امت شاہ جانتے ہیں کہ ہندی کو تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کا ان کا ارادہ کسی بھی طرح سےعملی نہیں ہے۔ لیکن اس سے ان کے پولرائزیشن کا ایجنڈہ تو پورا ہو ہی رہا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے اس تبصرے نے – کہ ہر جگہ ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے انگریزی کے بجائے ہندی میں بات چیت کرنی چاہیے، اپوزیشن جماعتوں اور شہریوں کو متحرک کر دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیوں کچھ شمالی اور وسطی ہندوستانی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان کو فخر سےتمل، بنگالی اور مراٹھی بولنے والوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے؟ ایک متنوع، کثیر لسانی ملک اچانک ‘ایک قوم، ایک زبان’ کی سمت کیوں بڑھ رہا ہے؟
اگر آپ کی یادداشت اچھی ہے تو یاد کیجیے کہ 2017 میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی تھی۔ عام انتخابات سے دو سال پہلے نریندر مودی حکومت ہندی کو آگے لے جانا چاہتی تھی۔ پھر کارکنوں اور سیاسی جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ آخر میں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
شاہ نے واضح کیا کہ ہندی مقامی زبانوں کی جگہ نہیں لے گی، بلکہ صرف انگریزی کی جگہ لے گی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ‘میکالے کے اولادوں’ کی زبان ہے۔ میکالے، جنہوں نے تعلیم پر بدنام زمانہ 1836 کےمنٹس لکھے تھے، جہاں انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ انگلش میڈیم تعلیم سے پیدا ہونے والے ہندوستانی ‘ایک ایسا طبقہ بنائیں گے جو ہمارے اور لاکھوں لوگوں؛ جن پر ہم حکومت کر تے ہیں، کے درمیان ایک ترجمان کا کام کرسکتے ہیں؛ ایسے لوگوں کا ایک طبقہ جو خون اور رنگ میں ہندوستانی ہوگا، لیکن پسند، خیالات، اخلاقیات اور سمجھداری میں انگریز ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں، ایسے ہندوستانی جو ہندوتوا کے معیار کے مطابق ‘خالص’ نہیں تھے۔ سنگھ پریوار نے طویل عرصے سے ایسے بدعنوان ہندوستانیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جس نے اس کی رائے میں، بہت طویل عرصے تک بہت زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔
عام طور پر سنگھ اور خاص طور پر امت شاہ دونوں ہی مایوس کن طور پر پرانے ہیں۔ انگریزی بھلے ہی کبھی مراعات یافتہ اور طاقتوروں کی زبان رہی ہو، لیکن اب یہ بااختیار بنانے کی زبان بن چکی ہے۔
انگریزی کے اس پھیلاؤ نے اسے جمہوری بنا دیا ہے اور اب یہ صرف اشرافیہ کی زبان نہیں رہی۔ انگریزی سیکھنے سے ملازمتوں کے شعبے میں معاشی مواقع ملتے ہیں – کال سینٹرز سے لے کر درس و تدریس، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور کارپوریٹ ملازمتوں تک۔ ایک بڑھتی ہوئی معیشت کو قابل، ہنر مند لوگوں کی ضرورت ہے اور صرف ایک زبان جاننے سے مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکول پورے ملک میں بارش کی گھاس کی طرح اُگ چکے ہیں اور اب بھی ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے یہ زبان سیکھیں کیونکہ وہ اس کے بہت سے فائدے دیکھتے ہیں۔
شاہ اور ان کے ساتھی اس طرح ماضی میں ہی جی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کون سی ہندی مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ کھری بولی یا برج بھاشا؟ یا ہندی پٹی میں بولی جانے والی وہ بہت سی بولیاں، جو ہر دو کوس پر بدل جاتی ہیں؟ یا وہ بمبئیا زبان، جس کے بارے میں سوچ کر ہی ایک خالص زبان کے داعی کانپ اٹھے، یا ممبئی کے سنیما کی ہندوستانی، جس نے اس زبان کے پھیلاؤ کے لیے بہت کچھ کیا ہے؟ یا خدا نہ کرے، سرکاری ہندی، جسے کئی حکومتوں نے سرکاری احکامات کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی اور جسے کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اور جب اس بارے میں بات ہو ہی رہی ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ صرف ہندی ہی کیوں، تمل کیوں نہیں؟ وہ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہندی – وہ بھی طرح طرح کی،کوزیادہ ریاستوں میں بولی جانے کی وجہ سےہی اسے قومی زبان سے جوڑنے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے۔
امت شاہ یقینی طور پر جانتے ہوں گے کہ ان کا خیال عملی نہیں ہے اور مختلف ریاستوں میں اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ انہوں نے 1960 کی دہائی میں تمل ناڈو میں ہندی مخالف فسادات کے بارے میں سنا ہوگا۔ پھر بھی وہ انہوں نے یہ شگوفہ چھوڑا۔
اس تجویز پر عمل درآمد کی ایک وجہ یقیناً 2024 کے عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کا کام متنازعہ مسائل کو سامنے لانا اور دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے اور پھر انہیں چھوڑ دینا ہے، جیسا کہ 2019 میں ہوا تھا، جب ہندی کے بارے میں کچھ کچھ کہا-سنا نہیں گیا تھا۔
لیکن اب حالات ایسے نہیں رہے جیسے پانچ سال پہلے تھے۔ بی جے پی اور اس کی تمام ساتھی تنظیمیں اس بار زیادہ جارحانہ ہیں۔ ہندوتوا کے سپاہی مختلف ریاستوں میں سبزی اور گوشت جیسے نئے مسائل لے کر سامنے آرہے ہیں – خاص طور پر جہاں ان کی حکومت ہے۔ مٹن کی دکانوں پر حملہ کیا گیا، دکانداروں سے ان کی روزی روٹی چھین لی گئی۔ آر ایس ایس کی طلبہ ونگ اے بی وی پی نے جے این یو ہاسٹل میں نان ویج کھانا کھلائے جانے پر طلبہ کی پٹائی کی۔
فرقہ وارانہ آگ کو تیزی سے بھڑکایا جا رہا ہے۔ ہندی کو بھی اسی طرح ہتھیار بنایا جائے گا۔
یہ ماننے کی ہر وجہ ہے کہ ہندوتوا کے ہجوم کو ہندی زبان کو فروغ دینے کے نام پر کسی کے بھی پیچھے جانے کا ایک اور موقع ملے گا۔ یہ مان کر خوش ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے کہ شاہ کا بیان محض ایک انتخابی چال ہے جو پولرائزیشن کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے بعد خاموشی سے غائب ہو جائے گا۔ اس بار بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تحریک کو یقینی بنانے کا بدنیتی پر مبنی ارادہ ہے۔ سنگھ پریوار کے ‘ہندی-ہندو-ہندوستان’ کے منتر کے ایک حصے کے طور پر، ہندی بی جے پی کے ووٹ کو مضبوط کرنے کا اگلا بہانہ بن سکتی ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر