اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی سیٹوں کے لحاظ سے بھلے ہی پیچھے رہ گئی ہو، لیکن ووٹ فیصد کے معاملے میں اس نےبڑی لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ اپنی انتخابی تاریخ میں پہلی بار اس کو 30 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
جمعرات کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اتر پردیش میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے تاریخ رقم کردی۔ اسے اکیلے 255 سیٹیں ملیں، جبکہ اپوزیشن پارٹی کے طور پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو 111 سیٹوں پر کامیابی ملی۔
انتخابی مہم کے دوران ایس پی کے جلسے میں جمع ہونے والی بھیڑ اور اس کے سربراہ اکھلیش یادو کے اختیار کردہ سوشل انجینئرنگ کےفارمولے نے خوب سرخیاں حاصل کی تھیں اور ایسا ماحول بناتھا کہ لگتا تھا کہ یوگی حکومت کو بے دخل کرکے ایس پی حکومت بنا سکتی ہے۔
حالاں کہ، ایسا نہیں ہوا اور ایس پی کو بی جے پی کے مقابلے اسمبلی میں آدھی سیٹیں بھی نہیں مل سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ پچھلے الیکشن کے مقابلے اس کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری دیکھی گئی۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جہاں اسے صرف 47 سیٹوں سےہی مطمئن ہونا پڑا تھا وہیں اس بار اس کی سیٹوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور اس کو 111 سیٹیں ملی ہیں۔
لیکن، اس سب کے باوجود یہ ریاست کی انتخابی تاریخ میں ایس پی کی بہترین کارکردگی مانی جائے گی کیونکہ اس نے ووٹ فیصد کے لحاظ سے بڑی لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ یوپی اسمبلی کی کل 403 سیٹوں کے نتائج میں انہیں 32.1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 4 اکتوبر 1992 کو ایس پی کے قیام کے بعد سے اس نے جتنے بھی اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا کسی بھی اسمبلی انتخابات میں اسے اتنے ووٹ نہیں ملےتھے۔
بی ایس پی نے 1993 میں یوپی میں پہلا اسمبلی الیکشن لڑا تھا۔ اس وقت پارٹی نے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ساتھ اتحاد کیاتھا۔ اس وقت متحدہ اتر پردیش میں اسمبلی کی 422 سیٹیں ہوا کرتی تھیں۔ ایس پی نے 253 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے اور 109 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس نے انتخابات میں تمام نشستوں پر پڑے کل ووٹوں کا 17.9 فیصد ووٹ حاصل کیا تھا۔
وہیں، اگر صرف ان 253 سیٹوں پر ایس پی کا ووٹ فیصد نکالیں جن پر اس نے امیدوار کھڑے کیے تھے، تو اس صورت میں اسے 29.9 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اگلا الیکشن 1996 میں ہوا۔ تب بھی ایس پی نے متحدہ محاذ کے تحت اتحاد میں الیکشن لڑا تھا۔ کل 424 اسمبلی سیٹوں میں سے اس نے 281 پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔
انہوں نے تمام نشستوں پر کل پڑے ووٹوں کا 21.8 فیصد حاصل کیا تھاجبکہ 281 نشستوں پر الیکشن لڑا گیا تھا، ان سیٹوں پر پڑے کل ووٹوں کا 32.1 فیصدووٹ اسے ملا تھا۔ تب ایس پی کی جھولی میں 110 سیٹیں آئی تھیں۔
سال 2002 میں ایس پی نے کسی اتحاد کا حصہ بنے بغیر اپنے طور پر الیکشن لڑا۔ 2000 میں ریاست کی تقسیم کے بعد اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کم ہو کر 403 رہ گئی، جو اس کے بعد سے اب تک یہی ہے۔
اس دوران ایس پی نے 390 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے اور 143 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اسے تمام 403 سیٹوں پر کل پڑے ووٹوں کا 25.37 فیصد ملا۔ جبکہ، اگر ایس پی کی طرف سے لڑی گئی 390 سیٹوں پر ووٹ فیصد کو نکالا جائے تو یہ 26.27 فیصدتھا۔
ڈرامائی پیش رفت کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال بعد ایس پی نے ملائم سنگھ یادو کی قیادت میں ریاست میں حکومت بھی بنالی تھی۔
حالاں کہ، وہ 2007 میں وہ اپنی حکومت نہیں بچا سکی۔ پھر انہوں نے 393 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ اس کا ووٹ فیصد گزشتہ انتخاب (25.37) کے مقابلے بہترہوا۔ اس نے تمام سیٹوں پر کل پڑے ووٹوں کا 25.43 فیصد حاصل کیا۔
لیکن، پھر بھی اس کی نشستوں میں بڑی کمی آئی اور وہ 97 پر محدود ہو گئی۔ اس وقت بی ایس پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنالی تھی۔
وہیں، جن 393 سیٹوں پر ایس پی نے امیدوار کھڑے کیے تھے، انہیں ان سیٹوں پر کل ووٹوں کا 26.1 فیصد ملا۔
سال 2012 کا اسمبلی الیکشن ایس پی کی تاریخ کا سب سے کامیاب الیکشن ثابت ہوا، کیونکہ اس نے 224 سیٹیں جیت کر اپنے بل بوتے پر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ لیکن پھر بھی اس کا ووٹ فیصد 29.13 فیصدی رہا تھا۔
اس نے 401 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، ان سیٹوں کے لحاظ سے اسے 29.29 فیصدی ووٹ ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے سب سے کامیاب الیکشن میں بھی ایس پی کو اتنے ووٹ نہیں ملے جتنے موجودہ الیکشن میں ملے ہیں۔
سال 2017 کی بات کریں تو تب بی جے پی نے یوپی میں زبردست اکثریت کے ساتھ انٹری درج کرائی تھی۔ بی جے پی کے اس طوفان میں ریاست کی تمام اپوزیشن پارٹیاں دور دورتک مقابلے میں نظر نہیں آئی تھیں۔
اس دوران ایس پی نے تمام سیٹوں پر کل ووٹوں کا 21.82 فیصد حاصل کیاتھا اور 47 سیٹوں پر کامیابی درج کی تھی۔
تاہم، ایس پی نےوہ الیکشن کانگریس کے ساتھ اتحاد میں لڑا تھا اور 403 میں سے صرف 311 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ ان 311 سیٹوں پر ایس پی کو 28.32 فیصد ووٹ ملے تھے۔
واضح ہو کہ یوپی میں اب تک جتنے بھی اسمبلی انتخابات ایس پی نےلڑے ، انہیں ووٹ فیصد کے لحاظ سے اتنی کامیابی کبھی نہیں ملی جتنی موجودہ انتخابات میں ملی ہے۔ اپنی انتخابی تاریخ میں پہلی بار اس نے کسی الیکشن میں 30 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
وہیں، یوپی میں 1977 کے بعد پہلی بارایسا ہوا کہ کسی اسمبلی انتخاب میں دو پارٹیوں کو 30 فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ آخری بار ایسا ایمرجنسی کے دور میں ہوا تھا جب ریاست میں دو قطبی سیاست تھی اور جنتا پارٹی، حکمراں کانگریس کے آمرانہ رویہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
حالاں کہ، تب جنتا پارٹی (47.8فیصد) نے کانگریس (31.9فیصد) حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن ایس پی ایسا نہیں کر سکی۔ پھر بھی 45 سال بعد وہ کسی الیکشن کو دو قطبی بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کہ کانگریس اور بی ایس پی مقابلے سے باہر ہوگئی اور ان کا ووٹ شیئر بی جے پی اور ایس پی کی جھولی میں چلا گیا۔
وہیں، ایس پی نے راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کے تحت صرف 346 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ اگر ہم ان 346 سیٹوں پر کل ووٹوں کے حساب سے ایس پی کے ووٹ فیصد کا حساب کریں تو یہ 35 سے آگے نکل جائے گا۔
گزشتہ انتخابات سے موازنہ کریں تو 2017 میں تمام 403 سیٹوں پر کل ووٹوں کا 21.8 فیصد اس نےحاصل کیا تھا، اس بار 32.1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یعنی ووٹوں میں 10 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
وہیں، صرف ان سیٹوں پر ملےووٹ شیئر کی بات کریں جن پر ایس پی نے امیدوار کھڑے کیے تھےتو پچھلے الیکشن میں اسے جہاں 28.3 فیصد ووٹ ملے تھے تو اس بار یہ 35 فیصد سے تجاوز کر گئے ہیں۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر