جے این یو کی نئی وائس چانسلر شانتی سری پنڈت نے کئی موقع پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے ہندوتوا اور دائیں بازو کے نظریات کی تشہیر کی ہے۔ تقرری کے بعد ان کے پرانے ٹوئٹ شیئرکیے جانے کا سلسلہ بڑھنے کے بعد ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی نئی وائس چانسلر شانتی سری دھولیپڑی پنڈت کےیونیورسٹی اور عوامی معاملات کے بارے میں ٹوئٹر پران کےنظریات سے اگر صحیح اشارہ ملتا ہے تو یہ دکھاتا ہے کہ وہ اسی تعلیمی اور انتظامی راستے پر چلنے کوتیار ہیں،جس پر ان کے پیش رو ایم جگدیش کمار عمل پیرا تھے۔
ان کی تقرری کا اعلان 7 فروری کو کیا گیا تھا، جبکہ کمار کو گزشتہ ہفتے ہی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا سربراہ بنایا گیاہے۔
یونیورسٹی میں دائیں بازو کی جارحانہ سرگرمیوں کے لیےمرکزی حکومت کی جانب سےکمار کی حمایت کا رجحان پنڈت کو اس اعلیٰ عہدےسے نوازنے کے فیصلے میں بھی جھلکتا ہے۔
طلبااور فیکلٹی کے نام ایک پیغام میں پنڈت نے کہا ہےکہ ان کی اولین ترجیحات اکیڈمک بہتری کے لیے ماحول فراہم کرنا ہے۔
مودی حکومت کےنظریے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی توجہ ہندوستان پر مبنی بیانیہ تیار کرنے پر مرکوزہو گی۔
حالاں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)سے قریبی تعلق رکھنے والی پنڈت نے ماضی میں نسل کشی کی اپیل، طلباپر حملے اور حال ہی میں کسانوں پر حملوں کی حمایت میں ٹوئٹ کیے تھے۔
مثال کے طور پر، پنڈت نے گزشتہ سال ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کے بعد کنگنا رناوت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو سسپنڈ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ٹائمز ناؤ کے ایڈیٹر راہل شیوشنکر کے تبصروں کے جواب میں بائیں بازو کے لوگوں کو ‘جہادی’ بتاتے ہوئے ان کو نشانہ بنایا تھا۔
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے شہری حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی وکالت کی تھی اور انہیں ‘ذہنی طور پر جہادی’ اور ‘چینی طرز’ والا بتایا تھا۔
پنڈت کے دیگر ٹوئٹس میں انہوں نے مہاتما گاندھی کے قتل کو افسوسناک قرار دیا تھا، لیکن گوڈسے کے جرم کو اس بنیاد پر منصفانہ ٹھہرایا تھا کہ صرف گاندھی کو مارنا ہی ‘اکھنڈ بھارت’ کا حل تھا۔
پنڈت نے کئی موقع پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے ہندوتوا اور دائیں بازو کے سیاسی نظریات کو پیش کیا ہے۔
مثال کے طور پر انہوں نے اطالوی نژاد سونیا گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں سے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔
دیگر معاملوں میں انہوں نےجے این یو کے بائیں بازو کے کارکنوں کو’جہادی’ بتاتے ہوئے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، روہنگیا پناہ گزینوں کو باہر نکالنے کی پیروی کی تھی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سینٹ اسٹیفن جیسے تعلیمی اداروں کی مالی امداد بند کرے۔
انہوں نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیےغیر مسلموں سے ‘جاگنے’ کی اپیل کی تھی۔
حال ہی میں انہوں نے کسانوں کی تحریک میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو ‘دیمک’، ‘مڈل مین’، ‘دلال’ کہہ کر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس سے پہلے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج کرنے والے سی اے اے مخالف مظاہرین کے لیے بھی اسی طرح کی لفظیات کااستعمال کیا تھا۔
وہ اکثر سوشل میڈیا پر ٹرول ہینڈلز کی پوسٹس کو ری ٹوئٹ بھی کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی اور معروف مؤرخ آڈری ٹرشکے کی تصویر کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا تھا، ‘شکاری کے ساتھ ایک گدھ۔’
آپ ان کے کچھ ٹوئٹس یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اپنی تقرری کے بعد طلبا اور صحافیوں کی جانب سے ان کے پرانے ٹوئٹس شیئر کرنے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد انہوں نے اب اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے۔
ایم جگدیش کمار کا ریکارڈ
پنڈت کے پیش رو مامی ڈالا جگدیش کمار کے دور میں ایک طرف طلبا اور فیکلٹی ممبران اور دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ان کے جھگڑے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
کمارکو فیکلٹی کی تقرریوں میں کئی طرح کی خلاف ورزیوں اور جانبداری، ہندوتوا گروپوں کے حق میں سیاسی تعصب، مالی بے ضابطگیوں، اساتذہ اور کانٹریکٹ اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، بڑی تعداد میں صفائی ملازمین کی برطرفی اور بڑی تعداد میں طلبہ کارکنوں کے خلاف پراکٹورل جانچ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
وائس چانسلر کے طور پر ان کے دور میں بڑی تعداد میں ہندوتوا اور دائیں بازو کے طلبہ گروپوں اور دیگر سماجی اور سیاسی محاذوں پر کیمپس میں پرتشدد جھڑپیں بھی دیکھنے کو ملی۔
ان کے دور میں دہلی پولیس نے 2016 میں سیڈیشن کے الزام میں جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اور طلبہ کارکنوں عمر خالد اور انربن بھٹاچاریہ کو گرفتار کیا۔
داغدار ریکارڈ کے باوجود کمار کی مدت کار میں توسیع کی گئی۔ انہیں گزشتہ ہفتے ہی مرکزی وزارت تعلیم نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر ترقی دی ہے۔
جے این یو میں ان کی میعاد 26 جنوری 2021 کو ختم ہوگئی تھی۔
شانتی سری پنڈت پر بدعنوانی کے الزامات
مرکزی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر سنگھ پریوار کے لیےجھکاؤ رکھنے والے ماہرین تعلیم کی تقرری کے مرکزی حکومت کے رجحان پنڈت کے معاملے میں بھی واضح ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات بھلا دیے گئے ہیں۔
سال 2011 میں، ڈی این اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھاکہ 2002 اور 2007 کے درمیان جب پنڈت پونے یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹڈیز (آئی ایس سی) کی ڈائریکٹر تھیں تو اس وقت پرسن آف انڈین اوریجن (پی آئی او)کے لیے مخصوص نشستوں پر 1800 سے زائد طلباکو مختلف کامرشیل کورسز میں داخلہ دیاگیا تھا۔
اس وقت پونے یونیورسٹی کے نریندر جادھو نے سنندا پوار کی صدارت میں ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جانچ میں پتہ چلا تھاکہ پنڈت نے ضابطوں کی پیروی کیے بغیر پی آئی او کوٹہ میں نااہل طلبا کو داخلہ دیا تھا۔
یہ الزام سب سے پہلے یونیورسٹی کے سینیٹ ممبر اتل باگل نے لگائے تھے، جنہیں آر ٹی آئی کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ پنڈت نے پی آئی او کوٹہ کے تحت مہاراشٹر کے ایسے نااہل درخواست دہندگان کو داخلہ دیاتھا، جنہوں نے صرف 50-60 فیصد نمبروں کے ساتھ ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی تھی۔
پی آئی او کوٹہ کے تحت 15فیصدی اضافی نشستیں ان طلبا کے لیے مختص ہیں، جن کے رشتہ دار یا دادا دادی ہندوستانی شہری ہیں لیکن ہندوستان میں مقیم نہیں ہیں۔
باگل نے بتایا ،سنندا پوار کمیٹی کو پتہ چلا کہ آئی ایس سی کے ساتھ کام کرنے والے عملے نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں نااہل طلبا کو داخلہ دلانے میں مدد کے لیے پنڈت سے مالی مدد ملی تھی۔ حالاں کہ، انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی، تب تک وائس چانسلر تبدیل ہو چکے تھے اور نئے وائس چانسلر رگھوناتھ شیوگاؤںکر نے ان (پنڈت) کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے کہا، کمیٹی میں ریٹائرڈ جسٹس جے اے پاٹل بھی تھے، جنہوں نے غلط طریقے سےداخلوں کے لیے پنڈت کو قصوروار ٹھہرایا تھا، لیکن پونے یونیورسٹی نے ان کے پانچ انکریمنٹ روک کر ان کے خلاف نرم رویہ اپنایا۔
جے این یو کی وائس چانسلر کے طور پر ان کی تقرری کے سلسلے میں ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ اس عہدے کے لیے تین امیدواروں کا جائزہ لینے کے بعد ان کا نام فائنل کیا گیا۔
پنڈت کے علاوہ اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سینٹر فار یورپین اسٹڈیز کے پروفیسر گلشن سچدیوا اور نئی دہلی کے انٹر یونیورسٹی ایکسلریٹر سینٹر(آئی یو اے سی) کے ڈائریکٹر اویناش چندر پانڈے کے ناموں پر بھی غور کیا گیا تھا۔
حالاں کہ، پنڈت کے نظریاتی رجحان نے ان کے حق میں کام کیا۔ پنڈت کا تعلیمی ریکارڈ متاثر کن لگتا ہے۔ ان کا بایو ڈاٹا 22 صفحات پر مشتمل ہے۔
مرکزی حکومت نے ان کے تقرری نامےمیں کہا ہے کہ وہ جے این یو کی پہلی خاتون وائس چانسلر بننے جا رہی ہیں۔
ان کے ریکارڈ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جے این یو کے وائس چانسلر کے طور پر پنڈت کی تقرری مزید انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ اپنے متعصبانہ سیاسی خیالات کو بیان کرتے ہوئےانہوں نے پہلے ہی ایک خاکہ کھینچ دیا ہے، جس سے آنے والے دنوں میں جے این یو کی تعلیمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)