درخواست گزاروں کو بھیجے ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ جس ڈیوائس میں مبینہ طور پر پیگاسس اسپائی ویئر ڈالا گیا تھا،اس کو نئی دہلی میں جمع کرایا جائے۔حالانکہ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر اس کو کس مخصوص جگہ پر جمع کرنا ہے۔
نئی دہلی: سرکار کے ذریعےاسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئرسےشہریوں کی نگرانی کے الزامات کی جانچ کےلیے سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی نے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ ‘تکنیکی جانچ’کے لیے وہ اپنا فون جمع کرائیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق کمیٹی نے اس سلسلے میں درخواست گزاروں کو ای میل بھیجا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ جس ڈیوائس میں مبینہ طور پر پیگاسس اسپائی ویئر ڈالا گیا تھا، اس کو نئی دہلی میں جمع کرایا جائے۔ حالانکہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر اس کو کس ‘مخصوص جگہ’پر جمع کرنا ہے۔
اس کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آروی رویندرن کر رہے ہیں۔
اس میں جسٹس رویندرن کے علاوہ سال 1976 بیچ کے سابق آئی پی ایس افسرآلوک جوشی اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار سٹینڈرڈائزیشن/انٹرنیشنل الیکٹرو ٹیکنیکل کمیشن کی جوائنٹ ٹیکنیکل کمیٹی میں ذیلی کمیٹی کے چیئرمین سندیپ اوبرائے شامل ہیں۔
یہ پینل تین دیگرتکنیکی ماہرین کی کمیٹی کی نگرانی کر رہا ہے، جس میں سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل فارنسکس کے پروفیسر اور گجرات کے گاندھی نگر میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف فارنسک سائنسز کے ڈین ڈاکٹرنوین کمار چودھری، کیرل کے امرتا وشو ودیاپیٹھم میں انجینئرنگ شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر پربھارن پی اور ممبئی کےآئی آئی ٹی میں کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے صدر شعبہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹڑ اشون انل گمستے شامل ہیں۔
غورطلب ہے کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
معلوم ہو کہ پیگاسس پروجیکٹ کےتحت دی وائر نے اپنے کئی رپورٹس میں بتایا ہے کہ کس طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کےڈیجیٹل فارنسک جانچ میں پتہ چلا تھا کہ اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے کئی فون کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کی ہیکنگ ہوئی تھی۔
اس کڑی میں 18 جولائی سے دی وائر سمیت دنیاکے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی، جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہے۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریدار ی کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی تسلیم کیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد حکومت ہند کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کرنے کی وجہ سے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، سینئر صحافی این رام، سابق مرکزی ویزر ارون شوری اور غیر سرکاری تنظیم کامن کاز نے عرضی دائر کرکے معاملے کی آزادانہ جانچ کرانے کی مانگ کی تھی۔
دیگر درخواست گزاروں میں صحافی ششی کمار، راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس، پیگاسس اسپائی ویئر کے مصدقہ متاثرہ صحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی اور اس کے ممکنہ ٹارگیٹ صحافی پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن اپسا شتاکشی شامل ہیں۔
पेगासस जासूसी मामले में सुप्रीम कोर्ट द्वारा गठित टेक्निकल कमेटी के द्वारा आज मुझे अपना फोन जांच के लिए जमा करने व अपना स्टेटमेंट रिकॉर्ड कराने से संबंधित मेल प्राप्त हुआ है ❤️❤️#pegasussnoopgate #pegasusspyware
— Rupesh Kumar Singh (@RupeshKSingh85) November 27, 2021
عرضی گزار روپیش کمار سنگھ نے گزشتہ سنیچر کو ایک ٹوئٹ کرکے بتایا تھا، ‘پیگاسس جاسوسی معاملے میں سپریم کورٹ کی ٹیکنیکل کمیٹی کے نےآج مجھے اپنا فون جانچ کےلیے جمع کرنے اور اپنابیان ریکارڈ کرانے سے متعلق میل موصول ہوا ہے۔’
معلوم ہو کہ ہندوستان کے وزارت دفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار کر دیا تھا اور مودی سرکار نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور اس کو خریدنے کے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اس معاملے میں بے اہم فیصلہ سناتے ہوئےسپریم کورٹ نے کہاتھا کہ قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والے جمہوری ملک میں، آئین کے تحت کسی بھی من مانے طریقے سے لوگوں کی جاسوسی کی اجازت نہیں ہے، سوائے مناسب قانونی تحفظات کے، قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے۔
انہوں نے کہا تھا‘ایک مہذب جمہوری معاشرے کے ارکان مناسب رازداری کی توقع رکھتے ہیں۔ پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کے لیےتشویش کا معاملہ نہیں ہے۔۔’ کورٹ نے کہا کہ اس طرح کی نگرانی سے بولنے کی آزادی اور پریس کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے کہا، ‘یہ پریس کی آزادی کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جو جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پرممکنہ اثرات جمہوریت کو متاثر کریں گے۔’
قابل ذکرہے کہ دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح 40 سے زیادہ صحافیوں کی پیگاسس کے ذریعے نگرانی کیے جانے کا امکان ہے۔
Categories: خبریں