اتر پردیش کی آگرہ یونیورسٹی سے منسلک ایک پرائیویٹ کالج کےتین طالبعلموں کو 24 اکتوبر کو پاکستان کےٹی -20کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کو شکست دینے کے چار دن بعد جیل بھیج دیا گیا تھا ان کی ضمانت کی درخواستوں کی سماعت نہ ہونے سے ان کے گھر والے مایوس ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں ٹی-20 ورلڈ کپ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی جیت کا جشن منانے کےالزام میں اتر پردیش پولیس کے ذریعےجیل بھیجےگئےتین کشمیری طالبعلموں کے اہل خانہ مسلسل خوف وہراس کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان کی ضمانت عرضی پر سماعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہیں۔
اتر پردیش کی آگرہ یونیورسٹی سے منسلک ایک پرائیویٹ کالج راجہ بلونت سنگھ انجینئرنگ اینڈ ٹیکنیکل کالج (آر بی ایس ای ٹی سی)میں بی ٹیک کے آخری سال کے طالبعلم22 سالہ شوکت احمد گنائی کو24 اکتوبر کو دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کے ذریعےٹی20- کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کو شکست دینےکے چار دن بعد (28 اکتوبر) جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
میچ ختم ہونے کے بعد، کچھ ہندوتوا کارکن آر بی ایس ای ٹی سی کیمپس میں گھس آئے تھےاور انہوں نے اتر پردیش پولیس سے بھی شکایت کی تھی کہ کالج میں کچھ کشمیری طالبعلموں نے ہندوستان کی شکست کے بعد ہندوستان مخالف نعرے لگائے۔ حالاں کہ کالج انتظامیہ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
گنائی کی والدہ حفیظہ نے کہا، پاکستان میچ جیتا، لیکن اس کے لیے میرے بیٹے کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
حفیظہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے شاہ گنڈ گاؤں میں رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ،اس کے امتحانات 3 جنوری سے شروع ہوں گے،لیکن دو ماہ جیل میں گزارنے کے بعد اب وہ اپنا پیپر کیسے لکھ پائے گا۔
معلوم ہو کہ اتر پردیش پولیس نے شوکت سمیت تین کشمیری طالبعلموں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153اے(گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)اور 505(دشمنی کو فروغ دینے والا مواد بنانا یا شائع کرنا) کے تحت ایف آئی آر درج کر کے انہیں جیل بھیج دیا ہے۔
اس معاملے میں گرفتار دیگر دو طالبعلموں میں ہردی چوک پورہ گاؤں کے ارشد پال اور وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع کے دونوور گاؤں کےعنایت الطاف شیخ شامل ہیں۔
گرفتاری کے ایک دن بعد تینوں طالبعلموں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور بعد میں آگرہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ پاکستان کی جیت کا جشن منانے والوں کوسیڈیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے بعد یوپی پولیس نے بھی ان کے خلاف دفعہ 124 اے(سیڈیشن)کا اضافہ کر دیا۔
ان تینوں طالبعلموں کےاہل خانہ معاشی طور پربہت کمزور ہیں اور اپنے بچوں کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔یہ طالبعلم اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے پیشہ ورانہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے ریاست سے باہر قدم رکھا ہے۔ وہ کشمیر کےمحروم طلبا کے لیےمرکزی حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی اسکالرشپ اسکیم کی وجہ سے وہ پرائیویٹ تعلیم کا خرچ اٹھاسکتےتھے۔
شاہ گنڈ کے لون محلہ کے شوکت،محمد شعبان گنائی کے چار بچوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے والدایک بے زمین غریب مزدور ہے۔ وہ اتنی کمائی بھی نہیں کر پاتے کہ چھ افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔
حفیظہ کہتی ہیں،میں اور میرے شوہر نے سختیاں برداشت کیں تاکہ ہمارے بچوں کو تکلیف نہ پہنچے، لیکن تقدیر نے ہمارےساتھ کیاکیا؟
معاملے میں گرفتار دوسرے طالبعلم ارشد پال یتیم ہیں اور تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چچا یاسین پال نے دی وائر کو بتایا کہ ارشد اپنے دو چچا، ان کے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں اور ایک درجن سے زائد چچا زائد بھائیوں کے خاندان میں واحد شخص ہے جو انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری مکمل کرنے والا تھا۔
اس معاملے میں گرفتار تیسرے طالبعلم عنایت کے چچا شبیر احمد نے کہا، ابتدائی طور پر ہمیں مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل نہیں ملا۔ اب عدالت ہماری درخواست پر سماعت نہیں کر رہی۔ اگلے سال اتر پردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں، ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔
سیڈیشن کے سخت الزام، جن میں جرم ثابت ہونے کی صورت میں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اتر پردیش میں فرقہ وارانہ پولرائزڈ ماحول نے تینوں طالبعلموں کے خاندانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ خاندانوں کو خوف ہے کہ ان کے بیٹے یوپی اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے لیے سیاست چمکانے کا ایک ہتھیار نہ بن جائیں۔
دیگر دو خاندانوں کی طرح شوکت کے والدین کو بھی اس کی گرفتاری کا علم سوشل میڈیاسے ہوا۔
شوکت کے والد محمد شعبان گنائی نے کہا، میری باقاعدہ آمدنی نہیں ہے۔ میرے بڑے بیٹے نے خاندان کی کفالت کے لیے اسکول چھوڑ دیا۔ مجھے یوپی جا کر ان سے ملنے کے لیے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے ادھار لینے پڑےتھے۔
شعبان کے دو بڑے بچوں کے برعکس، جنہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا، شوکت ابتداسے ہی ذہین طالب علم تھے۔ ان کے والد نے بتایا کہ وہ اپنے اسکول میں ٹاپر میں تھا۔ شعبان کی چھوٹی بیٹی آپتھلمولوجی یعنی طب العین میں ڈپلومہ کر رہی ہیں۔
شاہ گنڈ، جہاں یہ خاندان رہتا ہے، بانڈی پورہ ضلع کا ایک بڑا غیر ترقی یافتہ گاؤں ہے جس میں تقریباً 1000 گھر ہیں۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق، جموں و کشمیر کی خواندگی کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے جبکہ اوسط خواندگی کی شرح 67 فیصد ہے۔ چونکہ غریبی ان کے طرز زندگی کا تعین کرتی ہے، اس لیے شوکت کو اپنے پڑوس میں نوجوان نسل کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سینئر وکیل مدھوون دت، جو تینوں طالبعلموں کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں معالے کو آگرہ سے باہر منتقل کرنے اور ضمانت کی مانگ کی گئی ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی پر بھی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔
دت نے کہا کہ منتقلی کی درخواست پر 22 دسمبر اور ضمانت کی درخواست پر 23 دسمبر کو سماعت ہونی ہے۔
انہوں نے کہا،ان طالبعلموں پر کوئی الزام نہیں بنتے ۔ عدالت پچھلی تاریخ کومعاملے کی سماعت نہیں کر سکی، کیوں کہ درخواستیں بہت زیادہ تھیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا۔
شعبان نے کہا، وہ ہم سے جیل سے فون پر بات کرتا ہے۔ وہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کب باہر جانے والا ہے۔ کیا یہ سزا کافی نہیں ہے؟ اگر ان سے نادانستہ کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہم اس کی معافی مانگ چکے ہیں لیکن کوئی سنتا کیوں نہیں؟
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)