مین اسٹریم کے نعروں پر کیا اور اپنی بات سمجھانے کے لیے ان کا اپنی طرح سے استعمال کیا۔ وہ کہا کرتی تھیں،‘آپ سب میری شیروز(Sheros)ہیں’، جس کا مقصد اس بات پر زور دینا ہوتا تھا کہ خواتین کو جانے پہچانے لفظوں کی بنیادپر اپنے لیے ایک نئی اصطلاح تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی بھی چیز ان کے حوصلے کو پست نہیں کر سکتی تھی۔
سیدھےسپاٹ فیمنزم سے لےکر جینڈر کوسمجھنے تک کی ان کےسفر کو دیکھنا دلچسپ تھا۔ بعد کے سالوں میں کچھ سالوں کو ان کے ساتھ آتےدیکھا گیا،جن کی ہمیشہ کافی مانگ رہتی تھی۔انہوں نے مردانگی کو اسی مزاحیہ شعور اورحاضرجوابی سے توڑا تھا، وہ اپنی بحث کے مقصد پر اس سے ہی وار کرتی تھیں، لیکن ایسا کرتے ہوئےانہیں دلوں کو شاید ہی کبھی توڑا ہو۔ ہاں وہ انانیت کو ضرور منہدم کر دیتی تھیں۔ ان سیشن میں ہمیشہ نئے طریقےیاکوئی دوسراتصور سامنے آتا تھا۔
ایسا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ورک شاپ کا ہر بار ایک نیا روپ ہوتا تھا، مگر ان کے آزمائے ہوئے اور پرکھے ہوئےنسخے کئی نسلوں کو منتقل ہوئے اور کم از کم خاتون اور مردسماجی کارکنوں کی تین نسل ان کے گانوں اور نعروں سے آشنا تھی۔ ان کی بے ساختگی سنجیدہ سوچ اوراطلاق کا نتیجہ تھی۔ وہ آرکسٹرا کی ڈائریکٹر تھیں جو ہر تار کو کسنے کا کام کیا کرتی تھیں۔
ان کی زندگی نے ہمیں صرف مضبوطی کو ہی نکھارنا نہیں سکھایا بلکہ کمزوریوں کو بھی سمجھنا سکھایا۔ایک کٹھن طلاق اور ایک بیٹی کی المناک موت کا سامنا انہوں نے انسانیت میں اپنے یقین کے سہارے کیا۔ اپنے آٹزم سےمتاثرہ بیٹے کو انہوں نے بےپناہ ممتا اورغیرمعمولی محبت کےسائے میں رکھا۔ ان کی موت کے کچھ دن پہلے جب میں ان سے ملی تھی، تب انہوں نے مجھ سے کہا تھا، ایک ہوتا ہے ہز ہولینیس، اور ایک ہوتا ہے ہز ہائی نیس؛ چھوٹو میرا ہز ہیپینیس ہے۔
ان کی زندگی سخاوت کے ساتھ ختم ہوئی، جو ایک ساجھے سنسار میں پھیلی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی میں انہیں تحرک عطا کرنے والےعزائم کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ملکیت کے ایک بڑے حصہ کا عطیہ کر دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ساتھیوں کی عظیم شراکت کا بھی اعتراف تھا، جنہوں نےانہیں زندگی بھر پاؤں جمائے رکھنے کی طاقت دی۔ان کے اور ان کی بیٹی میتو کے نام کا ٹرسٹ ہندوستان اور جنوبی ایشیا میں خاتون،ثقافت اور مساوات کے میدان میں کاموں کو آگے بڑھانے میں مددگارہوگا۔
جاں باز کملا بھسین نے اپنی آخری لڑائی بھی ہنستے گاتے ہوئے اور ایک اچھی بسر ہوئی زندگی کا جشن مناتے ہوئے لڑی۔ ان کی کمی بہت محسوس ہوگی۔بے شمار خواتین کے ساتھ ساجھا کی گئی ان کی ہمت، ان کی ہنسی، ان کے گیت اور ان کی غیرمعمولی طاقت ان کی وراثت ہیں۔ایک ایسی دنیا،جس پر نفرت، تعصب اوراستحقاق کےسیلاب میں ڈوبنے کا خطرہ منڈرا رہا ہے، ان کی وراثت ہمیں ہمدردی،مزاح اور امید کےساتھ مساوات،تنوع اورامن کے ہماری جدوجہدمیں ہمیں ثابت قدم رہنے کی طاقت دےگی۔
(ارونا رائے سماجی کارکن ہیں، جو مزدور کسان شکتی سنگٹھن سے وابستہ ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر