خبریں

’حجاب مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نیا بہانہ ہے‘

ایک ہزار سے زائد حقوق نسواں کے علمبرداروں ، جمہوریت پسند گروپوں، ماہرین تعلیم، وکلاء اور سماج کےمختلف شعبوں  سےتعلق رکھنے والے افراد  نے کیمپس میں حجاب پہننےوالی  طالبات کو نشانہ بنانے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تازہ ترین بہانہ قرار دیا۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ایک ہزار سے زائدحقوق نسواں کے علمبرداروں ، جمہوریت پسند گروپوں، ماہرین تعلیم، وکلاء اور سماج کے مختلف شعبے سےتعلق رکھنے والے افراد نے حجاب پہننے والی مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کے واقعہ کی مذمت کی ہے اور اسے مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا تازہ ترین بہانہ قرار دیا۔

ایک کھلے خط میں ان لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستانی آئین اسکولوں اور کالجوں میں تکثیریت اور تنوع  کا مینڈیٹ  دیتا ہے نہ کہ یکسانیت کا۔ اس خط پر 1850سے زیادہ لوگوں نے دستخط کیے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ حجاب پہننے والی طالبات کو علیحدہ کمرے میں بٹھانےیا  کالج سے نکل کر اپنی خواہش کے مطابق مسلمانوں کے ذریعے چلائے جا رہے  کالجوں میں جانے کے لیے کہنا کچھ اور نہیں،  بلکہ امتیازی سلوک ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، خط میں کہا گیا ہے، اس طرح کے اداروں میں یونیفارم مختلف اورغیر مساوی اقتصادی پس منظر والے  طبقات کے بچوں کے درمیان فرق کو کم  کرنے کےلیے ہوتاہے۔ان کا مقصدایک تکثیری  ملک پر ثقافتی یکسانیت کو مسلط کرنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں کو نہ صرف کلاس میں بلکہ پولیس اور فوج میں بھی پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔

خط میں کہا گیاہے کہ ، یہی وجہ ہے کہ ہندو طلباء بغیر کسی تبصرے یا تنازعہ کے اسکول اور کالج کے یونیفارم کے ساتھ بندی/تلک/وبھوتی لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح مسلم خواتین کو بھی اپنے یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اس خط  کو  15 ریاستوں کے 130 سے زیادہ گروپوں نے اپنی حمایت دی ہے۔

ان گروپوں میں آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن، نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن، بے باک کلیکٹو، سہیلی ویمن ریسورس سینٹر، آوازنسواں ، نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز، دلت خواتین ویمنز کلیکٹووغیرہ شامل ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: حجاب کے نام پر ملک کی بیٹیوں کو تعلیم کے حق سے محروم کرنا غیر آئینی ہے


غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

اس کے بعد کرناٹک حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے 9 فروری سے ریاست کی ثانوی اور پری یونیورسٹی کی کلاسوں میں تین دنوں  کی تعطیل کا اعلان کیا۔

اس تنازعہ کے بیچ  ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت  کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے  10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ وہ ہر شہری کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی اور کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ‘صحیح وقت’پر غور کرے گی۔جس میں طلباء سے تعلیمی اداروں میں  کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہننے کے لیے کہا گیا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)