کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت نے جمہوری اداروں، سیاست دانوں اور عوام کی جاسوسی کے لیے پیگاسس کی خریداری کی ۔ سی پی آئی (ایم) لیڈر سیتارام یچوری نے کہا کہ اتنے اہم مسئلہ پر خاموشی کا مطلب صرف اپنے مجرمانہ فعل کو تسلیم کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوستان نے 2017 میں اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے کے تحت پیگاسس کی خریداری کی تھی۔
نئی دہلی: اپوزیشن نے پیگاسس اسپائی ویئر سےمتعلق امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمس‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سنیچر کو الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے ملک سے ‘غداری’ کی ہے۔
امریکی اخبار کی خبر کے مطابق، 2017 میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تقریباً دو ارب ڈالر کےجدید ترین ہتھیاروں اور انٹلی جنس آلات کے سودے میں پیگاسس اسپائی ویئر اور میزائل سسٹم کی خریداری شامل تھی۔
اس خبر کے سلسلے میں راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا،مودی حکومت نے ہمارے جمہوری اداروں، سیاست دانوں اور عوام کی جاسوسی کے لیے پیگاسس کی خریداری کی ۔ فون ٹیپ کرکے مقتدرہ پارٹی ، اپوزیشن، فوج، عدلیہ سب کو نشانہ بنایا۔ یہ ملک سے غداری ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ، مودی حکومت نے ملک سے غداری کی ہے۔
راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما ملیکارجن کھرگے نے ٹوئٹ کیا،مودی حکومت نے ہندوستان کے دشمن کی طرح کام کیوں کیا اور ہندوستانی شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کیوں کیا؟
Why did Modi Govt act like the enemies of India and use a warfare weapon against Indian citizens?
Illegal snooping using Pegasus amounts to treason. No one is above the law and we will ensure that justice is served.https://t.co/qTIqg3yNdq
— Mallikarjun Kharge (@kharge) January 29, 2022
انہوں نے کہا، پیگاسس کا استعمال غیر قانونی جاسوسی کے لیےکرناملک سے غداری ہے۔ قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے۔ ہم یقینی بنائیں گے کہ انصاف ہو۔
نیویارک ٹائمس کی رپورٹ پر ردعمل کے لیے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت سے رابطہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
کانگریس کی ترجمان شمع محمد نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی سمیت متعدد ہندوستانی شہریوں کے خلاف ملٹری گریڈ اسپائی ویئر کا استعمال کیا، جس کے لیے ان کی جوابدہی طے ہونی چاہیے۔
راجیہ سبھا ایم پی اور کانگریس کے سینئر لیڈر شکتی سنگھ گوہل نے الزام لگایا کہ رپورٹ میں’انکشاف’ کا مطلب ہے کہ حکومت نے اس معاملےمیں سپریم کورٹ اور پارلیامنٹ کو ‘گمراہ’ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی خاموش کیوں ہیں؟ اس کو واضح کرنا ان کا فرض ہے۔
Why @narendramodi is silent? It is @PMOIndia’s duty to clarify. New York Times revelations today that It did indeed subscribe by payment from tax payers money of ₹ 300 crores to spyware Pegasus sold by Israeli NSO company. This implies our Govt misled Supreme Court & Parliament pic.twitter.com/j9J2tAP62X
— Shaktisinh Gohil MP (@shaktisinhgohil) January 29, 2022
سنیچر کو سی پی آئی (ایم) کےسینئر لیڈر سیتارام یچوری نے کہا، جمہوریت کو تباہ کرنے کے لیے عوام کے پیسے سے پیگاسس کی خریداری کی گئی ۔ الیکشن کمیشن، سیاسی رہنماؤں اورسپریم کورٹ وغیرہ کی جاسوسی جمہوریت کی تباہی ہے۔ یہ گوارہ نہیں، اس حکومت کو جانا چاہیے۔
Pegasus has been procured on public money to destroy our democracy.
Spying on the Election Commission, political leaders, Supreme Court and Officers conducting sensitive investigations is a serious subversion of democracy.
Unacceptable.
This govt must go. https://t.co/9U7pjasZY8— Sitaram Yechury (@SitaramYechury) January 29, 2022
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا، مودی حکومت کو حلف نامے داخل کرکے بتانا چاہیے کہ اس نے یہ سائبر ہتھیار کیوں خریدا، اس کے استعمال کی اجازت کس نے دی، ٹارگیٹ کیسے منتخب کیے گئے اور یہ رپورٹ کس کو ملی؟ اتنے اہم مسئلے پر خاموشی کا مطلب صرف اپنے مجرمانہ فعل کو تسلیم کرنا ہے۔
انڈین یوتھ کانگریس کے صدر سری نواس بی وی نے ٹوئٹ کیا،راہل گاندھی نے جولائی2021 میں حکومت سے دو سوال پوچھےتھے، جن کا وزیر اعظم نے جواب نہیں دیا، لیکن ‘نیو یارک ٹائمس’ کی خبرسے اس کا جواب ملا۔ سوال یہ تھے کہ کیا ہندوستانی حکومت نے پیگاسس کی خریداری کی اور کیا اس ہتھیار کو اپنے لوگوں پر استعمال کیا؟ اب جواب بالکل واضح ہے – ہاں۔
India bought Pegasus as part of defence deal with Israel in 2017: @nytimes
Hence Proved! Chowkidar Hi Jasoos Hai..https://t.co/0FoLcZ3gqg
— Srinivas BV (@srinivasiyc) January 29, 2022
بی جے پی رکن پارلیامنٹ سبرامنیم سوامی نے کہا، مودی حکومت کو نیویارک ٹائمس کے انکشاف کو مسترد کرنا چاہیے۔ اسرائیلی کمپنی این ایس او نے 300 کروڑ روپے میں پیگاسس کوفروخت کیا۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ اور پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ہے۔ کیا یہ ‘واٹر گیٹ’ ہے؟
Modi government must rebut New York Times revelations today that It did indeed subscribe by payment from tax payers money of ₹ 300 crores to spyware Pegasus sold by Israeli NSO company. This implies prima facie our Govt misled Supreme Court and Parliament. Watergate ?
— Subramanian Swamy (@Swamy39) January 29, 2022
شیوسینا کی رکن پارلیامنٹ پرینکا چترویدی نے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا کہ اسپائی ویئر کا استعمال دفاعی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ اپوزیشن اور صحافیوں کی جاسوسی کے لیے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا ، اگر بی جے پی ہے تو یہ ممکن ہے۔ انہوں نے ملک کو ‘بگ باس’ شو بنا ڈالا ہے۔
India bought Pegasus as part of defence deal with Israel in 2017: NYT.
A spyware used not for defence purposes but to snoop on opposition and journalists.
भाजपा है तो मुमकिन है, देश को बिग बॉस का शो बना डाला है। https://t.co/kQDEf413lS— Priyanka Chaturvedi🇮🇳 (@priyankac19) January 29, 2022
ترنمول کانگریس کی جانب سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا گیا،سرکار کی سرپرستی میں نگرانی کی گئی۔ نریندر مودی جی کی قیادت والی بی جے پی حکومت ہندوستانیوں کے حقوق کو پامال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے چھوٹے سے راز سے پردہ اٹھ گیا ہے، جب کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ 2017 میں اسرائیل کے ساتھ 2 بلین ڈالر کے سودے میں پیگاسس اسپائی ویئراہم تھا۔ شرمناک۔
STATE SPONSORED SURVEILLANCE.
The @narendramodi ji led @BJP4India government is BLATANTLY ABUSING the rights of Indians.
PM's little secret is out in the open after reports show that #PegasusSpyware was the centerpiece in the $2 billion deal with Israel in 2017.
SHAME. pic.twitter.com/D6q0pFPnKY
— All India Trinamool Congress (@AITCofficial) January 29, 2022
غورطلب ہے کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈ اسپائی ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتا ہے۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کی نہ تو تردید کی ہے اور نہ ہی اسے قبول کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر وی رویندرن کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس انکشاف کے بعد حکومت ہند کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، سینئر صحافی این رام، سابق مرکزی وزیر ارون شوری اور این جی او ‘کامن کاز’نے اس معاملے کی آزادانہ انکوائری کی مانگ کی تھی۔
دیگر درخواست گزاروں میں صحافی ششی کمار، راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس، پیگاسس اسپائی ویئر مصدقہ شکارصحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا،اور ایس این ایم عابدی اور اسپائی ویئر کے ممکنہ ہدف صحافی پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن ایپسا شتاکشی شامل ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کی وزارت دفاع اور آئی ٹی نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کی تردید کی تھی اور مودی سرکار نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور خریداری پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اس معاملے پر بہت اہم فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق بے لگام جاسوسی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا تھا،ایک مہذب جمہوری معاشرے کے ارکان پرائیویسی کی معقول توقع رکھتے ہیں۔ پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کے باعث تشویش نہیں ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ اس طرح کی نگرانی سے اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ،یہ پریس کی آزادی کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جو جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔اظہار رائے کی آزادی پر اس کےممکنہ اثرات جمہوریت کو متاثر کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح پیگاسس کے ذریعے 40 سے زیادہ صحافیوں کی نگرانی کیے جانے کا امکان ہے۔
Categories: خبریں