زرعی قوانین کو اس لیے واپس نہیں لیا گیاکہ وزیر اعظم‘کچھ کسانوں کو یقین دلانے میں ناکام’رہے، بلکہ اس لیے واپس لیا گیا کہ کئی کسان مضبوطی سے کھڑے رہے، جبکہ بزدل میڈیا ان کے خلاف ماحول بناکر ان کی جدوجہد اور طاقت کو کمتربتاتا رہا۔
جو میڈیا کبھی بھی کھلے طور پر تسلیم نہیں کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ سالوں میں جس سب سے بڑے جمہوری اور پر امن احتجاج کو دنیا نے دیکھا، جو کہ یقینی طور پر کورونا کے عروج پر ہونے کے باوجود بے حدمنظم طریقے سے کیا گیا، اس نے ایک بڑی جیت حاصل کی ہے۔
ایک جیت جو ایک وراثت کو آگے بڑھاتی ہے۔آدی واسی اور دلت کمیونٹی سمیت ہر طرح کے مرداور خاتون کسانوں نے اس ملک کی جد وجہد آزادی میں اہم رول نبھایا۔ اور ہماری آزادی کے 75ویں سال میں دہلی کی سرحدوں پر کسانوں نے اس عظیم جدوجہد کےجذبے کو پھر سے دہرایا۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے اعلان کیا ہےکہ وہ زرعی قوانین سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور 29 نومبر سے شروع ہونے والےپارلیامنٹ کےآئندہ سرمائی اجلاس میں انہیں واپس لینے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود کسانوں کے ایک حصے کو منانے میں ناکام رہنے کے بعد ایسا کر رہے ہیں۔
ان کےلفظوں پر غور کیجیے، صرف ایک طبقے کو یہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر سکے کہ وہ تینوں زرعی قوانین جنہیں کسانوں نے مسترد کر دیا تھا، دراصل ان کے لیے اچھے تھے۔انہوں نے اس تاریخی جدوجہد کے دوران مارے گئے 600 سے زائد کسانوں کی جان جانے کےسلسلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ قوانین کا روشن پہلو دیکھنے کے لیے کسانوں کے اس طبقے کو ڈھنگ سے نہ سمجھا پانا ہی ان کی ناکامی ہے۔ کوئی بھی ناکامی قوانین سےمتعلق نہیں ہے یا ان کی سرکار نے کیسے ان قوانین کو ٹھیک مہاماری کے بیچ ہی کسانوں پرمسلط کر دیا۔
خیر،جنہوں نے مودی کےدام میں گرفتارہونے سے انکار کر دیا،انہیں خالصتانی،غدار، کسانوں کے بھیس میں فرضی کارکنوں کو ‘کسانوں کے ایک طبقہ’کے نام سے بلایا جانے لگا۔ سوال ہے کہ انہوں نے انکار کیوں کر دیا؟ کسانوں کو منانے کا طریقہ کیا تھا؟
اپنی شکایتوں کوسمجھانے کے لیے راجدھانی میں انہیں داخلہ دینے سے انکار کرنا؟ راستوں پر بڑے بڑے گڑھے کھود کر اورخاردار تاروں سے ان کا راستہ بند کر دینا؟ ان پر واٹر کینن سے حملہ کروانا؟ ان کے کمیپوں کو چھوٹے گلاگ (سویت یونین میں مزدوروں کو رکھنے کی جیلیں، جن میں کئی مزدور مارے گئے تھے)میں تبدیل کرنا؟ اپنے درباری میڈیا کے ذریعے ہر دن کسانوں کو بدنام کروانا؟ ان کے اوپر گاڑیاں چڑھاکر، جس کے مالک مبینہ طور پر ایک مرکزی وزیر اور ان کے بیٹے ہیں؟
یہ ہے اس سرکار کا کسانوں کو منانے کا طریقہ؟ اگر وہ سرکار کی بہترین کاوش تھی تو ہم کبھی بھی اس کی بدترین کوششوں کو نہیں دیکھنا چاہیں گے۔
صرف رواں سال میں ہی وزیر اعظم نے کم از کم سات غیرملکی سفرکیے(جیسے حال میں سی اوپی26 کے لیے کیاتھا)۔ لیکن ان کی رہائش سے کچھ کیلومیٹر کی دوری پر ہی دہلی کے دروازے پر بیٹھے ہزاروں کسانوں سے ملنے کے کاوقت انہیں ایک بار بھی نہیں ملا، جبکہ ان کسانوں کی تکلیف کوملک میں ہر جگہ لوگوں نے محسوس کیا۔
کیایہ کسانوں کو سمجھانے بجھانے، ان میں یقین جگانے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کی سمت میں ایماندارکوشش نہیں ہوتی؟
موجودہ تحریک کو پہلے ہی مہینے سےمیڈیا اور دوسرے لوگوں کے سوالوں سے گھیر لیا گیا تھا کہ کسان ممکنہ طور پر کب تک مظاہرہ پر بیٹھے رہ سکتے ہیں؟ کسانوں نے اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی یہ شاندار جیت ابھی پہلا قدم ہے۔
قانون واپسی کا مطلب ہے کہ ابھی کے لیے کسانوں کی گردن پر رکھا کارپوریٹ ورلڈ کے پاؤں ہٹانا۔ لیکن ایم ایس پی اور سرکاری خریداری سے لےکراقتصادی پالیسیوں جیسےزیادہ بڑے مدعوں تک، دوسرے مسائل کی کثرت ابھی بھی حل طلب ہے۔
ٹیلی ویژن اینکر ہمیں بتاتے ہیں گویا کہ یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہو کہ سرکار کے قدم پیچھے کھینچنے کا ضرور کچھ تعلق اگلے سال فروری میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہے۔
یہی میڈیا آپ کو نومبر کو اعلان کردہ29اسمبلی اور 3پارلیامانی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج کی اہمیت کے بارے میں کچھ بھی بتانے میں ناکام رہا۔اس وقت کےاداریے پڑھیے اور دیکھیے کہ ٹی وی پر تجزیہ کے لیے کیا منظور کیا گیا۔
انہوں نےعام طور پر ضمنی انتخاب جیتنے والی مقتدرہ پارٹیوں کی بات کی، مقامی سطح پر کچھ غصے کی بات کی (جو صرف بی جےپی کے خلاف نہیں تھا)اور بھی ایسی بکواس کی۔ کچھ اداریوں میں ضرور ان انتخابی نتائج کو متاثر کرنے والے دو عوامل کا ذکر تھا، جو کسانوں کی تحریک اور کووڈ 19کی بدانتظامی تھی۔
مودی کا19 نومبر کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے کم از کم، اور آخر میں، ان دونوں عوامل کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جن صوبوں میں کسانوں کی تحریک شدید ہے، وہاں کچھ بڑی ہار ملی ہیں۔ لیکن میڈیا اپنے ناظرین کو رٹا رہا ہے کہ تحریک کا اثر صرف پنجاب اور ہریانہ میں تھا، راجستھان اور ہماچل جیسےصوبے ان کے تجزیے کا حصہ نہیں بن سکے۔
ہم نے آخری بار کب راجستھان کے دو انتخابی حلقوں میں بی جے پی یا سنگھ پریوار کی کسی اکائی/تنظیم کو تیسرے اور چوتھےنمبر پر آتے دیکھا تھا؟ یا پھر ہماچل میں ملی بھاری ہار کو ہی لیں جہاں وہ تینوں اسمبلی اور ایک پارلیامانی سیٹ ہار گئے؟
ہریانہ میں کسانوں نے الزام لگایا کہ ‘سی ایم سے لےکر ڈی ایم تک پوری سرکار’بی جے پی کے لیے پرچار کر رہی تھی۔ یہاں کانگریس نے بیوقوفی کا ثبوت دیتے ہوئے کسانوں کے مدعےپراستعفیٰ دینے والے ابھے چوٹالا کے خلاف امیدوار کھڑا کر دیا۔ ساتھ ہی،مرکزی وزیروں نے پوری طاقت کے ساتھ مورچہ سنبھالا ہوا تھا۔ ان سب کے باوجود بی جے پی وہاں ہار گئی۔
کانگریس امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی لیکن وہ چوٹالا کی جیت کے فرق کو کچھ کم کرنے میں کامیاب رہا۔ پھر بھی چوٹالا 6000 سے زیادہ ووٹوں سے جیتے۔
تینوں صوبوں نے کسانوں کی تحریک کے اثر کو محسوس کیا اور کارپوریٹ ورلڈ کے گدھوں کے برعکس وزیر اعظم نے اس اثر کوسمجھا۔مغربی اتر پردیش میں ان مظاہروں کے اثر سے انہیں ایسااحساس ہوا، جن میں لکھیم پورکھیری میں وحشیانہ ہلاکتوں سے ہوا خود کش نقصان بھی شامل تھا اور اب سے شاید90 دنوں میں اس صوبے میں انتخاب بھی آنے والے ہیں۔
سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا کیا ہوا؟ این ایس ایس(نیشنل سیمپل سروے، 2018-19) کا 77واں دور کسانوں کے لیے فصل کی کھیتی سے ہونے والی آمدنی کے حصہ میں گراوٹ کو ظاہرکرتا ہے – مجموعی طور پر کسان کی آمدنی کو دوگنا کرنا بھول جائیے۔ یہ کھیتی کسانی سے ہوئی حقیقی آمدنی میں بھی خالص گراوٹ کودکھاتا ہے۔
کسانوں نے اصل میں قوانین کو واپس لینے کی اس مضبوط مانگ کو حاصل کرنے سے بھی کہیں زیادہ بڑا کام کیا ہے۔ ان کی جدوجہد نے اس ملک کی سیاست کو اندر تک متاثر کیا ہے۔ جیسا کہ 2004 میں ہوا۔
یہ زراعتی بحران کا خاتمہ بالکل نہیں ہے۔ یہ تو اس بحران سے متعلق بڑے مدعوں پر لڑائی کے ایک نئے دور کی شروعات ہے۔
کسانوں کی تحریک طویل عرصے سے چل رہی ہے۔ اورخصوصی طورپر2018 سے مضبوطی سے ابھری ہے، جب مہاراشٹر کے آدی واسی کسانوں نے ناسک سے ممبئی تک اپنے 182 کیلومیٹر کےحیران کر دینے والے پیدل مارچ سے ملک کو جوش سےبھردیا تھا۔ پھر بھی یہ انہیں‘اربن نکسل’کے روپ میں خارج کیے جانے اور باقی سب انرگل ماتم کے ساتھ شروع ہوا۔ انہیں اصلی کسان نہیں مانا گیا۔ ان کے مارچ نے ان کی مذمت کرنے والوں کو ہرا دیا۔
آج یہاں کئی جیت ملی ہیں۔ جن میں وہ جیت بالکل شامل نہیں ہے جو کارپوریٹ میڈیا پر کسانوں نے درج کی ہے۔ کھیتی کے مدعے پر (جیسا کہ کئی دیگر مدعوں پر)، اس میڈیا نے اضافی طاقت والی اے اے اے بیٹری(امپلی فائنگ امبانی اڈانی +)کے طور پر کام کیا۔
دسمبر اور اگلے اپریل کے بیچ ہم راجہ رام موہن رائے کے دوعظیم رسالوں کے 200 سال پورے کریں گے۔ دونوں رسالوں کو صحیح معنوں میں ہندوستانی پریس کی شروعات کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک مراۃ الاخبار تھا، جس نے کو میلا (اب چٹگاؤں، بنگلہ دیش میں) میں ایک جج کے حکم پر کوڑے مارکر کیے گئے پرتاپ نارائن داس کے قتل پر برطانوی انتظامیہ کو بہترین طریقے سے بے نقاب کیا تھا۔ رائے کے اداریےکا نتیجہ یہ ہوا کہ جج کوجوابدہ ٹھہرایا گیا اور اس وقت کی سب سے بڑی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
گورنر جنرل نےپریس کو ڈراتے ہوئے اس پر ردعمل دیا۔ ایک سخت نیا پریس آرڈیننس جاری کرکے انہوں نے رائے کو جھکانے کی کوشش کی۔ اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے رائے نے اعلان کیا کہ وہ نیچا دکھانے والےاور ذلت آمیزقوانین اور حالات کے سامنے سپردگی کے بجائے مراۃ الاخبار کو بند کر رہے ہیں۔ (اور دیگر رسالوں کےذریعہ اپنی لڑائی کو آگے بڑھانے چل دیے۔)
وہ جرأت مندانہ صحافت تھی، نہ کہ دوستانہ حوصلہ اور سپردگی والی وہ صحافت جو ہم زرعی مسئلے پر دیکھ چکے ہیں۔ بےنام یا بنا دستخط کے اداریے میں کسانوں کے لیے‘تشویش’کا دکھاوا کیا گیا، جبکہ دوسرے اوراق پر انہیں امیر کسان بتاکر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ امیروں کے لیےسوشلزم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس، دی ٹائمس آف انڈیا جیسے اخباروں کا لگ بھگ پورا طبقہ لازمی طور پر کہتا تھا کہ یہ گاؤں کے دیہاتی لوگ تھے جن سے صرف پیارسے بات کیے جانے کی ضرورت تھی۔ یہ اداریے اس قدر مماثل تھے کہ ہمیشہ بنا کسی فرق کے ایک ہی اپیل میں ختم ہوئے کہ سرکار ان قوانین کو واپس نہ لے، وہ دراصل اچھے ہیں۔ یہی صورتحال زیادہ تر دوسرےمیڈیااشاعتوں کی بھی رہی۔
کیا ان میں سے کسی نے کسانوں اور کارپوریٹس کے بیچ جاری تعطل کے بیچ ایک بار بھی اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ مکیش امبانی کی 84.5 بلین ڈالر(فوربس 2021)کی ذاتی دولت تیزی سے پنجاب صوبے کےجی ایس ڈی پی(لگ بھگ 85.5 بلین ڈالر)کے قریب آ چکی ہے؟ کیا انہوں نے ایک بار بھی آپ کو بتایا کہ امبانی اور اڈانی(50.5 بلین ڈالر)دونوں کی مجموعی دولت ملاکر پنجاب یا ہریانہ کے جی ایس ڈی پی سے زیادہ تھی؟
عجب حالات ہیں۔ امبانی ہندوستان میں میڈیا کے سب سے بڑے مالک ہیں۔اور ان میڈیا میں جن کے وہ مالک نہیں ہیں، وہاں وہ ممکنہ طور پر سب سے بڑے مشتہرین ہیں۔ ان دو صنعتکاروں کی دولت کے بارے میں عام طور پر اکثر جشن منانے والے انداز میں لکھا جاتا ہے۔ یہ کارپو کرال یعنی کارپوریٹ کے سامنے جھکنے والی صحافت ہے۔
زرعی قوانین پر پیچھے ہٹنے کی مودی حکومت کی یہ چالاک حکمت عملی پنجاب اسمبلی انتخابات میں کس طرح نمایاں اثر ڈالے گی، اس بارے میں پہلے سے بحثیں جاری ہیں۔ امریندر سنگھ نے اسے کانگریس سے استعفیٰ دےکر اور مودی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے بنائے گئےمنصوبہ کے تحت ملی جیت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ یہ وہاں انتخابی تصویر کو بدل دےگا۔
لیکن اس صوبے کےسینکڑوں ہزاروں لوگ، جنہوں نے اس جدوجہد میں حصہ لیا ہے، جانتے ہیں کہ یہ کس کی جیت ہے۔پنجاب کے لوگوں کے دل ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں کے بعد ایجی ٹیشن کیمپوں میں سخت گرمی، شدیدبارشوں ،مودی اور اس کے غلام میڈیا کے گھناؤنے سلوک کا سامنا کرنے کے بعد دہلی کی بدترین سردیوں کو برداشت کیا ہے۔
اور شاید سب سے اہم چیز جو کسانوں نے حاصل کی ہے وہ یہ ہےکہ دوسرے علاقوں میں بھی مزاحمت کی آوازوں کو متاثر کرنا، ایک ایسی سرکار کے خلاف جو اپنےناقدین کو جیل میں ڈال دیتی ہے یا ان کو ہراساں کرتی ہے۔جویو اے پی اے کےتحت صحافیوں سمیت عام شہریوں کو کھلے عام گرفتار کرتی ہےاور ‘اقتصادی جرائم’کے لیےآزاد میڈیا کی آواز کو کچلتی ہے۔
یہ صرف کسانوں کی جیت نہیں ہے۔یہ شہری آزادی اورحقوق انسانی کی لڑائی کی جیت ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کی جیت ہے۔
(پی سائی ناتھ‘پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا’ویب سائٹ کےبانی مدیرہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر