جب اقتدار حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی بن جاتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی حریف پارٹیوں پر ووٹ کی سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بار بار یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ووٹ کی سیاست نہیں کرتی۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ کس قدرقابل اعتبارہے، اس کواتر پردیش میں دہشت گردوں کومبینہ طور پرشہ دینے کے معاملے پر اپنی حریف جماعت سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو نشانہ بنا تے ہوئے بے وجہ اس کے انتخابی نشان سائیکل پر وزیر اعظم نریندر مودی کے اول فول بکنےاور لغو تبصرے سےبخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ ان کی بدقسمتی ہےکہ جب وہ ایک اجلاس میں ایس پی کےانتخابی نشان سائیکل کو، جو کہ پورے ملک میں اکثر لوگوں کی نقل و حرکت کا سب سے سستا ذریعہ ہے، تمام خرافات کی جڑبنانے پرآمادہ تھے، بہت سارے لوگوں کو چھٹ بھیا بی جے پی مخالف لیڈروں کی وہ تہمتیں یاد آرہی تھیں ،جن میں وہ کہتے رہتے ہیں کہ چونکہ کیچڑ کے بغیرکمل جو کہ بی جے پی کا انتخابی نشان ہے، کھل نہیں سکتا، اس لیے وہ بدعنوانی، بے ایمانی اور بے حیائی کا ڈھیر سارا کیچڑ پیدا کرتی رہتی ہے۔
اس یاددہانی سے کم از کم دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا انتخابی جلسوں کے خطابات میں وزیر اعظم کی زبان اور چھٹ بھیا لیڈروں کی زبان کا فرق مٹ گیا ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ ووٹ کی سیاست اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ ایک لیڈر عوام کو حقیقی مسائل سے گمراہ کرنے اور اپنی طرف لانے کے لیے لوگوں پر جذباتی یلغارکرتے ہوئے حقائق کے تقدس سے بھی کھیلنا شروع کردے۔
وزیر اعظم کے اس کھیل میں شامل ہوجانے کا المیہ دیکھیے کہ:سماج وادی پارٹی بھلے ہی اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں ان کی پارٹی کی زبردست حریف ہے، جس کی گجرات میں بہ مشکل ہی کوئی بنیاد ہے۔ لیکن اس کے انتخابی نشان سائیکل کو بم بردار ثابت کرنے کے لیے وزیر اعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے2008 میں گجرات کے احمد آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے ٹفن بم سائیکلوں میں ہی نصب کیے گئے تھے۔
کئی اور بم دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی پوچھ ڈالا کہ سارے دھماکے سماج وادی پارٹی کےانتخابی نشان پر رکھ کر ہی کیوں کیےگئے اور دہشت گردوں نے اس کام کے لیے سائیکل کو ہی کیوں پسند کیا؟
ذرا سوچیے، 2008 میں احمد آباد میں دہشت گردوں نے سائیکلوں میں ٹفن بم نصب کیا تو اس کے لیے ایس پی کو کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اگر کسی پارٹی کا انتخابی نشان سائیکل ہے تو ملک بھر میں سائیکلوں کی پیداوار، تقسیم یا فروخت پر نظر رکھنے اور غلط استعمال کو روکنے کی ذمہ داری اسی کی بنتی ہے؟
پھر کیا بڑی تعداد میں سائیکلوں کو پسند کرنے والے اور اس کااستعمال کرنے والےعوام کو بھی اس وجہ سےدہشت گردوں کا ہمدرد قرار دیا جائے گاکہ وزیر اعظم کو اپنی پارٹی کی حریف سماج وادی پارٹی کو، جس کا انتخابی نشان سائیکل ہے، ان کا ہمدرد ثابت کرنا ہے؟
یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہیں اور وزیراعظم اپنی پرانی عادت کے مطابق ان سے بچ کر آگے نکل گئے ہیں۔ لیکن ان کے اس فرار کا فائدہ بھی سماج وادی پارٹی کے کھاتے میں جا رہا ہے۔
اب اس کےصدر اکھلیش یادو وزیر اعظم کے بیان کو ملک کی توہین قرار دے رہے ہیں اور سائیکلوں کی افادیت شمار کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ہماری سائیکل کھیت اور کسان کو جوڑ کر اس کی خوشحالی کی بنیاد رکھتی ہے، سماجی بندھنوں کو توڑ کر بچیوں کو اسکول چھوڑتی ہے، وہ مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتی، وہ سرپٹ دوڑتی ہے، وہ ایک عام لوگوں کاجہاز ہے، دیہی ہندوستان کا فخر ہے اور اس کی توہین پورے ملک کی توہین ہے۔
اتنا ہی نہیں اکھلیش نے وزیر اعظم کے ایک پرانے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا ہے۔ جس میں وہ نیدرلینڈ کے وزیراعظم سےسائیکل کا تحفہ حاصل کرنے کے بعد ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
یوں، اس سلسلے میں وزیر اعظم سے جو موزوں ترین سوال کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر سائیکل ہی بم بردار اور دہشت گردوں کی پسند ہے تو پھر ماحولیات کے ماہرین ماحولیاتی تحفظ کےلیے سائیکل چلانے پر اصرار کیوں کر رہے ہیں؟ دیہاتوں اور قصبوں سے روزی روٹی کے لیے دور دراز کا سفر کرنے والے ہاکر ان سائیکلوں پر اپنی موبائل شاپ کیوں چلاتے ہیں؟
پوسٹ مین دور دراز کے علاقوں میں سائیکل کے ذریعے ڈاک کیوں پہنچاتے ہیں جہاں نقل و حمل کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے؟ بہار کی جیوتی کماری نے کورونا کے زمانے میں لاک ڈاؤن کے دوران گڑگاؤں سے بہار تک کا بارہ سو کیلومیٹر کا سفر سائیکل پر کیوں کیا؟ اسرو کے ابتدائی مرحلے میں لانچ کے لیے بہت سے راکٹ سائیکلوں پر کیوں لائے جاتےتھے اور پرانے وقتوں میں کئی ممبران پارلیامنٹ سائیکل پر ہی کیوں پارلیامنٹ جاتے رہے ہیں؟
سماج وادی پارٹی کے رہنما یہ سوال تو نہیں پوچھ رہے ہیں، لیکن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چوں کہ بی جے پی کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ مذہبی پولرائزیشن میں ناکام رہی ہے، اس لیے اس بار اتر پردیش اس کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم سمیت اس کے تمام بڑے لیڈران بوکھلاہٹ میں بے مطلب کی بکواس کر رہے ہیں۔
ان کو جمہوریت کا پاس ہے اور نہ ہی زبان کی حدود کا خیال،اور نہ ہی حقائق، اخلاق اور ضابطہ اخلاق کا لحاظ۔
اگر ان کے اس دعوے کو سیاست سے متاثر مان بھی لیں تو یہ سوال جواب طلب کرتا ہے کہ عوام کے مسائل کے بجائے انتخابی نشانات پر فضول بحث سے کیاحاصل؟
لیکن کیا کیجیے گا، وزیر اعظم نےاتر پردیش کے2017 میں گزشتہ اسمبلی انتخاب میں حقیقی مسائل کو انگوٹھا دکھا کرووٹروں کے فرقہ وارانہ مذہبی پولرائزیشن کے لیےجس طر ح سے شمشان بنام قبرستان، عید بنام ہولی-دیوالی کا امتیازی ذکر کر کے سول سوسائٹی کو حیران کر دیا تھا، اس کافائدہ ان کے منہ لگا ہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی انتخابات کے آغاز میں ہی انہوں نے ایس پی کی لال ٹوپی کو ریاست کے لیے ریڈ الرٹ بتا کر کافی شہرت حاصل کی۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اباجان، چچاجان اور جناح جیسےلفظوں سے اس الیکشن میں بھی اپنی ‘قبرستان-شمشان کی روایت’ کو بخوبی آگے بڑھا رہے ہیں۔ احمد آباد کےسلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزمین میں سے ایک کے والد کو ایس پی سے جوڑتے ہوئےمرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر بھی فرقہ وارانہ اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئےایک پوری برادری کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے؛آتنکیوں کے اباجان، سماجوادیوں کے بھائی جان، اس لیے اکھلیش کی بند ہے زبان۔
بی جے پی لیڈروں کے ایسے کئی ویڈیو بھی وائرل ہو رہے ہیں، جن میں وہ ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگاتے ہوئے داڑھی اور چوٹی میں فرق بتا رہے ہیں یا اقلیتوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ایسے میں اب شاید ہی کسی کو اس بات میں شک ہو کہ جب اقتدار حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی اسٹار پرچارک نریندر مودی بن جاتے ہیں اور وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کی مطلق پرواہ نہیں کرتے۔
اسی لیے ایک سیاسی مبصر نے بجا طور پر یاد دلایا ہے کہ قبرستان بنام شمشان کی وجہ سےنکتہ چینی کے بعدبھی وہ باز نہیں آئے۔ جھارکھنڈ میں انہوں نے کپڑوں سے شرپسندوں کی شناخت کرنے کی بات کہی تو مغربی بنگال میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بیہودہ انداز میں ‘دیدی او دیدی’ کہتے پھرے۔
اب اتر پردیش میں غریبوں کی سائیکل ان کے نشانے پر ہے تو یہ نہ صرف اتر پردیش بلکہ تمام ہم وطنوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ وزیراعظم کے عہدے کے وقارکوکس حد تک نیچے لے جائیں گے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر