شیوموگا میں 28 سالہ بجرنگ دل کارکن کی ہلاکت کے بعد آخری رسومات کے دوران تشدد بھڑک اٹھا اور پتھراؤ اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے، جس میں ایک فوٹو جرنلسٹ اور ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔ ریاستی بی جے پی لیڈروں نے اس معاملے کی این آئی اے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی: کرناٹک کے شیوموگا میں 28 سالہ بجرنگ دل کارکن ہرش کے قتل کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
دریں اثنا، سوموار کو مقتول کی آخری رسومات کے دوران تشدد پھوٹ پڑا اور پتھراؤ اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے، جس میں ایک فوٹو جرنلسٹ اور ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔
ریاستی بی جے پی کے رہنماؤں نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور اس میں کچھ اسلامی تنظیموں کے ہاتھ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس معاملے کی جانچ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) سےکرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سوموار کو سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان مقتول کی آخری رسومات کے دوران پتھراؤ میں ایک فوٹو جرنلسٹ اور ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت کم از کم تین افراد زخمی ہو گئے، جبکہ کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا اور اس کوآگ کے حوالے کردیا گیا۔
ریاست کے وزیر داخلہ اراگا گیانیندرنےکہا ہے کہ،مزیدجانچ جاری ہے…(معاملے کی)وجوہات اور تفصیلات جانچ رپورٹ سے سامنے آئیں گی…اب تک تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے…کون، کہاں، کیسے؟ میں اس کا انکشاف نہیں کر سکتا کیونکہ قتل کی وجہ جاننے کے لیے تفتیش جاری ہے، پوچھ گچھ ہونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی نظر میں ان کی معلومات کے مطابق اس قتل میں پانچ افرادکے ملوث ہونے کی بات کہی گئی تھی،لیکن اس کے پیچھے کتنے لوگ ہیں باقی تمام تفصیلات تفتیش سے سامنے آئیں گی۔
پتھراؤ کا واقعہ سوموار کو پیش آیا جب سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان آخری رسومات کے دوران کچھ شرپسندوں نے پتھراؤ کردیا۔اس کے ساتھ ہی کچھ گاڑیوں کو جلانے اور نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ دکانوں میں توڑ پھوڑ کی بھی اطلاعات ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، جب ہرش کی لاش کو یہاں کے ڈسٹرکٹ میک گن اسپتال سے لے جایا جا رہا تھا ، اس وقت پتھراؤ ہوا۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور لاٹھی چارج کر کے حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔
سیگہٹی کے رہنے والے ہرش پر اتوار کی رات بھارتی کالونی میں نامعلوم افراد کے ایک گروپ نے حملہ کیا، جس کے بعد اسے میک گین ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت ہوگئی۔
ہندوستان ٹائمس کے مطابق، میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہرش کی بہن نے کہا کہ ان کا بھائی مذہبی سیاست کا شکار ہواتھا۔
انھوں نے کہا، میرے چھوٹے بھائی کی موت صرف اس لیے ہوئی ہے کہ وہ ‘جئے رام، شری رام’ کا نعرہ لگاتا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس نے خود کو ‘ہندو ہرش’ بتایا تھا۔
وزیر داخلہ اراگا گیانیندر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہرش ایک ہندو کارکن تھا اور ایسی جانکاری ہے کہ اس کے خلاف کچھ معاملے تھے اور اس پر پہلے بھی حملہ کیا گیا تھا۔
ہندوستان ٹائمس کے مطابق، ہرش بجرنگ دل اور وی ایچ پی کی سرگرمیوں میں سرگرم تھا۔ 2015 میں اس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے ایک پوسٹ ڈالی تھی اور اس کے خلاف دوڈاپیٹ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی گئی تھی۔
اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ تب سے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
شیوموگا پولیس نے کہا کہ کچھ مسلم گروپوں کے ساتھ فیس بک پوسٹ کے ذریعے شروع ہونے والی دشمنی بہت آگے بڑھ چکی تھی۔ وہ مارپیٹ اور قتل کی کوشش کے کم از کم پانچ معاملوں میں ملوث تھا۔
قابل ذکر ہے کہ3 دسمبر 2020 کو فرقہ وارانہ تصادم کے بعد ہرش پر پولیس نے شیوموگا میں مسلم تاجروں پر حملہ کرنے والی بھیڑ کا حصہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ہرش کے خلاف 2017 سے ڈوڈاپیٹ تھانے میں مارپیٹ کے معاملے چل رہے ہیں۔
واقعے کے بعدتشدد پر گیانیندر نے کہا، ہم اسے پھیلنے نہیں دیں گے، شیوموگا میں 1200 اہلکار تعینات ہیں، وہاں ایک ریپڈ ایکشن فورس بھی ہے۔ 200 اہلکاروں کو بنگلورو سے بھیجا جا رہا ہےاور 200 دیگر کو دوسرے اضلاع میں ڈیوٹی پر موجود عملے کی جگہ بھیجا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیو موگا میں امن و امان کی نگرانی اے ڈی جی پی مروگن کر رہے ہیں اور شیوموگا میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے طور پر کام کر چکے سینئر افسروں کو وہاں تعینات کیا گیا ہے۔
دیہی ترقی اور پنچایت راج کے وزیر اور شیوموگا کےایم ایل اے کے ایس ایشورپا نے ضلع کے ‘مسلمان غنڈوں’ پر قتل کا الزام لگایا ہے۔
ایشورپا نے کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیوکمار پربھی الزام لگایا کہ،ان کے بیان نے اقلیتی برادری میں سماج دشمن عناصر کو اکسایا۔
انہوں نے الزام لگایا،ڈی کےشیوکمار نے حال ہی میں ایک اشتعال انگیز بیان دیا تھا کہ ایک سرکاری اسکول کے احاطے سے قومی پرچم کو ہٹانے کے بعد بھگوا جھنڈا لہرایا گیا اور سورت سے گاڑیوں میں 50 لاکھ بھگوا جھنڈے لا کر طلبا میں تقسیم کیے گئے ۔اس نے مسلمان غنڈوں کو اکسایا۔ ہم شیوموگا میں اس طرح کی غنڈہ گردی نہیں چلنے دیں گے۔
اس کے ساتھ ہی شیوکمار نے وزیر پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ایشورپا ان کو ان کا نام لیے بغیر نیند نہیں آ سکتی۔
شیوموگا کے ڈپٹی کمشنر آر سیلوامنی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ شہر میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 (سی آر پی سی) کے تحت امتناعی احکامات نافذ کر دیے گئے ہیں اور تمام اسکولوں اور کالجوں کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سیلوامنی نے کہا، پولیس معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور مجرموں کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔اس لیےاسکول اور کالج میں دو دن کی چھٹی رہےگی۔ ہم حالات کو جلد سے جلد قابو میں لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی پی) مروگن نے کہا کہ صورتحال پر قابو پانے کی تمام کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ حکام مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔
قبل ازیں پولیس سپرنٹنڈنٹ بی ایم لکشمی پرساد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ واقعہ میں ملوث مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔
پرساد نے کہا، ہماری ترجیحات ان (واقعہ میں ملوث مجرموں) کا سراغ لگانا اور انہیں سزا دلانا ہے۔ ہم عوام سے تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور گزارش کرتے ہیں کہ وہ کوئی جذباتی قدم نہ اٹھائیں ۔
چیف منسٹر بسوراج بومئی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
بومئی نے بنگلورو میں نامہ نگاروں کو بتایا،تفتیش شروع ہو گئی ہے اور کچھ پختہ ثبوت ملے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے پولیس سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ دیگر مقامات پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
بومئی نے کہا، میں شیوموگا کے لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ ہم نے قاتلوں کو جلدگرفتار کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ افواہوں پر دھیان نہ دیں۔ امن و امان برقرار رکھیں۔
دریں اثنا، کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا گیانیندر شیوموگا پہنچے اور ہرش کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس قتل کیس میں کسی تنظیم کے ملوث ہونے کےحوالے سے کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
وزیر نے کہا کہ کیس میں چار سے پانچ لوگوں کے گروپ کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے۔
گیانیندر نے نامہ نگاروں کو بتایا،پولیس کو ثبوت ملے ہیں اور اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ اطلاع کے مطابق اس میں چار سے پانچ لوگ ملوث تھے۔
ایک سوال کے جواب میں گیانیندرا نے کہا کہ ہرش ایک ہندو کارکن تھا اور پتہ چلا ہے کہ اس کے خلاف کئی مقدمات درج تھےاور ماضی میں بھی اس پر حملے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام پہلو کوسامنے رکھتے ہوئے جانچ کی جارہی ہیں۔
وہیں، کانگریس لیڈر شیوکمار نے کہا کہ ایسی اطلاع ملی ہے کہ قتل شاید ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،میڈیا میں اس طرح کی خبریں ہیں۔ قصورواروں کو ہر صورت میں سزا ملنی چاہیے۔ متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے۔
دوسری جانب ٹوئٹر پر’جسٹس فار ہرش’ ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ ہوا، اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس معاملے میں انصاف کا مطالبہ کیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں