پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔
غالباً 1997یا 1998کی بات ہے کہ جب میں نے ہندوستانی پارلیامنٹ کو بطور رپورٹر کور کرنا شروع کیا، تو بتایا گیا کہ مستقل سالانہ پاس کے لیے پارلیامنٹ بلڈنگ سے ہی متصل بیورو آف پارلیامنٹری اسٹڈیز اینڈ ٹریننگ(بی پی ایس ٹی)سے پارلیامنٹری رپورٹنگ کا کورس کرنا پڑے گا۔ خیرمیں نے داخلہ لے لیا۔
دیگر جید افراد کی طرح پرنب مکھرجی،جو بعد میں کانگریس دور میں اہم وزارتوں کے علاوہ صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے، بی پی ایس ٹی میں فیکلٹی ممبر تھے۔ بین الاقوامی سیاست و معیشت کے معاملے میں وہ ایک طرح کے انسائیکلوپیڈیا تھے۔
ایک روز کلاس میں وزیر اعظم کے دفتر اور اس کی افادیت کے حوالے سے وہ لیکچر دے رہے تھے، کہ پاکستانی سیاست کا ذکر چھڑ گیا۔ بے نظیر بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا تھا اور نواز شریف ایک بھاری منڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آگئے تھے۔
مکھرجی کہنے لگے کہ بسا اوقات ان کو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم آخر کب گورننس کے ایشوز کو لےکر کام کرتا ہوگا؟ پارلیامانی نظام میں وزیر اعظم سیاسی و پارٹی امور کے علاوہ گورننس کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوسطاً وزیر اعظم کے پاس روزانہ دو سو کے قریب فائلیں منظوری اور دستخطوں کے لیے آتی ہیں۔
اگر وہ صرف فائل کے اوپر سرسری طور پر اس کے افسران کے لکھے خلاصہ کو پڑھ کر ہی دستخط کرے گا، تو بھی یہ 16 گھنٹوں کا کام بنتا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ میٹنگ کی سربراہی کرنا، فیصلوں وغیرہ کے لیے میٹنگیں بلانا، پارلیامنٹ اور دیگر کانفرنسوں، جلسے، جلوسوں میں شرکت کرنا اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنا، غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات اور بریفنگ لینا وغیرہ اس 16گھنٹے کے علاوہ ہے۔
اقتدار میں آنے اور ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے فوراً بعد ہی پاکستانی وزیر اعظم سیاسی امور کو سلجھانے اور اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ جس سے گورننس کے بجائے اس کا پورا وقت سیاسی امور کو سلجھانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔
اگر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صرف تین وزرائے اعظم نے چار سال کی مدت تک حکومت کی ہے۔ جن میں لیاقت علی خان (4سال63دن)، یوسف رضا گیلانی (4سال 86دن) اور نواز شریف (4سال 53دن) برسراقتدار رہے ہیں۔
پاکستانی عوام و میڈیا بھی اس قدر ایک مستقل عدم استحکام کا عادی ہوچکا ہے کہ ان کو ہر وقت سنسنی خیز اطلاعات سننے اور بسا اوقات انتہائی غیر مصدقہ خبریں نشر کرنے میں لطف آتا ہے۔
دہلی میں میرے ایک سینئر کولیگ پارسا وینکٹیشور راؤکا کہتے تھے کہ انتخابات کے بعد پاکستان عوام جلد ہی اپنے حکمرانوں سے اوب جاتے ہیں۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے مدت حکمرانی پانچ سال سےگھٹا کر تین سال کی جائے۔ تاکہ حکومت کو پہلا سال آنے اور سمجھنے میں، دوسرا سال حکومت کرنے میں تیسرا سال سیاسی امور کو سلجھانے اور اگلے انتخاب کی تیاری میں صرف ہو۔
پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم کے پاس جب بھاری منڈیٹ ہوتا ہے تو وہ بیک جنبش قلم آرمی چیف کو برطرف کرکے کسی اور کو متعین کرتا ہے اور جب اس نئے چیف کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں، تو اس کی بھی برطرفی کے احکامات جاری ہوتے ہیں، اور وہ بھی اس وقت جب وہ ایک غیر ملکی دورے سے واپس آرہا ہوتا ہے اور مسافروں سے بھری فلائٹ کو اترنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے۔
جب عدالت کا فیصلہ اس وزیراعظم کے خلاف آتا ہے تو اس کے حامی عدالت پر ہی چڑھ دوڑتے ہیں کہ چیف جسٹس کو اپنی جان بچانے کے لیے پناہ لینی پڑتی ہے۔ایک اور وزیرا عظم جب فوج کو اصرار کرتی ہے کہ اس کو نیوکلیر پروگرام سے متعلق بریفنگ دی جائے، جو کہ اس کا حق ہے۔ مگر جب یہ پاکستانی وزیر اعظم آرمی ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں پہنچتی ہے، تو امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتی ہے۔
ہندوستان میں نئے وزیر اعظم کو اسٹریجک فورسز کے آپریشن روم میں یہ بریفنگ حلف اٹھانے کے بعد دی جاتی ہے۔وزارت دفاع یعنی ساؤتھ بلاک میں موجود اس آپریشن روم کی طرف کوئی پرندہ بھی پر مار نہیں سکتا ہے۔
اسی طرح جب پاکستانی عدالت کے سربراہ کو لگتا ہے کہ بس وہی ملک کا نجات دہندہ ہے، تو وہ آئے دن وزیراعظم کو سمن کرنے اس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ ایک نظام کو چلانے کے لیے جوڈیشل ایکٹوزم کی بھی ایک حد ہونی چاہیے۔
ایک معزز جج نے جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنایا، تو ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مشرف اگر زندہ ہاتھ نہ آئیں اور کہیں مردہ مل جائیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔ یہ انصاف نہیں۔ انصاف اور انتقام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہی حال فوج کا بھی ہے۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں غالباً32سال تک فوج نے اقتدار سنبھالا ہے۔
جب حال ہی میں سبکدوش وزیر اعظم عمران خان دہائی دےکر ہندوستان کا حوالہ دےکر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کے برعکس وہاں کی حکومتیں اپنے مفادات کی حفاظت کی اہلیت رکھتی ہیں، تو پاکستانی ادراروں، تھنک ٹینکوں و میڈیا کے لیے لازم ہوتا ہے کہ تحقیق کریں کہ کون سے عوامل ہندوستان کو ایک مستحکم اور پاکستان کو ایک ناپائیدار نظام کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نظا م میں فوج یا سکیورٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔
فیصلہ لیتے وقت ان کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے اوراعلیٰ ترین فیصلہ سا ز ادارہ کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں فوج کی تینوں شاخوں اور خفیہ تنظیموں کے سربراہان کا خا صا عمل دخل ہوتا ہے۔2005کو جب وزیرا عظم من موہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ سیاچن گلیشیر پر ایک معاہدہ کو حتمی شکل دی تھی، تو آرمی چیف جنرل جوگیندر جسونت سنگھ کی مخالفت کی وجہ سے اس کو التوا میں ڈالا گیا۔
اسی طرح جموں و کشمیر اور شمال مشرقی علاقوں میں نافذ بدنامہ زمانہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کا خاتمہ پر سیاسی جماعتیں اور حکومت متفق تھیں، مگر فوج کی سخت مخالفت کی وجہ سے سویلین حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرپائی۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کئی بار اس کا شکوہ کر چکے ہیں۔ایسے ان گنت واقعات ہیں۔ چونکہ فوج اور سیکورٹی اداروں کے مشوروں کو سویلین حکومت وقعت دیتی ہے، اسی لیے شاید ان کو مداخلت کرنے کی ضروت نہیں پڑتی ہے۔
ہندوستان میں وزیر اعظم کو عدالتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ملک کی کوئی بھی عدالت کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پٹیشن سماعت کے لیے منظور نہیں کرتی ہے۔
ہندوستان میں آخری بار 1975 میں وزیرا عظم اندرا گاندھی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریفرنس منظور کرکے ان کے لوک سبھا کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا۔ اندرا گاندھی نے اس کے جواب میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کرکے، دو سال تک سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرا دی۔
جس کی وجہ سے 1977ء کے انتخابات میں ان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہندوستان میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت جنتا پارٹی کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی تو اندارا گاندھی کے خلاف الزامات کا ایک پٹارہ کھول کر عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔اسی دوران مصالحت کاروں نے اندرا گاندھی کو مشورہ دیا کہ اگر وہ کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلی جائے تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔
بقول مشہور صنعت کار اور سوشلسٹ لیڈرکمل مرارکا، جومصالحت کاروں کی ٹیم میں شامل تھے، جب وہ اس معاہدہ کی تفصیل لےکر وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس پہنچے تو انہوں نے پوری تفصیل سننے کے بعد ان کو خوب کوسا۔
انہوں نے ٹیم سے پوچھا کہ آخر وہ کیسے اندرا گاندھی کو سیاست سے بے دخل کرسکتے ہیں؟ڈیسائی کا کہنا تھا کہ عدالت اندرا گاندھی کے دیگر امور کو دیکھنے کی اہل ہے، مگروہ خود صرف سیاسی میدان میں گاندھی کا مقابلہ کریں گے۔ اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی وسط مدتی انتخابات میں اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔
ہندوستان کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا راؤ کی حکومت میں یعنی 1991 سے 1996 تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچینج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کے لیے پارلیامان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔
مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔ سیکورٹی کے پیش نظر ان کے لیے خصوصی عدالت کی نشست وگیان بھون میں لگتی تھی، جس کو کئی بار میں نے کور کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار وزیر اعظم ہاؤس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر نرسمہا راؤ کی مدت حکومت کے دوران کے دو چیف جسٹس صاحبان سے میں نے پوچھا تھا کہ آخر انہوں نے نرسمہا راؤ کو بے لگام کیوں چھوڑا تھا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ‘وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس، دباؤسے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔
اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کرےگا؟ اور کیا کوئی افسر، سکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیں گے؟
کیا وہ اس انتخابی منشور کو، جس کی وجہ سے عوام نے اس کو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کے لیےقربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا راؤ کو اراکین پارلیامان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
دارصل ہندوستان میں مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔
اسی طرح جولائی 2000کو اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں کسی تقریب میں چیف جسٹس کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا، تو اسٹیج سے اترتے ہی ان کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا فون آیا، جس نے ان سے فوراً ہی استعفیٰ طلب کیا۔ وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ شکایت بجا ہی سہی، حکومت چیف جسٹس کے ساتھ کوئی محا ذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ رام جیٹھ ملانی کا شمار خود بھی ملک کے جید قانون دانوں میں کیا جاتا تھا۔
دسمبر 1996کو جب کولکاتہ کے نواح میں پاکستان انڈیا فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کا ایک کنونشن منعقد ہوا، تو اس میں شرکت کے لیے تقریباً 200کے قریب پاکستانی مندوبین وارد ہوگئے تھے۔ جن میں معروف کالم نویس مرحوم عطاء الرحمان بھی تھے۔
ان کی معیت میں پاس کے باراسات ضلع میں گھومتے ہوئے ایک دیہات میں ایک مسجد پر نظر پڑی۔ چونکہ نماز کا وقت بھی ہورہا تھا، اندر جاکر اور فراغت کے بعد عطا ء الرحمان صاحب نے امام صاحب کے پاس جاکر اپنا تعار ف کرایا اور ان سے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں؟ امام صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ بس آپ سے(پاکستان سے) بہتر ہیں۔ آپ کی طرح مسجدوں یا امام باڑوں میں ایک دوسر ے کو قتل نہیں کرتے ہیں۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد امام صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔ انہوں نے کہا،افغانستان، ترکی یا عرب ممالک، اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے جاکر کہو کہ ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان، اس خطے کی اشد ضرورت ہے۔
معلوم نہیں کہ عطاء الرحمان صاحب نے واپس جاکر دور افتادہ دیہات کے اس امام کا پیغام پاکستانی حکمرانوں تک پہنچایا کہ نہیں۔پاکستان میں وقتاً فوقتاً جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر کشمیری لیڈر سید علی گیلانی بھی تاسف کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نومبر 1996 میں جب بے نظیر بھٹوکو برطرف کیا گیا، تو وہ ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔
اس دوران ان کے سکریٹری نے ان کو بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین صاحب لائن پر ہیں۔ انہوں نے فون اٹھاتے ہی حکومت کی بر طرفی کے حوالے سے قاضی صاحب کو خوب سنایا۔ فون کے بعد ان کے سکریٹری نے ان کو بتایاکہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں۔ تو انہوں نے کہاکہ ان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔
ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو مؤثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اسی تقریر میں انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھے سے اچھا آئین بھی اگر نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔آخر پاکستانی حکمراں اور عوام کب اس نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
Categories: فکر و نظر