شایدہندوستان ہی واحد ملک ہوگا،جو ابھی بھی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے ایشو کو لےکر سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کررہا ہے۔ دنیا اب آگے نکل چکی ہے، ان ایشوز پر اب شاید ہی کوئی پارٹنر دینا میں اس کو نصیب ہوگا۔ ہاں، چین اور روس کو کسنے کےلیے امریکہ یا یورپ کو ہندوستان کی مدد کی ضرورت ہوگی۔
مارچ 2003 میں جب امریکی صدر جارج بش نے عراق پر فوج کشی کی تو ان کا اصرار تھا کہ ہندوستان بھی برطانیہ، آسٹریلیااور پولینڈ کی طرح فوجی تعاون دے۔ وزیر خارجہ جسونت سنگھ، وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی اور مقتدر لیڈران اس کے حق میں تھے۔
ان کا خیال تھا کہ جوہری دھماکوں کے بعد ہندوستان پر جواعلیٰ تکنیک حاصل کرنے پر پابندیا ں عائد تھیں، عراق میں امریکہ کی معاونت کرکے وہ ختم ہوسکتی ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیاں اس طرح کھلم کھلا امریکی کیمپ میں جانے سے خاصی اضطراب میں تھیں۔
اسی دوران کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ یعنی سی پی آئی ایم کے سربراہ آنجہانی ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا ایک وفد احتجاج درج کروانے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کرنے آن پہنچا۔
بائیں بازو کے لیڈر سیتا رام یچوری نے بعد میں اس میٹنگ کے بارے میں ایک بار بتایا کہ واجپائی نے ان سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پارٹی، فوج اور ملک کے اسٹریٹجک امور کے ماہرین کے دباؤ میں ہیں کہ عراق میں فوج بھیج کر امریکی انتظامیہ سے مراعات حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔
وفد نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے بائیں بازو کے لیڈروں کو طعنہ دیا کہ کانگریس کی طرح وہ بھی اب مخالفت ڈرائنگ رومز اور میڈیا میں ہی کرتے ہیں۔ بقول یچوری یہ ایک پیغام تھا سڑکوں پر آنے کا، تاکہ واجپائی کو امریکہ کو ٹالنے کے لیے بہانہ ملے۔
بس پھر کیا تھا، مختلف شہروں میں امریکی حملے اور ہندوستان کی متوقع مدد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپریل کے پہلے ہفتہ جب پارلیامنٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو عراق میں امریکی مداخلت کے خلاف ایک متفقہ قرار داد منظور کی گئی۔واجپائی کے داخلی صورت حال کا حوالہ دےکر امریکی انتظامیہ سے معذرت کی۔
دوسری طرف بس تین ماہ قبل پاکستان نے سلامتی کونسل کی عارضی دو سالہ ممبرشپ کی ٹرم شروع کی تھی۔ جب امریکی فوجی کارروائی سے متعلق قرار داد کونسل میں زیر بحث تھی، تو پاکستانی مشن کے سربراہ منیر اکرم نے اسلام آباد میں حکام سے موقف جاننا چاہا، کیونکہ ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف برادر اسلامی ملک عراق تھا۔
تو صدر پرویز مشرف کا پہلا ردعمل تھا کہ پاکستان کو اس عمل میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کو بتایا گیا کہ پاکستان سلامتی کونسل کا رکن ہے، اس لیے ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح پر رہنمائی کی ضرورت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ صدر صاحب نے فرمایا کہ آخر سلامتی کونسل کا ممبر بننے کی کیا ضروت تھی؟ خیر بعد میں پاکستان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لےکر عراق میں خون خرابہ سے اپنے آپ کو بری رکھا۔
یہی صورت حال اس وقت روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے کئی ملکوں کو درپیش ہے۔ ترکی اور ہندوستان کے لیے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف سمندر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں روس سے انتہائی جدید میزائل شکن ہتھیار S-400کی خریداری کی تھی۔ ہندوستان کےلیے تو صورت حال اور بھی نازک ہے کیونکہ امریکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دوسری طرف روس سب سے بڑا ملٹری پارٹنر ہے۔
سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ترکی اور ہندوستان نے ماسکو اورواشنگٹن کے ساتھ یکساں مراسم استوار کرکے اپنی اقتصادیات اور تژویراتی میدانوں میں خاصا فائدہ حاصل کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان اور امریکہ کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 112.6بلین ڈالر ہے، جس میں 71.2بلین ڈالر کی برآمدات ہیں اور 41.42بلین ڈالر کی درآمدات ہیں۔
دوسری طرف اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2020 تک روس میں تیار کردہ اسلحہ کا 23فیصد ساز و سامان ہندوستان پہنچ چکا ہے۔ گو کہ ہندوستان اور روس کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم محض 8.1بلین ڈالر ہے، مگر 2018سے 2020 تک 15بلین ڈالر کے اسلحہ کی تجارت ہوئی ہے۔
اس کا حجم آئندہ سالوں میں اور بھی بڑا ہونے والا ہے، کیونکہ پچھلے سال ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ہندوستان میں ہی جدید ساخت کے روسی جنگی جہاز Sukhoi-30 اور T-90 اور T-72ٹینکوں کے علاوہ اتر پردیش صوبہ میں AK-203بندوقیں بنانے کی فیکٹریاں کھولنے کا اعلان کردیا تھا۔ دہلی سے متصل گڑ گاؤں میں تو پہلے ہی سے روسی ماہرین کریوز برہموس میزائل بنا رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں دوبئی میں ہندوستانی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک سے ملاقات ہوئی، تو میں نے جب اس تنازعہ کے حوالے سے ان سے استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا 70فیصد اسلحہ روس سے آتا ہے اور اس ملک سے مخاصمت کی صورت میں بس 24گھنٹوں میں ہی ہندوستان گھٹنے ٹیکنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔
ویسے تو پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستان نے روس پر انحصاری کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امریکہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی ساز و سامان مہیا کرنے کے کئی معاہدے کیے ہیں، مگر بڑے پلیٹ فارم ابھی بھی روس سے ہی فراہم ہوتے ہیں۔
مگر اس سے بھی زیادہ مسئلہ جو ہندوستان کو درپیش ہے، وہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس اور چین کے درمیان بڑھتی قربت کا ہے۔ماضی میں جب بھی ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوجاتی تھی، تو روس فوراً ہی ہندوستان کی مدد کو وارد ہوجاتا تھا۔1971کی پاک- ہندجنگ کے وقت روس نے چینی سرحدوں پر فوجیں اکٹھاکی ہوئی تھیں، تاکہ وہ پاکستان کی مدد کو نہ آسکے اور ہندوستان کو وسیع آپشنز حاصل رہیں۔
کاک کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں خیال ہے کہ روس اور چین کے درمیان ہم آہنگی دیرپا شاید ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ شدید نظریاتی اختلافات کے علاوہ دونوں ورلڈ آرڈر میں بھی مسابقت کی دوڑ میں ہیں۔ اسی لیے کسی نہ کسی وقت ان کا ٹکراؤ لازمی ہے۔ 1969میں دونوں جوہری ممالک نے جنگ بھی لڑی ہے۔ اس وقت روس کو سرحدوں پر اپنی 40ڈویژ ن فوج تعینات کرنی پڑی تھی۔
ان کے مطابق گو کہ ورلڈ آرڈر میں پہلے سے ہی تبدیلیاں آرہی تھیں، مگر یوکرین کے تنازعہ نے اس کو مہمیز عطا کی ہے۔ مصنف اور تژرویراتی ماہر ہیل فورڈ میکنڈن نے 20وی صدی کے اوائل میں تحریرکیا تھا کہ یوریشیا یعنی بحر اوقیانوس اور ایشیا پیسیفک کے درمیان والے علاقہ پر جو بھی پاور قابض ہوگی، دنیا پر اس کا کنٹرول ہوگا۔
ہندوستان کے سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو بتایا کہ یوکرین اور روس کے تنازعہ کی لپیٹ میں پوری دنیا آگئی ہے اور ورلڈ آرڈر میں ایک بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ جوں جوں یورپ اور امریکہ، روس پر پابندیوں کا شکنجہ کستے جائیں گے، چین پر اس کا انحصار بڑھتا جائےگا۔
گو کہ اس قرابت کا اثر ہندوستان پر جلد تو نہیں ہوگا، کیونکہ روس کے لیے ہندوستان جیسی اسلحہ کی منڈی کو چھوڑنا ناممکن ہوگا، مگراس کے دیرپا اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں اور اس کی زد میں ایشیا کے سبھی ممالک آئیں گے۔
مینن کے مطابق روس اور یوکرین کی شکایات بجا ہیں اور ان کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا۔ اگر ناٹو اپنی افواج اور اسلحہ یوکرین کے مشرقی علاقہ میں نصب کرتا ہے، تو یہ ماسکو سے بس 300کلومیٹر دور ہوں گے۔ پوتن کیا، کوئی بھی روسی حکمران اس کی اجازت نہیں دےگا۔
دوسری طرف یوکرین پر روسی قبضہ کی صورت میں برلن، ویانا، وارسا اور متعدد دیگر پورپی شہر براہ راست روسی نشانہ پر ہوں گے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے وقت ناٹو کے اراکین کی تعداد 19تھی، جو اب بڑھ کر 30ہوگئی ہے۔ سرد جنگ کے بعد تو ان کی تعداد کم ہونی چاہیے تھی۔
ترکی،جو فی الوقت یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، کا موقف ہے کہ سیکورٹی گارنٹی کے ساتھ یوکرین کو ایک غیر جانبدار ملک کے طور پر اس خطے میں رہنا چاہیے۔ مگر سوال ہے کہ یہ سیکورٹی گارنٹی اور اس کے غیر جانبدار رہنے کی گارنٹی کون دےگا؟
روس کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتا ہے اور اس طرح کی گارنٹی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا پورپی یونین دے۔ گو کہ امریکہ اس وقت بھی واحد گلوبل ملٹری پاور ہے اور چین کے ساتھ اقتصادی میدان میں اس کی مسابقت ہے، یہ تو طے ہے کہ دنیا اس وقت غیر یقینی اور انارکی کے دور سے گزر رہی ہے۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے راڈار سے اب سیاسی اسلام غائب ہوچکا ہے، اور اس کی ترجیحات اب روس کو شکنجہ میں کسنا اور ایشیا پیسیفک میں چین کے اثرات کو کم کرنا ہے۔
شایدہندوستان ہی واحد ملک ہوگا،جو ابھی بھی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے ایشو کو لےکر سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کررہا ہے۔ دنیا اب آگے نکل چکی ہے، ان ایشوز پر اب شاید ہی کوئی پارٹنر دینا میں اس کو نصیب ہوگا۔ ہاں، چین اور روس کو کسنے کےلیے امریکہ یا یورپ کو ہندوستان کی مدد کی ضرورت ہوگی۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر