جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، یہی افراد لڑکیوں کے مغربی لباس پہننے اور ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو اس کو بھی اتار پھینک دو۔
مجھے یاد ہے کہ 2018 میں جب ہندوستان کے جنوبی صوبہ کرناٹک، جو اس وقت حجاب کہ وجہ سے خبروں میں ہے، میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا تھا، تو اسی ریاست کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک مقتدر لیڈر، آنجہانی اننت کمار، جوپارلیامانی امور کے مرکزی وزیر بھی تھے، پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں ان انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی حکمت عملی وغیرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔
یہ وسیع ہال دوایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے بیچ میں واقع ہے اور یہاں سال میں ایک بار بجٹ سیشن کے آغاز میں صدر مملکت ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ بقیہ دنوں میں یہ آپسی گفتگو، جوڑ توڑ، سیاسی چالوں کی بساط بچھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
چونکہ15سال تک مسلسل پارلیامنٹ کور کرنے والے صحافیوں اور مقتدر ایڈیٹروں کے لیے بھی اس کے دروازے کھلے ہوتے تھے، اس لیے یہاں عام طور پر وزیروں اور لیڈروں کو کیمروں کی چکا چوند سے دور آف ریکارڈ سیاسی موضوعات اور ملکی حالات پر بحث و مبا حثہ اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ بی جے پی کس ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے؟، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ،پولرائزیشن ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔ ان دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان ہندو شدت پسندوں کی زد میں تھے۔
کانگریس کے ایک لیڈر کے رحمان خان ٹیپو سلطان کے نام پر ایک یونیورسٹی بنانا چاہ رہے تھے۔ اس وقت کے کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔اننت کما ر کا کہنا تھا کہ یہ ایشو ہماری انتخابی مہم کے لیے غذا ہے اور اس کا بھر پور استعمال کیا جائےگا۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد 40سے بڑھا کر 104کردی۔
سال 2004 میں جب کانگریس کے زیر قیادت اتحاد نے پارلیامانی انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی انڈیا شائنگ کے نعرے پر لڑا تھا۔ مگر اس شکست نے ان کو احساس کرادیا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوز کو لےکر ہی لبھایا جاسکتا ہے۔
تب سے بی جے پی نے اقتدارکے گلیاروں تک پہنچنے اور کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لیے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ وہ ہے گائے، مسلمان اور پاکستان۔
سال 2014 سے ابھی تک گائے کی حفاظت کے نام پر 80کے قریب ہجومی تشدد کے واقعات میں 50افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں دودھ نہ دینے والی گایوں کو کسان اپنے گھروں سے بھگا کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں، جو راتوں کو فصلوں کو نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہیں۔کیونکہ گائے کی طبعی عمر 20 سال ہوتی ہے اس میں وہ صرف سات سال تک ہی دودھ دیتی ہے۔
اتر پردیش کے مغل سرائے علاقہ میں رہائش پذیر میرے ایک ساتھی کے مطابق راتوں کو اب گایوں کے خوف سے دیہی علاقوں میں باری باری پہرہ دینا پڑتا ہے۔ اس لیے اب گائے کا ایشو ٹھنڈا ہوچکا ہے۔ پاکستان کے ایشو کو شاید یا تو آئندہ کے لیے رکھا گیا ہے یا اس میں سفارتی قباحتیں بیچ میں آنے سے اس کو اس طرح بھنایا نہیں جا رہا ہے، جس طرح پلوامہ میں فوج پر حملہ کے بعد 2019 میں اس کا استعمال کیا گیاتھا۔
اس وقت ہندو شدت پسند اور ان کی سیاسی تنظیم بی جے پی، مسلمان کارڈ کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کا نام لےکر اور ان کو مطعون کرکے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان کرکے پیادوں کو شہہ دی۔
لکھنؤ شہر کے ایک مقتدر صحافی حسام صدیقی کے مطابق ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے تاکہ عام ہندوؤں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے۔
ایک نئے تجربہ کے بطور اس وقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی شروعات کرناٹک کے اڈوپی قصبہ سے ہوئی۔ جہاں گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج فار گرلس میں آدھا درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انہوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے 5 فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے تمام اسکول اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔
اس میں بتایا گیا کہ امن، بھائی چارہ، نظم ونسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے والے کپڑے اسکول کالجوں میں نہیں پہنے جاسکتے۔اب بتائیے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟
جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، یہی افراد لڑکیوں کے مغربی لباس پہننے اور ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو اس کو بھی اتار پھینک دو۔
مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو اتنی دور کی کوڑی لےکر آگئے کہ ا نہوں نے کہا کہ حجاب کے ذریعہ کچھ لوگ ملک میں اسلامک اسٹیٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
ادھربی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف احتجاجاً طلبا کو بھگوا انگوچھے تقسیم کر رہے ہیں۔انہیں بھگوا پگڑی پہنا کر کالج بھیجا گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگر مسلم خواتین کو با اختیار بنانے یا ان کے لیے تعلیم و نوکریوں کی فراہمی آسان بنانے کے لیے پردے کی مخالفت ان کا مقصد ہوتا تو شاید ہضم کیا جاسکتا تھا، مگر یہ لو جہاد سے شروع ہوکر، شہریت قانون، تبدیلی مذہب پر پابندی قانون ، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے ان گنت اقدامات کا تسلسل ہے، جس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے یہاں جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت میں رہنا ہوگا۔
سال 2017 میں میری ایک ساتھی خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کیا تھا۔ واپسی پر اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس علاقہ میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردیے جانے کی سینکڑوں واردادتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ، اکثر ان لڑکیوں کا ‘شدھی کرن’کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گاؤں کی 17سالہ آسیمہ نے بتایا کہ، اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ گئی۔ خاتون رپورٹر نے بتا یا کہ صر ف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی کی شادیاں کردی گئی ہیں۔
چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے شوہر اروند گاؤں کے مکھیا ٹھاکر کے صاحبزادے ہیں۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندوانہ ڈریس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایا کہ، جب وہ 13سال کی تھی تو ٹھاکروں نے اس کو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا۔
مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر 2016 کو حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف کیس واپس لینے کی عڑضی کورٹ میں دائر کی۔ دو سا ل قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔
نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واہنی سے وابستہ چار افراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ، آدتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی کرنے کی اجازت مل گئی۔
پانچ سا ل قبل جب میں اتر پردیش کے انتخابات کو کور کر رہا تھا تو کالج کے ایک پروفیسر جو سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے قریبی رشتہ دار تھے بتا رہے تھے کہ وہ مودی کے بدترین مخالفین میں ہیں، مگر ایک کام اس نے بہت اچھا کیا۔ وہ یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انہیں کسی حد تک کنٹرول میں رکھا ہے۔
ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ذریعے ادا کیے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطایئت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔
ہندوستان میں مذہبی منافرت ابھارنے کا کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں معصوم ذہنوں کو مذہبی لحاظ سے مسموم کیا گیا۔
اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے بچے متعصب نہیں ہوں گے‘تو کیا ہوں گے؟ ایسے اداروں سے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہندوستانی میڈیا میں بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ کانگرس نے 2003 میں شملہ میں منعقد کیے گئے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے مذہبی منافرت پر مبنی مواد ختم کرنے کے لیے کام کرے گی‘ لیکن دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔
سال 2014میں کشمیر میں انتخابات کی کوریج کے دوران میں نے دیکھا کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقہ چناب ویلی میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے ورکروں نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لےکر دیہاتوں میں رات دن ہندوتوا کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔
مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر عالیشان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ بٹورنے کے لیے آر ایس ایس کا نشانہ اب1991کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ عبادت گاہوں کی1947والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبہ میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عید گاہ کے قضیہ کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔
یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے اور اس شہر سے گزرنے والی ٹرین سے بھی اس کا دور سے نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ بھگوان کرشن کا جنم استھان کا حصہ ہے۔
یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔ بنارس کی اس مسجد کے بارے میں مؤرخوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی کے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔
رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانہ کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتہ چلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔
اورنگ زیب نے یہ کیس کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر مندر کو ازسر نو تعمیر کرادیا۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔
یہ ہندوستان میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی(علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔
ہندوستان کے مشہور دانشور اور معروف صحافی سعید نقوی نے چند سال قبل شائع ہوئی اپنی کتاب Being the Other میں لکھا تھا کہ وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہیں۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش کے حالیہ صوبائی انتخابات کور کرنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجائے عدم تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔
کتاب کے مطابق ہندوستانی مسلمان ایک ٹرائنگل (مثلث) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اس کے تین ضلع کچھ اس طرح ہیں، ہند–مسلم، بھارت–پاکستان اور کشمیر۔ ان تینوں کو حل کیے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کے لیے ایشو ختم ہوجائے گا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ‘سیکولر’ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ اسی کی حرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے جس پر ہندو قوم پرستی تعمیر کی جارہی ہے۔
اب یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی فرقے کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہیں۔
نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پر ایک اور حقیقت منکشف ہوگئی کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منھ موڑتا ہے، مبادا اس پر ‘فرقہ پرست’ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔
حال یہ ہے کہ پچھلے چار سالوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپادھیائے نگر ہوگیا اور مغل شہشاہ اکبر کا بسایا ہوا الہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفٰے آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے۔
احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔
کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک تھی، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرایہ دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیر محسوس طریقے سے 15 ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتہ ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں، اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈران اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20 کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ ہندوستان کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟
Categories: فکر و نظر