خبریں

ہندوستان  نے 2017 میں اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے کے تحت پیگاسس کی خریداری کی تھی: رپورٹ

نیویارک ٹائمس نے سال بھرکی تفتیش  کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت ہند نے  2017  میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہوئے دو ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے  کے تحت پیگاسس کی خریداری کی تھی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع نے نئے معاہدوں  کے تحت پولینڈ، ہنگری،ہندوستان  سمیت کئی ممالک کو پیگاسس فروخت کیا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

نئی دہلی: امریکی اخبار دی نیویارک ٹائمس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت  ہند نے  2017 میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے دو ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کےتحت اسرائیلی  اسپائی ویئر  پیگاسس خریدا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، اس معاہدے میں میزائل سسٹم اور پیگاسس بھی شامل تھے۔

نیویارک ٹائمس کی سال بھر کی تفتیش سے پتہ چلا  کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے  بھی پیگاسس خریدا تھا اور گھریلو نگرانی کے لیےاس کا استعمال کرنے کےمنصوبے کے ساتھ کئی سالوں تک اس کا تجربہ کیا تھا، لیکن گزشتہ سال ایجنسی نے پیگاسس کو استعمال کرنا بند کر دیا۔

رپورٹ میں مفصل جانکاری دی گئی ہے کہ کس طرح دنیا بھر میں پیگاسس کا  استعمال کیا گیا۔ میکسیکو میں صحافیوں اور مخالفین کو نشانہ بنانے،سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں اورسعودی آپریٹو کے ذریعے قتل کیے گیئے کالم نگار جمال خاشقجی کے معاونین کو نشانہ بنانے کے لیے پیگاسس کا استعمال کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع کے ذریعےنئے معاہدوں کے تحت پولینڈ، ہنگری، ہندوستان  اور دیگر ممالک کو پیگاسس فروخت کیا گیا۔

بتا دیں کہ جولائی 2017 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا،جو ہندوستان کے کسی بھی وزیر اعظم کا اسرائیل کا پہلا دورہ تھا۔

نیویارک ٹائمس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ، جب ہندوستان نے فلسطین اور اسرائیل کے تعلقات پر ایک پالیسی بنائی تھی، جس میں ہندوستان نے فلسطین کے ساتھ اپنی وابستگی کی پالیسی کو برقرار رکھا جبکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو غیر دوستانہ رکھا۔

2017 میں اسرائیل کے اولگا بیچ پر نتن یاہو کے ساتھ نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

2017 میں اسرائیل کے اولگا بیچ پر نتن یاہو کے ساتھ نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

رپورٹ میں کہا گیا،مودی کا دورہ حالاں کہ  خوشگوار رہا۔ انہیں  اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو ننگے پاؤں ایک مقامی سمندری ساحل پرچہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ دونوں کے بیچ  گرم جوشی  کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان دو ارب ڈالر کا اسلحہ معاہدہ تھا، جس میں پیگاسس اور میزائل سسٹم بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی ماہ بعد نتن یاہو نےہندوستان کا دورہ کیا۔ جون 2019 میں ہندوستان نے اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ کیا تاکہ فلسطین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کو مشاہد کا درجہ نہ مل سکے۔

قابل ذکر ہے کہ اب تک نہ تو حکومت ہند اور نہ ہی اسرائیلی حکومت نے یہ قبول کیا ہے کہ ہندوستان نے پیگاسس کی خریداری کی  تھی۔

بتادیں  کہ جولائی 2021 میں دی وائر سمیت میڈیا گروپس کے ایک بین الاقوامی کنسورٹیم نے انکشاف کیا تھا کہ کئی ممالک نے دنیا بھر میں اپنے مخالفین، صحافیوں اور تاجروں کو نشانہ بنانے کے لیے پیگاسس کا استعمال کیا تھا۔

اس تفتیش سے پتہ چلا تھاکہ ہندوستان میں اس کےممکنہ اہداف میں کانگریس رہنما راہل گاندھی،انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور، اس وقت کے الیکشن کمشنر اشوک لواسا، اب انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو (وہ اس وقت وزیر نہیں تھے)کے ساتھ ساتھ کئی اہم رہنما ؤں کے نام شامل تھے۔

انڈین ایکسپریس اخبار کے تین مدیران  کے نام بھی اس فہرست میں تھے۔وہیں دی وائر کے دو بانی مدیران– سدھارتھ ورد  راجن اور ایم کے وینو، پرشانت کشور، دیگر صحافیوں میں  سشانت سنگھ، پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی، ڈی یو کے پروفیسر ایس اے آر گیلانی، کشمیری علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور وکیل الجو پی جوزف کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔

اس تنازعہ پر جولائی2021 میں پارلیامنٹ میں جواب دیتے ہوئے ویشنو نے کہا کہ یہ رپورٹ ہندوستانی جمہوریت اور اس کے اداروں کی شبیہ کو داغدار کرنے کی ایک سنسنی خیز کوشش ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان نے سرولانس کے بارے میں  پروٹوکول بنائے ہیں وہ مضبوط ہیں اور معیار پر پورے اترے ہیں۔

وزیر نے کہا تھا، میں بتانا چاہوں گا کہ پیگاسس بنانے والی کمپنی این ایس او نے بھی کہا ہے کہ  پیگاسس کا استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست غلط ہے۔ اس فہرست میں شامل کئی ممالک ان کے گراہک بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے زیادہ تر گراہک مغربی ممالک ہیں۔ یہ واضح ہے کہ این ایس او نے ان رپورٹ میں کیے گئے دعووں کو کلی طور پر مسترد کر دیا ہے۔

ہندوستان میں اسرائیل کے سفیر ناور گیلور نے کہا تھا کہ این ایس او سے کیا گیا ایکسپورٹ اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسرائیلی حکومت کو معلوم ہے کہ این ایس او نے حکومت ہند کو پیگاسس فروخت کیا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ ،یہ نجی کمپنی (این ایس او) اپنی تمام ٹکنالوجی صرف حکومتوں کو ہی فروخت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ این ایس او ایک نجی اسرائیلی کمپنی ہے، جس نے دہشت گردی سے نمٹنے اور شایدلوگوں کی جان بچانے کے لیے ٹکنالوجی تیار کی ہیں۔ اس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسرائیل نے انہیں لائسنس دیتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ اپنی ٹکنالوجی  صرف حکومتوں کو ہی فروخت کرسکتے ہیں۔

اس حوالے سے ہر قسم کی افواہوں اور دعووں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ، مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ہندوستان کی بات آتی ہے  تو یہ داخلی  سیاسی معاملہ ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کے سلسلے میں  نہ تو تردید کی ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے۔

اس انکشاف کے سامنے آنے کے بعد ملک اور دنیا بھر میں اس کو لے کر بڑا سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد مودی حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کے الزامات پر درجن بھر عرضیاں دائر کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو ریٹائرڈ جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی میں  جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی ۔

اس وقت اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی این وی رمنا نے کہا تھا کہ حکومت ہر وقت قومی سلامتی کی بات کہہ کر بچ نہیں سکتی۔ جس کے بعد عدالت نے اس کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔