گراؤنڈ رپورٹ: اسمبلی انتخاب کے اعلان سے ٹھیک پہلے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے جھانسی ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر ‘ویرانگنا لکشمی بائی’ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے جھانسی کے لوگ خوش نہیں ہیں۔حتیٰ کہ خود کو حکومت اور بی جے پی کا حامی بتانے والے بھی اس کو غلط کہہ رہے ہیں۔
…بندیلے ہربولوں کے منہ ہم نے سنی کہانی تھی،
خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی…
اس مشہورنظم کو پڑھتے ہوئے جھانسی کے رہنے والے راج یادو کے چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ تیر جاتی ہے اور ان میں ایک الگ ہی طرح کا جوش نظر آنے لگتا ہے۔ راج پیشہ سے آٹو ڈرائیور ہیں، جب ان سے اسمبلی انتخاب سے ٹھیک پہلے ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی جانب سے جھانسی ریلوے اسٹیشن کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ معروف نظم سنائی۔
پھرانہوں نے کہا، اسکول میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ ؛ خوب لڑی مردانی، وہ جھانسی والی رانی تھی’اسی رانی کے نام سے جھانسی کو الگ کر دیا۔ یہ غلط ہے۔
اس دوران، ایک بزرگ آٹو ڈرائیور، جو اب تک کی بات چیت میں یوپی میں بی جے پی حکومت کی واپسی کو لے کر پراعتماد تھے، کہنے لگے،نام بدلنا تو ہمیں بھی بہت غلط لگا۔ ہماری نسلیں چلی گئیں تب سےاسٹیشن جھانسی کے نام سے مشہور تھا… اب اسے ویرانگنا لکشمی بائی کر دیاہے، قاعدے سے جھانسی کو اس میں واپس لگانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، بی جے پی بھلے ہی آئے، لیکن ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ یہ بہت غلط ہو رہا ہے، کبھی الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دو، تو کبھی جھانسی اسٹیشن کا نام بدل دو، یہ سب کچھ بی جے پی بہت غلط کر رہی ہے، یہ تو ہم بھی کہیں گے۔
معلوم ہو کہ اتر پردیش اسمبلی انتخاب سے ٹھیک پہلے ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے جھانسی ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر ‘ویرانگنالکشمی بائی’کر دیا تھا۔
یوگی حکومت، جو اکثر جگہوں کے نام تبدیل کرنے کے لیےخبروں میں رہتی ہے، اس سے قبل فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیا، الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج اور مغل سرائے اسٹیشن کا نام دین دیال اپادھیائےکرنے جیسے فیصلوں کے سلسلے میں سرخیوں میں رہتی ہے۔
لیکن، اس بار جس ریلوے اسٹیشن کا نام بدلا گیا ہے، جس کا نام نہ تو انگریزوں نے رکھا تھا اور نہ ہی مغلوں نے، جو اکثر ناموں کے لیے بی جے پی اور سنگھ پریوار کا پسندیدہ بہانہ ہوتا ہے۔
بندیل کھنڈ کے سب سے بڑے شہر اور ملک کے سب سے اہم ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک، اس اسٹیشن کا نام تبدیل کرنے کے وقت نے بھی حکومت کی نیت کو لے کر شکوک و شبہات پیدا کردیےتھے۔ کیونکہ ریاست میں اسمبلی انتخاب کا اعلان چند ہی دنوں میں ہونے والا تھا۔..لیکن انتخابات میں یوگی حکومت کو اس فیصلے سے جھانسی میں کوئی فائدہ ہوتانظر نہیں آرہا، الٹے لوگوں میں غم و غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
جھانسی کے لوگ پارٹی یا نظریے سے اوپر اٹھ کر حکومت کے اس قدم کی نکتہ چینی کر رہے ہیں اور اسے جھانسی کی پہچان پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔
ریلوے کے ہی ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، انہیں(یوگی) شاید لگے کہ لوگ خوش ہیں، لیکن ایک فیصد لوگ بھی خوش نہیں ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں،جھانسی کے ہی نام سے رانی لکشمی بائی کی پہچان تھی۔انہوں نے خود کہا تھا کہ میں مرتے دم تک اپنی جھانسی نہیں دوں گی۔ آپ (یوگی سرکار)ان کے قول کو ہی بدل رہے ہیں، ان سے جھانسی چھین رہے ہیں۔ ایسا کروگے تو لوگوں کے دلوں کو تکلیف پہنچے گی ہی۔ اگر ‘رانی لکشمی بائی ریلوے اسٹیشن جھانسی’کرتے توچل جاتا۔جو جھانسی ہٹایا ہے، تو اسےجوڑناچاہیے۔
ایک اور شہری راشد خان کا بھی کہنا ہے کہ نام کے ساتھ جھانسی کا اضافہ کیا جاناچاہیے۔ وہ کہتے ہیں،اگر آپ نے ویرانگنا لکشمی بائی کیا تو’ ویرانگنا لکشمی بائی جھانسی’ کرلیتے۔ ان کی پہچان جھانسی کی رانی سے ہی ہے۔ آج جب ہم دور دراز ملکوں میں کہیں بھی جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم جھانسی سے آئے ہیں تو لوگ تپاک سے پوچھتے ہیں کہ وہی ‘جھانسی کی رانی والا جھانسی؟’
کالج کے طالبعلم اور بی جے پی کے حامی ویبھو یادو کہتے ہیں،علی گڑھ میں تالے بنتے ہیں، نام بدلنے سے وہاں تالے بننا بند نہیں ہوجائیں گے۔ویسے ہی جھانسی کی اہمیت ختم نہیں ہوگی…کہیں گے تو یہی کہ خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی۔اس لیے نام جھانسی رکھیں یا ویرانگنا لکشمی بائی، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں، رانی لکشمی بائی کے نام کے آگے جھانسی کا اضافہ کرنا چاہیے تھا۔
شہر کے مصروف ترین چوراہوں پر فٹ پاتھ پر دکان چلانے والےسوربھ حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ نام بدلنے کے بجائے اگر مہنگائی پر توجہ دیتے تو بہتر ہوتا۔ وہ کہتے ہیں، نام بدل کر کیا کرلو گے؟ جھانسی جھانسی ہی رہے گا، کچھ بھی کر لو۔ یہاں چترا چوراہا کا نام بدل کر شام پلیس کردیا گیا، لیکن لوگ اسے آج بھی چترا ہی کہتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں،حکومت کوئی بھی ہو، سیاست کو بس اپنی من مانی کرنی ہے۔ مہنگائی پر توجہ دوتو وہ زیادہ بہتر ہے، یہ نہیں۔
جھانسی کےمختلف حصوں میں رہنے والےمختلف ذات، طبقے، برادری اور پیشے سےتعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اس فیصلے کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ جن میں خود کو بی جے پی، مودی، یوگی اور حکومت کے حامی کہنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
ایک مقامی بھاگوت شرن کا کہنا ہے کہ ، اسٹیشن کی شان ہی ختم کردی ۔وہیں رنکو پرجاپتی نامی شخص نے کہا، اب اسٹیشن پر نظر پڑتی ہے تو یہ پڑھنےمیں بڑاعجیب لگتا ہے۔
پیشے سے شاعر ونود ساہو خود کو کئی نسلوں سے بی جے پی کا حامی بتاتے ہیں، لیکن بی جے پی کی تعریف کرتے ہوئے جھانسی ریلوے اسٹیشن کا نام سنتے ہی غصے سے کہنے لگے، غلط ہے یہ۔کیا وہی(حکومت) بھکت ہیں جھانسی کے، ہم نہیں ہیں؟ جھانسی–رانی لکشمی بائی کا مترادف ہے۔ جھانسی کا نام لیتے ہی ذہن میں جھانسی کی رانی خود بخود ابھرتی ہے۔ جھانسی اور رانی لکشمی بائی کی رفاقت سے بڑی اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
ریلوے کے ایک اور ملازم، جو کبھی جھانسی میں صحافی رہ چکےہیں، کہتے ہیں،یوگی حکومت نے ماضی میں بھی نام بدلے…ٹھیک ہے،وہ مغلوں اور انگریزوں نے دیے۔ لیکن جھانسی نہ تو مغلوں کا تحفہ تھا اور نہ انگریزوں کی دین۔ یہ بندیلی زبان کا لفظ تھا ،جس کا مطلب پرچھائیاں ہوتا ہے۔ یہ نام بندیل کھنڈ علاقے کےہی ایک راجانے دیا تھا، جس کا اپ بھرنس جھانسی بنا، اس لیے سب اس کے خلاف ہیں۔
جھانسی میں امر اُجالا کے ایڈیٹر رہےسینئر صحافی ونشی دھر مشرااس فیصلے کو پاگل پن قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،میں پوچھتا ہوں کہ رام بڑے تھے یا ایودھیا بڑی ہے؟ قدرتی طور پر ایودھیا بڑی ہے، رام نہیں کیونکہ رام چرت مانس میں خود رام کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ وہ ایودھیا میں بار بار جنم لینا چاہتے تھے۔ رامائن میں لکھا ہے، جنم بھومی جنت سے بہتر ہے۔اس لیے جگہ ہمیشہ انسان سے بڑی ہوتی ہے۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں،کیا ایودھیا کو رام کے نام پر رام چندرنگر کر دیا جائے یا دشرتھ نگر کردیا جائے؟ ایودھیا کو تو بدلنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ ایودھیا کی اہمیت اب بھی زیادہ ہے…ایودھیا کے راجا رام، ایودھیا کے راجا دشرتھ… اسی لیے لکشمی بائی بھی جھانسی کی رانی تھیں۔
تاہم ونشی دھر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے الیکشن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مقامی صحافی لکشمی نارائن شرما کا کہنا ہے کہ ،حکومت نے ایک طرح سے رانی لکشمی بائی کے نام کا تماشا بنا دیا۔ جھانسی، ان کے نام کا مترادف ہے، اس لیے پورا جھانسی اس کے خلاف ہے۔ مقامی بی جے پی ایم پی اور ایم ایل اے نے بھی اس احتجاج کو محسوس کرلیا ہے اور انہوں نے حکومت ہندکو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ نام میں جھانسی شامل کیا جائے۔
اسی دوران ایک اور نکتہ سامنے آیا تھا، جو امر سنگھ نامی نوجوان نے اٹھایا۔ انہوں نے کہا، ہم دلتوں کے لیے تو یہ ایک مسئلہ ہے کیوں کہ رانی لکشمی بائی کا احترام کرتے ہوئے جھانسی کی جھلکاری بائی کوکیوں بھلا دیا جاتا ہے؟ صدیوں سے جو اچھا بھلا چل رہا تھا، بی جے پی اس کوکیوں بدلنا چاہتی ہے ؟
پیشے سے چائے بیچنے والے مہندر سنگھ کہتے ہیں،نہ صرف رانی لکشمی بائی نے آزادی کی جنگ لڑی تھی، بلکہ کانپور کی ایک طوائف عزیزن بائی نے بھی خواتین کو اکٹھا کر کے لڑائی لڑی تھی۔ نام بدلنا تب ٹھیک لگتا ہے جب تاریخ کے فراموش کردہ لوگوں کو عزت دی جائے۔
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ