امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
ایسے میں جبکہ دنیا بھرکی معیشت مہاماری سے پہلے والی سطح پر آنے کے لیےجدوجہد کر رہی ہے، دنیا کے مختلف حصوں کے نامور ماہرین اقتصادیات کی عالمی افراط زر کو لےکر اب تک کی سمجھ بدلتی دکھ رہی ہے کہ-یہ ایک عبوری مسئلہ ہے۔
انہوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ گلوبل افراط زر کا دور لمبا چل سکتا ہے۔ ہندوستان میں ریزرو بینک آف انڈیا کے حساب سے معیشت میں مکمل بہتری کی راہ میں افراط زر ایک خطرہ بن کر ابھری ہے۔
جون مہینے کےاپنے مانیٹری پالیسی کے جائزے میں اس نے گلوبل مصنوعات، بالخصوص توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے افراط زر کے خطرے کو تسلیم کیا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس یقین کا اظہاربھی کیا تھا کہ مانگ میں کمی کی وجہ سے مینوفیکچرربڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ صارفین پر نہیں ڈالیں گے۔
لیکن یہ بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے، جس سے توانائی سے لےکرخوراک، دھات، پینٹ،ٹیسکٹائل، صابن، ڈٹرجنٹ، کیمیکل، خام مال تک زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں۔
پچھلے ہفتے ایک اجتماعی فیصلے میں تین موبائل سروس پرووائیڈرز نےسروس چارجز میں20 فیصدی کا اضافہ کر دیا۔ ایک جھٹکے میں دو سب سے بڑی کمپنیوں، ریلائنس جیو اور بھارتی ایئرٹیل نے عوام کی جیب سے 40000 کروڑ روپے اضافی نکال کر کارپوریٹ کھاتے میں ڈال دیے۔
اس میں ایک اوراضافہ ہونے پر، جس کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، غریب اور اپنا روزگار کرنے والےافراد کے لیے سستے ڈیٹا کے دن لد جائیں گے۔ اگلے سال کے صارفین کی قیمت کا اشاریہ یعنی سی پی آئی کو لےکر آر بی آئی پیشن گوئی5فیصد سے زیادہ ہے، جو کہ اس کی راحت کی سطح سے زیادہ ہے۔
اکتوبر مہینے میں ہول سیل پرائس انڈیکس 12.4 فیصد کی سطح پر رہا۔ یہ اشیا کی تیاری کی لاگت کی بڑھتی قیمتوں کو دکھاتا ہے۔ ہول سیل پرائس انڈیکس لگاتار سات مہینے سے، بنیادی طور پر عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافےکی وجہ سے، دوہرے ہندسوں میں رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(ایف اے او)کا ایف اے او گلوبل فوڈ انڈیکس2021 کے اکتوبر میں 2020 کے مقابلے 30 فیصدی کے اضافے کو دکھاتا ہے۔
اس سال کوئلہ اور گیس(کی قیمتوں میں)200 فیصدی کا اضافہ ہوا اور کئی لوگ اسے بنے رہنےوالے گرین فلیشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ توانائی کی قیمتیں اونچی سطح پر بنی رہیں گی، کیونکہ دنیا بھر کی سرکاریں فوسل ایندھن میں سرمایہ کاری سے ہاتھ پیچھے کھینچ رہی ہیں۔
فوسل ایندھن میں طویل مدتی سپلائی کی رکاوٹیں افراط زر کو بڑھا رہی ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے لگ رہا تھا یہ سب تھوڑے وقت کا معاملہ نہیں ہے۔ اس کے میکرو اکنامک مضمرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں ۔
حال میں پہلا جھٹکا تب لگا جب امریکہ میں خوردہ قیمتیں اکتوبر میں6.2 فیصد تک بڑھ گئیں، جو کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے مطابق پورے سال کے لیےافراط زر 3.5 فیصدپر رہ سکتی ہے، جو کہ راحت کی سطح سے کافی زیادہ ہے۔
گزشتہ منگل کو امریکی کانگریس کمیٹی میں دیے اپنے جواب میں امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاویل نے کہا کہ‘سپلائی میں رکاوٹ کی میعاد اور اس کے اثرات کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ افراط زر کو اوپر بڑھانےوالے عوامل اگلے سال تک مؤثررہیں گے۔’
امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے خلل کا سبب بن سکتی ہے۔ خوراک، گیس اور کرایہ جیسی روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں کے تیزی سے بڑھنے سے امریکی فیڈرل ریزرو کے حکام نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اقتصادی پالیسیوں میں بدلاؤ جلدی شروع کر سکتے ہیں تاکہ اگلے سال سود کی شرح کو پہلے بڑھایا جا سکے۔
ایسے میں جبکہ افراط زر 31 سالوں کی بلندترین سطح پر ہے، امریکی سینٹرل بینک کے ذریعےلیبر مارکیٹ کی حالت میں بہتری تک بینچ مارک اوورنائٹ سود کی شرحوں کوصفر کے نزدیک رکھنے کا وعدہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
ہندوستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر نہیں ہے، جو 2013 کی طرح امریکی اقتصادی پالیسوں میں اچانک بدلاؤ کے جھٹکے کو محسوس کر سکتا ہے۔ اگر امریکی فیڈرل ریزرو لیکویڈیٹی میں تیزی سے کمی اور شرح سود میں اضافے کا اشارہ دیتا ہے تو امریکی بانڈ میں زیادہ منافع کی چاہ میں کم وقت کے لیے پونجی کا ہندوستان سے اخراج ہو سکتا ہے اور 2013 کی طرح روپیہ نیچے کی طرف تیز غوطہ لگا سکتا ہے۔
روپیہ پہلے سے ہی ان خدشات کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔ روپے میں تیز اور اچانک کمزوری درآمدات کو مہنگا بناکر افراط زر میں رول ادا کر سکتی ہے۔ یہ ایک شیطانی دائرہ کو بناسکتا ہے، جس سے ہندوستان میں ترقی اور روزگار کو واپس پٹری پر لانے میں اور تاخیر ہو سکتی ہے۔
اگر ہندوستان اپنا بہترین مظاہرہ کرتا ہے اور گھریلو مالیاتی اورمالیاتی پالیسی کے آلات کا استعمال معیشت کے وسیع شعبوں کو متوازن کرنے کے لیے کرتا ہے، تو بھی یہ افراط زر کا سامنا کرنے کے لیے فیڈرل ریزرو کے فوری اقدامات سے پیدا ہوئے بڑے طوفان سے بچ نہیں پائےگا۔
گلوبل افراط زر ابھر رہی معیشتوں کے سامنے سب سے بڑی چیلنج بن کر ابھری ہے، جہاں مہاماری کی وجہ سےپہلے ہی آمدنی پر کافی برا اثر پڑا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر