کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئےجب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہوتو اس علاقہ کا پریس کلب ایک طرح سے پہلی منزل ہوتی ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر یا خدائی فوجدار کے روپ میں آپ کی مدد کے لیےیا مقامی ایشوز آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
باقی آپ کی اپنی ٹریننگ اور صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کی معتبریت پرکھنا ہے۔ ہندوستان کے وسطی شہر بھوپال میں تو پریس کلب کے ساتھ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے معقول اور سستی رہائش کا بھی انتظام ہے۔
ہندوستان کی انتہائی جنوبی صوبہ کیرالا میں تو ہر ضلع میں پریس کلب موجود ہے، کیونکہ تقریباً ہر بڑے اخبار کے یہاں ہرضلع میں ایڈیشن ہیں، جن کی اشاعت لاکھوں میں ہے۔ ترکی کے کسی شہر میں پریس کلب تو نہیں ہے، مگر میڈیا یونین نے تقریباً ہر شہر میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے دورہ پر آئے جرنلسٹوں کے لئے میڈیا ہوسٹلز قائم کیے ہیں،جہاں ہوٹلوں کی نسبت بورڈنگ و طعام کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے اور اسٹوری فائل کرنے کے لیے وائی فائی کا مفت انتظا م ہوتا ہے۔
سال 2018سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں پریس کلب موجود نہیں تھاتو دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینئر صحافی یوسف جمیل کا دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔
نوے کی دہائی میں چونکہ حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں خود بھی قیام پذیر تھے، جبکہ پہلی منزل میں ان کا دفتر اور ڈرائنگ روم و کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود، حلم، بردباری اور آداب میزبانی نبھانا جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ ایک ہجوم کو چائے اور ناشتہ سروے کرتے ہوئے، ان کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آتی تھی۔
میں نے چونکہ صحافت کی تعلم اور کیریر دہلی سے شروع کیا، کبھی کبھار رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سری نگر وارد ہوکر جمیل صاحب کے کوارٹر ہی آدھمکتا تھا۔ میرے جیسے نوخیز صحافی کے ساتھ بھی وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی وقت تو اپنے ساتھ، یا کبھی فوٹو جرنلسٹ معراج الدین کے ساتھ مجھے گراؤنڈ رپورٹنگ کرنے کے لیےبھیج دیتے تھے۔
اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکٹھا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا، جہاں جمیل صاحب قیام پذیر ہوتے تھے۔ اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سری نگر کا اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کی ایک مشین تھی۔
سوپور میں میرے کالج کے ایام میں دہلی سے شائع ہونے والا انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا ہوا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔
ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی رگ تفتیش نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا تھا۔ جب میرے ہم عصروں مسعود حسین اور مرحوم شجاعت بخاری نے بعد میں کشمیر ٹائمز جوائن کیاتو میرے سری نگر دورہ کے دوران اس کا دفتر ایک مستقل ٹھکانہ بن گیا تھا۔
مسعود، ہم سے چند سال ہی سینئر تھے، مگر ان کا مشاہدہ، خبروں کی تہہ تک جانے کی لگن اور تفصیلات حاصل کرنا اور پھر ان کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرنا، ان ہی کا خاصا ہے۔ خبروں کی تصور سازی یا آئیڈئیشن میں تو ان کو کمال حاصل ہے۔ اس کی واضح مثال ان کی ادارات میں شائع ہونے والا ہفتہ وار کشمیر لائف ہے۔
مزاج میں گو کہ وہ جمیل صاحب کی ضد ہیں، مگر اگر ادارتی آئیڈئشن کے حوالے سے کسی اور ایسے ایڈیٹر کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جائے، جن کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، تو وہ آؤٹ لک میگزین کے مرحوم ایڈیٹر ونود مہتہ یا ڈی این اے میں میرے ایک باس ناول نگار سی پی سریندرن ہی ہیں۔ کالج کے زمانہ میں جو افراد میرے جرنلز م میں آنے کا محرک بنے، وہ یوسف جمیل، ظفر معراج، ارون شوری اور مسعود حسین ہی ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
گو کہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سری نگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے ادرایوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغدار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے کا استعمال کرکے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکہ اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔
یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو صحافی، جن کے ادراوں کے سری نگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔
گو کہ ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں پریس کلب موجود ہیں، سری نگر میں اس کا قیام 2018میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا دوری پر ایک سرکاری ادارے کے ذریعے خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی آفر دی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی ٹرم مکمل کر چکی تھی۔
مگر چونکہ 2019میں خطے کے قوانین تبدیل کر دیے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔ جولائی 2021کو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھ ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔
اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ کلب کی انتظامیہ کے خلاف منفی انٹلی جنس رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے پولیس کے معیت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔
چونکہ انتخابا ت کا پہلے ہی اعلان ہو چکا تھا، وہ ان میں شرکت کرکے انتظامیہ کی باگ ڈور قواعد و ضابطو ں کی پیروی کرکے بھی حاصل کرسکتے تھے۔ 2018 میں جب اس کلب کی انتظامیہ منتخب ہو رہی تھی تو اس گروپ کے ایک ممبر نے دہلی میں پریس کلب آف انڈیا کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی صورت میں ‘علیحدگی پسند گروپ’ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔
اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لےکر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضہ پراعتراض کیا تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ بہانہ یہ تھا کہ جرنلسٹوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
کشمیر میں صحافیوں کے لیے راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں 1990سے لےکر اب تک 19صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر 2018 میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔آصف سلطان تو 2018سے ہی جیل میں ہے۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔
اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بد نام زمانہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔پچھلے تین سالوں میں کم از کم 12صحافیوں کو پولیس نے پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتہ کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔
محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ’تکبیر’ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ 1990 میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
سال 2010ء کی ایجی ٹیشن کے دوران ہندوستان کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔
اگر دنیامیں کسی بھی جرنلز م کے طالب علم کو یہ اسٹڈی کرنی ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعہ میں ضرور لانا چاہیے۔
کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکولر جاری کیا گیا کہ چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر اور کارباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دور رہیں۔
سابق وزیر داخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادی اظہار پر قد غن لگانے پر خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔
کشمیر ٹائمز کے معاملے میں ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھا کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔
کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ و ایڈیٹوریل کسی بھی بھی صورت میں نئی دہلی کے گلے نہیں اترتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ 2015 میں اس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنی پڑی اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘۔ ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔
کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوں گرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوں کی تنظیم سافما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوں کا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دو مرتبہ کہا کہ کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
سال 1991ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ 1992ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہائش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر عام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر 2018سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے ۔
دہلی میں پریس کلب آف انڈیا کی طرح ہندوستان کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سری نگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لےکر پریس کلب کے ادارہ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان مہیا کرا سکتی ہے۔
Categories: فکر و نظر