خبریں

منگلورو: حجاب کے سلسلے میں کالج گیٹ پر تنازعہ کے بعد مسلم لڑکی کے خلاف ایف آئی آر درج

یہ معاملہ منگلورو کےدیانند پائی ستیش پائی گورنمنٹ فرسٹ گریڈ کالج  کاہے۔حجاب کے سلسلے میں گزشتہ 3 مارچ کو ہبہ شیخ اور ان کی ساتھی طالبات سے کالج گیٹ پر اے بی وی پی سے  وابستہ لڑکوں  کا جھگڑا ہوا تھا۔ ہبہ نے اس سلسلے میں 19 طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ اپنے خلاف ایف آئی آر پر ان کا کہنا ہے کہ انہیں پھنسایا گیا ہے۔

ہبہ شیخ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

ہبہ شیخ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

منگلورو پولیس نے دائیں بازو کی تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے وابستہ طالبعلموں کے ایک گروپ کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کرنے، دھمکی دینے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے گزشتہ 7 مارچ کو چھ مسلم طالبعلموں کے ساتھ حجاب پہننے والی کالج کی اسٹوڈنٹ ہبہ شیخ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

الزام ہے کہ یہ واقعہ 4 مارچ کو کالج کے گیٹ پر پیش آیا تھا، لیکن ہبہ شیخ کا کہنا ہے کہ جس خاتون نے ان کے خلاف یہ مقدمہ درج کرایا تھا، وہ دراصل اس تنازعہ کے دن کالج میں موجود ہی نہیں تھیں۔

بتا دیں کہ معاملے میں  شکایت درج کروانے والی کوانا شیٹی اے بی وی پی سے وابستہ ہیں۔

شیخ نے دی وائر کو بتایا،اگر کوانا 4 مارچ کو کالج کے گیٹ پر نہیں تھیں تو وہ اس الزام کے ساتھ ہمارے خلاف ایف آئی آر کیسے درج کرا سکتی ہیں کہ ہم نے ان پر حملہ کیا؟

معلوم ہو کہ ہبہ اور اس کے دوستوں کا اے بی وی پی سے وابستہ طالبعلموں کے ساتھ یہ جھگڑا منگلورو میں دیانند پائی ستیش پائی گورنمنٹ فرسٹ گریڈ کالج کے گیٹ پر ہوا تھا۔

اس واقعے کے کئی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک ویڈیو میں ہبہ شیخ کو اے بی وی پی کے طالبعلموں کا سامناکرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

کوانا شیٹی نے 7 مارچ کو منگلورو نارتھ پولیس اسٹیشن میں چار لڑکیوں اور تین لڑکوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

شیٹی نے الزام لگایا ہےکہ 4 مارچ کو ہبہ اور دیگر چھ مسلم طالبعلموں نے کالج کے گیٹ پر انہیں دھمکی دی، کیونکہ 3 مارچ کو حجاب پہننے والی طالبات کو کالج کے امتحانات میں شامل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

واضح ہو کہ کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے جاری عبوری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کرناٹک سرکارکے خلاف مسلم طالبات کی جانب سے دائر مقدمے میں فیصلہ سنائے جانے تک سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے احاطے میں کوئی بھی مذہبی لباس نہیں پہنا جا سکتا۔

شیٹی کی ایف آئی آر کے مطابق، ہبہ اور دیگر چھ مسلم طالبعلم کالج کے گیٹ پر کھڑے تھے اور جیسے ہی شیٹی اور ان کے دوست کالج میں داخل ہوئے، ان کےساتھ بدتمیزی کی گئی۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ،ہبہ شیخ نے کہا کہ کل تم  نے ہمارے خلاف شکایت کی تھی اور ہمیں امتحان نہیں دینے دیا۔ تم لوگ ہماری سڑکوں پر چلتے ہو۔ ہم تمہیں وہاں دیکھیں گے۔ کیا یہ تمہارے باپ  کا کالج ہے؟ ہم بھی کالج کی فیس دیتے ہیں اور ہم کالج آئیں گے۔

شیٹی نے اپنی ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ہبہ اور ان کے دوستوں نے ان کے ساتھی طالبعلم سائی سندیش کو سوشل میڈیا پردھمکی دیتے ہوئے کہا تھا، منگلورو میں سندیش کی لاش کو نالے میں پھینکاجائے گا۔

دی وائر کو اس کی تصدیق کرتے ہوئے بنڈر پولیس تھانے کے پولیس افسر راگھویندر نے کہا کہ غیر مہذب لفظوں کا استعمال کرنے کے لیےہبہ شیخ اور دیگر چھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سات مسلم طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے تنازعہ کے ویڈیو میں کافی ثبوت ہیں۔

یہ ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ 323 (ارادے کے ساتھ چوٹ پہنچانا)، 506 (مجرمانہ دھمکی) اور 504 (امن و امان کو متاثر کرنے کے ارادے سےجان بوجھ کر توہین کرنا) کے تحت درج کی گئی  ہے۔

ہبہ شیخ کی ایف آئی آر

حالاں کہ، کوانا شیٹی کی ایف آئی آر 4 مارچ کو ہبہ شیخ کی جانب  سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے برعکس ہے، جس کی بنیاد پر پولیس نے 3 مارچ کو مبینہ طور پرحجاب پہننے والی طالبات کو امتحان  دینے سےروکنے کے لیےاے بی وی پی سے وابستہ 19 طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

پولیس کی جانب سے ہبہ سےیہ پوچھنے پر  کہ کیا کالج  پرنسپل نے مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر امتحان لکھنے کی اجازت دی تھی اور کیا جب طالبات کو امتحان میں شامل ہونے سے روکا گیا تب وہاں  کوئی لیکچرار موجود تھا۔ اس کے بعد 4 مارچ کو 19 طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ہبہ نے ان دونوں سوالوں کا جواب ‘ہاں’ میں دیا۔

بتا دیں کہ ان 19 طالبعلموں میں کوانا شیٹی کے ساتھی طالبعلم سائی سندیش بھی تھے۔

ہبہ کی ایف آئی آر کے مطابق، جب لڑکیاں امتحان دے رہی تھیں، تب سندیش نے اپنے فون سے ان لڑکیوں کی ویڈیو گرافی کی، ان کی جوابی کاپیاں چھین لیں اور لڑکیوں کو وہاں سےجانے کو کہا، کیونکہ انہیں حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ہبہ کی ایف آئی آر میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ اے بی وی پی سے وابستہ طالبعلموں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں ‘دہشت گرد’ اور  ‘غدار’  کہا اور ان کے مذہب کے بارے میں بھی قابل اعتراض تبصرہ کیا اور ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

کالج کی دوسرے سال کی طالبہ، ہبہ شیخ کا دعویٰ ہے کہ کالج کی پہلے سال کی حجاب پہننے والی طالبات نےانٹرنل امتحانات دینے کے لیےپرنسپل سے تحریری منظوری لی تھی۔ ان لڑکیوں کو مرکزی امتحان ہال میں نہیں بلکہ لائبریری میں الگ سےبیٹھنا تھا۔

شیخ نے دی وائر کو بتایا،پرنسپل نے ہمیں کسی طرح کی  پرمشن سلپ نہیں دی تھی۔ انہوں نے ہمیں حجاب کے بجائے یونیفارم کے حصے کے طور پر اپنے سر کو دوپٹہ سے ڈھانپنے کی ہدایت دے کر امتحان دینے کی اجازت دی تھی۔

جب ہبہ کو یہ معلوم ہوا کہ پولیس نے ان کے اور ان کے چھ ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، تو انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا  کہ انہیں پھنسایا گیا ہے۔

شیخ نے اپنے اس ٹوئٹ کے ساتھ ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے 19 طالبعلموں کی اس حرکت کو منصوبہ بند سازش قرار دیتے ہوئے کہا، اگر ہم لوگوں کی غلطی ہوتی تو کوانا شیٹی اسی دن شکایت درج کروا سکتی تھی جس دن میں نے شکایت درج کرائی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوری طرح سے پہلے سے طے شدہ سازش تھی۔

شیخ نے ویڈیو میں سندیش کے نام کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ہراسانی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا۔

شیخ نے دی وائر کو بتایا،ہمیں باہر جانے کے لیے کہنے والےسندیش کون ہوتےہیں؟ وہ ہماری طرح ایک طالبعلم ہیں۔ کالج پرنسپل کے خلاف جانے کا ان کے پاس کیا حق ہے؟ ہمارے پرنسپل بہت ہی نرم مزاج شخص ہیں، ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ہم اسے صاف دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے کالج پرنسپل اور عملہ بہت مددگار ہیں۔ یہ ساری صورتحال اے بی وی پی اور ان کے گینگ  نے تیار کی ہے۔

شیخ نے کہا، حالاں کہ، لائبریری کے اندر موبائل فون کی اجازت نہیں ہے۔ سائی سندیش لائبریری میں آئے جہاں ہمارے جونیئر بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے بنا ان کی اجازت کے ان کی ویڈیوگرافی کی۔اگلے دن انہوں نے پولیس کو بلایا اور میرے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئےدھمکی دی کہ وہ ہماری زندگی برباد کر دیں گے۔

شیخ نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے کالج کی حجاب پہننے والی طالبات کو کالج کے چپراسی کی طرف سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا، وہ (چپراسی) ہمیں کالج میں کچھ بھی کھانے پینے سے منع کرتی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے لیے پانی پینے کےلیے الگ نل لگائے گئے ہیں،تاکہ ہم کسی سے بات چیت نہ کر سکیں۔

انہوں نے بتایا، وہ مایوس ہیں کہ کوئی بھی اے بی وی پی سےوابستہ طالبعلموں کی غنڈہ گردی کے خلاف کھڑا نہیں ہوا۔ میں ان کا ڈر سمجھ سکتی ہوں، لیکن میں ڈرتی نہیں ہوں۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

وائرل ویڈیو

چار  مارچ کو کالج کے گیٹ پر ہوئےتنازعہ کے ویڈیو میں اے بی وی پی سے وابستہ  طالبعلموں کو کالج میں داخل ہورہی ہبہ شیخ کا راستہ روکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران ہبہ کو ‘ملک دشمن’ اور ‘دہشت گرد’ کہا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں،کیا یہ تمہارے باپ کا کالج ہے؟ ہم بھی فیس دے کر یہاں آتے ہیں۔

بتا دیں کہ یہ تنازعہ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ہوا، جو کالج کے عملے کے ساتھ وہاں کھڑے تھے۔ انہوں نے مداخلت کی اور یہ  تنازعہ ختم ہوا۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر اے بی وی پی کے طالبعلموں کامقابلہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ہبہ کی تعریف کی گئی۔ ان کا موازنہ مانڈیا کالج کی ایک مسلم طالبہ مسکان خان سے کیا گیا، جنہوں  نے 8 فروری کو اسی طرح دائیں بازو کی بھیڑ کا سامنا کیا تھا اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)