گزشتہ سال اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں ہندوستان کو پاکستان کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ الزام ہے کہ آگرہ کے ایک انجینئرنگ کالج میں زیر تعلیم تین کشمیری طالبعلموں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے تھے۔ ان کے خلاف سیڈیشن، سائبر دہشت گردی اور سماجی منافرت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ 30 مارچ کو تین کشمیری طالبعلموں کو ضمانت دے دی،جو سیڈیشن کے ایک مقدمے میں آگرہ کی جیل میں بند تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کرکٹ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی جیت کا جشن منایاتھا۔
واضح ہو کہ اس معاملے میں ملزم عنایت الطاف شیخ، شوکت احمد غنی اور ارشد یوسف 28 اکتوبر 2021 سے جیل میں تھے۔
جیسا کہ دی وائر نے رپورٹ کیاتھاکہ ، تینوں آگرہ کے راجہ بلونت سنگھ انجینئرنگ کالج کے طالبعلم ہیں اور وزیر اعظم کی خصوصی اسکالرشپ اسکیم کا حصہ تھے۔ یہ وظیفہ جموں و کشمیر کے معاشی طور پر کمزور طالبعلموں کو دیا جاتا ہے۔ انہیں 27 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بتادیں کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہندوستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں پاکستان کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ الزام ہے کہ تینوں کشمیری طالبعلموں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے تھے۔ ان کے خلاف سیڈیشن، سائبر دہشت گردی اور سماجی منافرت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔ جنوری میں ان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی تھی۔
پولیس نے ان پر آئی پی سی کی دفعہ 153 اے (مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 505 (1) (بی) (عوام میں خوف پیدا کرنے کا ارادہ رکھنا) اور میچ کے بعدوہاٹس ایپ پر مبینہ طور پر ‘ہندوستان کے خلاف’ پیغامات بھیجنے کے الزام میں انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2008 کی دفعہ 66 ایف (سائبر دہشت گردی کی سزا) کے تحت مقدمہ مقدمہ درج کیا تھا۔
اتر پردیش پولیس نے بعد میں ایف آئی آر میں دفعہ 124-اے (سیڈیشن) بھی شامل کیا تھا۔ یہ ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کے بعد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جیت کا جشن منانے والوں پر سیڈیشن کا مقدمہ قائم ہوگا۔
بتا دیں کہ یہ مقدمہ مقامی بی جے پی لیڈروں کی شکایت پر درج کیا گیاتھا۔ بعد ازاں ان طالبعلموں کو معطل کر دیا گیاتھا۔
سپریم کورٹ کےایک سابق جج جسٹس دیپک گپتا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پر پاکستان کی جیت ہر گز سیڈیشن نہیں ہے اور ایسا سوچنا بھی بکواس ہے۔
سینئر وکیل رمیش چند یادو نے سنتوش کمار سنگھ کے ساتھ مل کر ہائی کورٹ میں تینوں کی ضمانت کے لیے بحث کی۔
قابل ذکر ہے کہ شروعات میں آگرہ میں طالبعلموں کو قانونی امداد تک رسائی سے محروم رکھا گیا تھا کیونکہ ان پر ‘دیش دروہی ‘کا ٹھپہ لگا تھا، اس لیے مبینہ طور پر وکیل ان کی پیروی کرنے سے انکار کر رہے تھے۔
اس کے بعد طلبہ یونینوں اور رضاکاروں نے متھرا میں ان کے لیے قانونی مدد کا انتظام کیا۔ یہ تینوں مقدمے کو آگرہ سے متھرا منتقل کرانے کے لیے بھی عدالت گئے۔
دی وائر نے طالبعلموں کے اہل خانہ کی طرف سے انسانی بنیادوں پر ضمانت دینے کی بار بار اپیل کیے جانے کے سلسلے میں بھی رپورٹ کی تھی۔
طالبعلموں کے خلاف سیڈیشن کے الزام اور ان کی قید نے دنیا بھر میں سرخیاں بٹوری تھیں۔
Categories: خبریں