ہندوؤں کے دلوں میں دریائےسخاوت ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اور ان کی ترقی پسندی بھی عروج پر ہے۔وہ عورتوں کو ہر پردے اور ہر بندھن سے آزاد دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ شدت پسندی کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ سب کچھ مسلمان عورتوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہندو خواتین کو کبھی کسی شدت پسندی یا کسی مذہبی پابندی کا شکار نہیں ہونا پڑتا !
ہندو اور حجاب…، عنوان ذراسا اٹ پٹا ہے۔آخر ہندوؤں کو حجاب سے کیا لینا؟ لیکن آ جکل دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ حجاب سب سے زیادہ ہندوؤں کے لیےتشویش کا باعث ہے۔ حجاب والی لڑکیاں یا عورتیں انہیں پسماندہ اور پدرشاہی نظام کا شکار لگتی ہیں اور وہ ان کی نجات دہی کے لیے آمادہ ہیں۔
ٹھیک ویسے ہی جیسے اس کا دل تین طلاق کی شکار عورتوں کے لیے دکھتاتھا۔ کتنا بڑا ظلم ! تین بار طلاق طلاق طلاق بول کرکیسے کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا ہے؟ یہ توسراسر جرم ہے اور اس کی سزا ہونی چاہیے۔ لیکن ہاں! بناتین طلاق بولےبیوی کو ضرور چھوڑ دیا جا سکتا ہے۔ اس کو ہندی میں پرتیکتا کہا جائے گا لیکن وہ کوئی جرم نہیں ہوگا۔ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنےگا۔
حالاں کہ ان خواتین کی تعداد جن کو اس طریقے سے گھر سے نکال دیا گیا اور ان کے حقوق سے ان کومحروم کر دیا گیا، ان خواتین سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔ لیکن ان کے لیے نہ انصاف کا نظام ہے اور نہ ہی کوئی تحریک۔ کوئی وزیر اعظم اپنے انتخابی بیان میں بھی ان خواتین کے لیے انصاف کا وعدہ نہیں کرتا۔ کیونکہ جو خواتین اس طرح چھوڑی اور نکالی گئیں وہ ہندو ہیں۔ اسے چھوڑنے والا شوہر ہندو ہے۔ اس وقت ہندو مسلمان عورتوں کو انصاف دلانے میں مصروف ہیں۔ ہندو عورتوں پر ان کی نظر نہیں گئی ہے۔
ہندوؤں کے دلوں میں دریائےسخاوت ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ترقی پسندی بھی عروج پر ہے۔ وہ عورتوں کو ہر پردےاور ہر بندھن سے آزاد دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ شدت پسندی کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ سب کچھ مسلمان عورتوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہندو خواتین کو کبھی کسی شدت پسندی یا کسی مذہبی پابندی کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔ اور ہندوؤں میں کوئی پدر شاہی نظام نہیں ہے۔ وہ پوری طرح سے آزاد اور کلی طور پر بااختیار ہیں۔
ہندو مسلمان عورتوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ یہ اپنے مردوں سے کلی طور پر آزاد ہو جائیں۔ بلکہ ان سے کوئی رشتہ ہی نہ رکھیں تو سب سے اچھا۔ ہندو خواتین خود مختار ہیں۔ گھر والے انہیں تعلیم کی تمام سہولیات فراہم کرتےہیں۔ لڑکوں کی طرح ہی ہر طرح کی غذائیت ان کے لیے بہ آسانی دستیاب ہے۔ جتنے ہندو لڑکے پڑھتے اور نوکری کرتے ہیں، اتنی ہی ہندو لڑکیاں بھی۔ ہندو سماج کے سامنے جو مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کو یہ سب کیسے ملے؟
ہندوؤں میں جہیز کی لعنت بھی ختم ہو چکی ہے۔ رشتہ کرتے وقت ذات پات کی کوئی تفریق ہی نہیں ہوتی۔ مساوات کی بالا دستی ہے۔ پسماندگی،دقیانوسیت، امتیازی سلوک، مردوں کی حکمرانی یہ ساری لعنتیں مسلمانوں میں ہے۔ ان سب سے نجات دہندگی ہی ہندو سماج کا فرض ہے۔ ہندو تو لڑکیوں کو آبائی جائیداد تک میں برابر کا حصہ خود سے دے دیتے ہیں۔
ہندو حیران ہیں کہ مسلمان ودیاکے مندر میں مذہب اوڑھ کر کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں ‘ودیا مندر’ کےدروازے پر سرسوتی کی وندنا کرتے ہوئے وہیں اپنا مذہب چھوڑ دینا چاہیے، پھر اس مندر میں داخل ہونا چاہیے۔آخر تعلیم کا کاروبار تو سیکولر ہی ہو سکتا ہے! سیکولرازم کے بغیر مساوات کا جذبہ قائم نہیں ہو سکتا۔
لیکن گیتاپاٹھ ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔ مانس پاٹھ بھی۔ مسلمان اس میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ مسلمان اتنے تنگ نظرکیوں ہیں؟ وہ ہندوستانی ثقافت میں گھلنا ملنا کیوں نہیں چاہتے؟
کیا ہوا کہ ہندو نہ قرآن جانتے ہیں، نہ حضرت علی، حسن و حسین کےواقعات، نہ سیرت محمدی، نہ کربلا، نہ بائبل کے واقعات! کیا ہوا کہ انہیں محرم، عید اور بقرعید میں فرق ہی معلوم نہیں۔ یہ سب بیرونی دنیا کی چیزیں ہیں۔ ہندوؤں کا ان سے کیا لینا دینا؟ ہندو خود بخود فطری طور پر فیاض اور روشن خیال ہیں۔ کیا کسی اور مذہب میں ‘وسدھیو کٹمبکم’ جیسی کہاوت ہے؟
مسلمانوں کو سیکولر ہونا سیکھنا چاہیے۔ ہندوؤں کو متقی ہونا چاہیے۔ مسلمان عورتوں کو ماڈرن ہونا چاہیے، ہندو خواتین کو روایتی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ مسلمان عورتیں خاندان کی زنجیروں سے آزاد ہوں توبہتر، ہندوؤں میں خاندانی اقدار کو مضبوط ہونا چاہیے۔
ہندو چاہتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ نہ حج میں خرچ کیا جائے اور نہ ہی قبرستان کی چاردیواری میں۔ ایودھیا کا مندر ہو یا کاشی کا مذہبی مقام یا رامانج آچاریہ کا مجسمہ، ان کی تعمیر قوم کی تعمیر ہے۔ مان سروور کا سفر ہو یا وشنو دیوی کا،حکومت کو اسے آسان بنانے کے لیے پیسہ خرچ کرنا چاہیے۔ یہ قوم کی ترقی کا راستہ ہے۔
ہندو اصلاح کے لیے بے چین ہیں۔ وہ دوسروں کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔وہ ہندو ہونے کے ناطے پہلے سے ہی پاک طینت ہے۔ پہلے سے ہی ترقی پسند ہے۔ قدامت پسندی مسلمانوں میں ہے۔ وہ ملے اور مولویوں کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ جمہوریت میں مذہب کا عمل دخل ہے۔ ہندو تو اپنے سادھوؤں-مہنتوں اور سادھویوں کو براہ راست ووٹ دے کر وزیر، وزیر اعلیٰ وغیرہ بنوا دیتا ہے۔ ان کے کہنے پر ووٹ دینے کی بات ہی کہاں؟
ہندوؤں کو تشویش ہے کہ دوسرے مذہبی صحائف میں تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہ ان کی ترمیم وتدوین کرنا چاہتا ہے۔ انہیں تشدد کے جذبے سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ اب جبکہ پرشورام پھرسادھاری ہیں تو ان کے اعزاز میں پھرسا اٹھا کر ہی جلوس نکالا جا سکتا ہے! رام صرف تیر انداز ہی ہو سکتے ہیں۔ سدرشن چکر کے بغیر کوئی کرشن کا تصور کیسے کر سکتا ہے؟ اور جب تک درگا مہیاشاسور کے کلیجےمیں بھالا نہ بھونک دے تب تک درگا کے بھکتوں میں بھکتی کا جذبہ ابال نہیں مارسکتا۔
ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کے ہاتھوں میں ہتھیار، ان کے صحیفوں میں جنگ اور تشدد کے موضوعات علامتی ہیں۔ آدی واسیوں کے جنگل پر رشی منیوں کا قبضہ کرنا اور پھر راجاؤں کا ان کی پیٹھ پر آکرجنگل کے باشندوں کا قتل عام مذہب کو قائم کرناہے۔ تشدد توقرآن میں ہے، ویدک تشدد تو تشددہوتا ہی نہیں ہے۔
آپ کو یہ ماننا ہوگا کہ ہندو بہت مضطرب ہے۔ مسلم خواتین کی حالت زار اس سےدیکھی نہیں جارہی۔ وہ ان کی دقیانوسی سوچ سےفکرمند ہے۔ ان کی تنگ نظری اسے تکلیف دیتی ہے۔ وہ ان کو آزاد کرنا چاہتا ہے۔ ہندو عورتیں حقوق نسواں کے زیر اثر کچھ زیادہ ہی آزاد ہوگئی ہیں۔ وہ ان کو محدود کرنا چاہتا ہے۔
بینک ہوں یا کالج یا اسکول یا کوئی بھی عوامی جگہ، حجاب سے انہیں نجات دلانے کی ہندوؤں کی اس مہم میں جو جذبہ اخلاص کو نہیں دیکھ سکتے،ان کی تنگ دلی پر آنسو ہی بہا یا جا سکتا ہے!
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر