بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں مانتے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے طریقے سے روزی کمانے اور اپنی طرح سے مذہب پرعمل کرنے کا حق ہے۔لیکن اس بنیادی آئینی حق کو نہ ماننے اور اس کی من مانی تشریح کی چھوٹ پولیس اور انتظامیہ کو نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو وہ وردی یا کرسی کے لائق نہیں ہیں۔
بنگلورو پولیس کی جانب سےمنور فاروقی کا پروگرام رد کروا دینے کے بعد یہ صاف ہو گیا ہے کہ ہندوستان اب بنیادی آئینی قدروں پر مبنی ریاست نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ایک نظریاتی ریاست میں تبدیل ہونے کی رفتار خطرناک طریقے سے تیز ہو گئی ہے۔
اس میں بھی شک نہیں رہ گیا ہے کہ نظم ونسق کوقائم رکھنے کا ذمہ جن کے پاس ہے، یعنی پولیس اور انتظامیہ، وہ اب رضاکارانہ طور پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں کے ساتھیوں کا کردار پورے جوش و خروش کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔منور فاروقی کا پروگرام ردکروانے میں اس نے جو پہل کی اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔
ساتھ ہی کرناٹک میں بیلگاوی میں عیسائیوں کو کمیونٹی ہالوں میں دعائیہ اجتماع کرنے سے منع کرنے کے پولیس کےآرڈر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کی کوئی دلچسپی عیسائیوں کے عبادت کے حق کی حفاظت میں نہیں ہے۔ اس کی کاروائیوں سے ظاہر ہے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو سردرد اور انہیں دوئم درجے کاشہری مانتی ہے۔ ان کے روزگار کے حق کو اور ان کی عبادت کے حق کو اب آر ایس ایس کی تنظیموں کی اجازت چاہیے۔
کرناٹک سے بہت دور دہلی کے قریب گڑگاؤں میں ایک کے بعد ایک کھلی جگہوں میں جمعہ کی نماز سے مسلمانوں کو منع کیا جا رہا ہے اور‘ہندو’تنظیموں کو وہاں بھجن اور پوجا کی اجازت دی جا رہی ہے، اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ممبئی اور چھتیس گڑھ کے رائے پور میں منور فاروقی کا پروگرام‘ہندو’ تنظیموں کی دھمکی کے بعد رد کیا گیا۔ پولیس نے دھمکی دینے والی تنظیموں کوقابو کرنےبجائے آرگنائزر پر ہی دباؤ ڈالا کہ وہ پروگرام رد کر دیں۔
یہ سب دیکھ کر یاد آیا کہ کچھ مہینے پہلے مدھیہ پردیش کے ساگر یونیورسٹی کے ایک شعبہ کے ساتھ ساگر پولیس نے بنگلورو پولیس جیسا ہی سلوک کیا تھا۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو مقررین پسند نہیں تھے۔ اس نے شعبہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے پروگرام کیا تو وہ ہنگامہ کریں گے۔
پولیس نے ودیارتھی پریشد کو قابو کرنے کے بجائےیونیورسٹی کو ہی دھمکی بھرا خط لکھا اور شعبہ کو پروگرام سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ اس خط کی زبان بھی بنگلورو پولیس کے خط کی زبان کی طرح تھی۔ یعنی آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم کو جو اعتراض تھا، اس سے پولیس متفق تھی۔ یعنی پولیس شرپسندوں کی طرف سے یونیورسٹی کو دھمکی دے رہی تھی۔
پولیس اور آر ایس ایس کے نظریے اور رویے میں جو میل بڑھ رہا ہے، وہ ہندوستان کے آئینی نظام کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ عدالتیں اب تک شاید یہ مان رہی ہیں کہ یہ سب کچھ انحراف محض ہیں اور چیزیں خود ٹھیک ہو جائیں گی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ راستہ یا ڈھلان ایک ہی سمت میں جاتا ہے۔
اگر اندور پولیس منور فاروقی کو بنا کسی بنیاد کےگرفتار کر سکتی ہے اور اگر اندور کے پولیس افسر شرپسند ‘ہندو’تنظیموں کی چوکسی کے لیے ان کی تعریف کر سکتے ہیں، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالات کتنے بگڑ چکے ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے بھی منور فاروقی کو ضمانت نہ ملی اور انہیں سپریم کورٹ جانا پڑا۔ منور پر یہ مضحکہ خیز الزام تھا کہ وہ اندور کے اپنے پروگرام میں ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑانے والے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے اورساتھی فن کاروں کو گرفتار کیا گیا۔
یہ کوئی ایک وقت کا خلل نہ تھا۔ منور اس کے بعد شاید ہی اپنا پروگرام کر پائے ہیں۔ ان کے ساتھ اسٹیج ساجھا کرنے کی قیمت نلن یادو بھی چکا رہے ہیں۔ وہ بھی اس کے بعد اپنا کوئی‘کامیڈی شو’نہیں کر پائے ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں کےذریعہ ہر جگہ تشدد کا خطرہ آرگنائزرس کو ہے۔
نلن اب مزدوری کرکے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نلن کو ایک مسلمان کے ساتھ کام کرنے کی سزا مل رہی ہے جو باقی فن کاروں کے لیے سبق ہے۔
انتظامیہ اور پولیس اب آر ایس ایس کے نظریات کو نافذ کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے۔ وہ امن وامان بنائے رکھنے کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں سے ان کے حق چھین رہی ہے۔ وہ چوڑی بیچنا ہو، مہندی لگانا ہو، پھل یا روٹی بیچنا یا اڈلی یا ریستوراں کھولنا ہو، ہرایک پر آر ایس ایس کے شرپسندوں کو کوئی نہ کوئی اعتراض ہوتا ہے اور پولیس ان کی طرف سے کام کرنے کو تیار رہتی ہے۔
یہ کہنا ہی پڑےگا کہ ابھی ہندوستان میں وہی آئین لاگو ہے جو ہرایک شخص کو باوقار زندگی کا حق دیتا ہے۔ اپنی مرضی سے آنے جانے، اپنے طریقے سے روزی روٹی کمانے اور اپنے طریقے سے مذہب پر عمل کرنے کے حق کے بغیر زندگی کے اس حق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں مانتے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہ حق ہے۔ لیکن اس بنیادی آئینی حق کو نہ ماننے کی اور من مانی تشریح کی چھوٹ پولیس اور انتظامیہ کو نہیں ہے۔ وہ جو کر رہی ہے اس کے لیے یہ بہانہ نہیں کر سکتی کہ سیاسی قیادت کے دباؤ میں وہ ایسا کر رہی ہے۔ پھر وہ اپنی وردی اور کرسی کے لائق نہیں ہیں۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے بنیادی حقوق سےمحروم کرنے کا الزام اگر دہلی، گڑگاؤں، تریپورہ، آسام، رائے پور، بنگلورو، اندور، اجین کی پولیس پر لگے تو اس میں غلط کیا ہوگا؟
منور فاروقی کو باربار اپنا کام نہ کرنے دینے کامقصد صاف ہے؛مسلمان اب اپنا کام کرنے کو آزاد نہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ آج بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملہ کرنے کے لیے بہانہ تلاش کرنایا بنانا پڑتا ہے۔ جانتے ہوئے کہ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
اب مسلمان کے خلاف تشددیا اس کا پرچار کرنے پر آر ایس ایس کے دائرے میں آپ اونچے پائیدان پر پہنچیں گے ہی۔ ایسے کئی لوگ اب لیڈر اوروزیر ہیں۔ پھر بھی کسی مسلمان کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی بہانہ چاہیے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بھی وہ اس ہچکچاہٹ سے سماج کوآزاد نہیں کر پائے ہیں کہ بلاوجہ کسی پر تشددنہیں کرنا چاہیے۔اس لیے وہ ایک وجہ تلاش کرتے ہیں؛دیوی دیوتا کی توہین کا جھوٹا الزام، تھوکنے کا الزام، ہندو عورتوں کو گمراہ کرنے کاالزام، تبدیلی مذہب کاالزام۔ یہ الزام لگاکر وہ کہتے ہیں کہ اب ہم تمہیں مار سکتے ہیں۔
وہ کہانی پرانی ہے لیکن جیسے آر ایس ایس کے ایسے لوگوں کے لیے کہی گئی تھی۔ بھیڑ اور بھیڑیے کی کہانی۔ بھیڑیے نے کہا کہ بھیڑ نے اس کا پانی جوٹھا کر دیا ہے اس لیے وہ اسے مارکر اس کی سزا دےگا۔ بھیڑ نے کہا کہ وہ ندی کی روانی میں تو نیچے کی سطح پر تھی اور بھیڑیا اس سے اوپر۔ پانی تو بھیڑیے کی طرف سے بہہ کر نیچے بھیڑ کی طرف آ رہا تھا۔ پھر وہ بھیڑیے کا پانی کیسے جوٹھا کر سکتی تھی!
بھیڑیے نے کہا، اس نے نہ کیا ہو، اس کے باپ دادانے کیا ہی ہوگا۔ اصل بات ہے کہ وہ اسے مارنا چاہتا ہے۔
آر ایس ایس کو بھی جب کچھ نہیں ملتا، وہ بابر، اورنگ زیب،وغیرہ کے ظلم کی بات کرنے لگتا ہے اور آج مسلمانوں پر اپنے ظلم کو جائز ٹھہراتا ہے۔
آج جبکہ ریاست کے سارےادارےآر ایس ایس کے ماتحت ہونے کو راضی ہیں، اسے مسلمانوں اور عیسائیوں پر تشددکے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ وہ کھل کر کہے کہ ہم جب چاہیں ان کے ساتھ تشدد کریں گے۔اسے جائز ٹھہرانے کے لیےہندو یا ہندوستانی طرز معاشرت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مطابقت نہ ہونے کا بہانہ تو ہے ہی۔ لیکن مسلمان اور عیسائی بھیڑ نہیں ہیں۔ ان کا حق اس ہندوستان پر اتنا ہی ہے۔ اور وہ اس حق کا دعویٰ کریں گے ہی۔
پولیس اور رریاست کے ساتھ کے باوجود تشدد کا یہ کھیل لمبے وقت تک نہیں چل سکتا۔ جیسا پریم چند نے 100 سال پہلے لکھا تھا، کوئی بھی عزت دار طبقہ ایسی ذلت اور اذیت کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ ورنہ وہ اس کی نظروں میں گر جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جن ہندوؤں کے نام پر ابھی یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، وہ خود کو اپنی نگاہ میں کیسے دکھ رہے ہیں۔ کیا انہیں احساس بھی ہے کہ پوری دنیا انہیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر