گجرات سے ایم ایل اے جگنیش میوانی کو وزیر اعظم مودی کی تنقید کرنے والے ایک ٹوئٹ سے متعلق معاملے میں ضمانت ملنے کے فوراً بعد آسام پولیس کی ایک خاتون ملازم سے مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: آسام کی سیشن کورٹ کے جج نے جمعہ کو جگنیش میوانی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کو ریاست میں پولیس کی زیادتیوں کو روکنے کے لیے ان کے فیصلے پر پی آئی ایل کے طور پرغور کرنا چاہیے۔
آسام پولیس نے گجرات سے ایم ایل اے میوانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کرنے والے ایک ٹوئٹ سے متعلق معاملےمیں ضمانت ملنے کے فوراً بعد ایک خاتون پولیس اہلکار سے مبینہ طور پرچھیڑ چھاڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بارپیٹا کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ مکل چیتیا نے میوانی کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں 26 اپریل کو پانچ دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا تھا۔
اس کے بعد میوانی نے 28 اپریل کو نئی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت کے بعد انہیں ضمانت مل گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی باشعور شخص دو مرد پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں کسی خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ریکارڈ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ ملزم جگنیش میوانی پاگل ہے۔
جج اپریش چکرورتی نے یہ بھی کہا کہ قانون پولیس حراست میں دیے گئے بیانات کو ثبوت کے طور پر ماننے کی منظوری نہیں دیتا۔
بارپیٹا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اپریش چکرورتی نے ضمانت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال میں ہوئے پولیس انکاؤنٹر کا حوالہ دیتے ہوئے گوہاٹی ہائی کورٹ سے گزارش کی کہ وہ ریاستی پولیس فورس کو اپنی اصلاح کرنے کی ہدایت دیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئےمیوانی کے وکیل انگشمن بورا نے کہا،انہیں 1000 روپے کے ذاتی مچلکے پر ضمانت دی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک من گھڑت مقدمہ تھا۔
بورا نے کہا، سیشن کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ ریاست کے تمام تھانوں کو بھیجا جانا چاہیے تاکہ ملزم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے دوران پولیس اس سفر کو الکٹرانک طریقے سے ریکارڈ کر سکے۔
میوانی کے وکیل نے کہا کہ انہیں پہلے معاملے سے متعلق رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے واپس کوکراجھر لے جایا جا سکتا ہے اور پھر رہا کیا جا سکتا ہے۔ بورا نے کہا کہ اس میں ایک دن کا وقت لگ سکتا ہے۔
بتا دیں کہ پہلے کیس میں ضمانت ملنے کے بعد میوانی کو 25 اپریل کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
میوانی نے دوبارہ گرفتاری کے فوراً بعد کہا تھا، یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سازش ہے۔ انہوں نے یہ کام میری شبیہ کو خراب کرنے کے لیے کیا ہے۔ وہ یہ کام منظم طریقے سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ روہت ویمولا، چندر شیکھر آزاد کے ساتھ بھی کیا اور اب وہ مجھے نشانہ بنا رہے ہیں۔
دوسرا معاملہ
میوانی کے خلاف درج دوسرا مقدمہ کوکراجھار پولیس اسٹیشن میں تعینات ایک خاتون سب انسپکٹر کی شکایت پر مبنی ہے، جس نے الزام لگایا کہ گجرات کے ایم ایل اے میوانی نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔
میوانی کے وکیل بورا نے اپنے مؤکل کی دوبارہ گرفتاری پر دی وائر کو بتایا، اس ایف آئی آر کا کوئی ذکر تک نہیں تھا، کوکراجھار پولیس 24 اپریل کی شام تک ٹرائل کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کر رہی تھی لیکن ضمانت ملنے کے بعد میں اس نئے معاملے کا ذکر کیا گیا اور کوکراجھار کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے ریمانڈ پر بھیج دیا۔
میوانی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 294 (کسی بھی عوامی جگہ پر فحش حرکت کرنا)، 323 (جان بوجھ کر کسی بھی شخص کو ارادے کے ساتھ تکلیف پہنچانا)، 353 (سرکاری ملازم کو اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے روکنے کے لیے حملہ کرنا) اور 354 (عورت کی ہتک کرنے کے ارادے سےحملہ کرنا) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
دی وائر کو ملیایف آئی آر کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ کوکراجھار پولیس اسٹیشن کی ایک خاتون پولیس اہلکار نے 21 اپریل کو بارپیٹا روڈ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کوکراجھار کیس کے ملزم جگنیش میوانی کو سرکاری گاڑی سے گوہاٹی ایئرپورٹ سے لے کوکراجھار جا رہی تھیں۔ اس دوران دو دیگر مرد پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔
شکایت میں کہا گیا ہے، راستے میں بارپیٹا ضلع کے سمل گڑی پوائنٹ کو پار کرنے کے بعد دوپہرقریب 1.30 بجے گرفتار ملزم نےمجھے قابل اعتراض لفظ کہے۔ جب میں نے ان سے اچھا برتاؤ کرنے کو کہا تو انہوں نے مزید گالی گلوچ کی۔ انہوں نے میری طرف انگلی اٹھائی اور مجھے ڈرانے کی کوشش کی اور زبردستی مجھے اپنی سیٹ پر دھکیل دیا۔ اس طرح اس نے ایک سرکاری ملازم ہونے کے میرےقانونی فرض کی ادائیگی کے دوران مجھ پر حملہ کیا اور دھکا دیتے ہوئے مجھے نامناسب طریقے سے چھو کر میری ہتک کی۔
خاتون پولیس اہلکار نے اپنی شکایت میں کہا کہ حملہ کے وقت ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سرجیت سنگھ پنیسر اور ٹی ایس آئی موتی بسومتاری بھی گاڑی میں موجود تھے۔
کوکراجھار اور بارپیٹا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ تھوبے پرتیک وجے کمار (آئی پی ایس) اور امیتابھ سنہا (آسام پولیس سروس) ہیں۔
پہلا معاملہ
گجرات کے وڈگام اسمبلی حلقہ سے آزاد ایم ایل اے میوانی کو سب سے پہلے 20 اپریل کی رات کو کوکراجھار کی پولیس ٹیم نے گجرات سے حراست میں لیا تھا۔ انہیں بی جے پی لیڈر کی شکایت پر حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کو لے کر الزام لگایا گیا تھا کہ میوانی نے دو دن پہلے وزیر اعظم مودی کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا تھا، جو دو برادریوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے والا تھا۔
آسام کی خودمختار بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل کے بی جے پی کے ورکنگ ممبر انوپ کمار ڈے نے مبینہ طور پر پولیس میں شکایت درج کرائی کہ انہوں نے میوانی کا ایک ٹوئٹ دیکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی گوڈسے کو بھگوان کی طرح پوجتے ہیں۔
انہوں نے مودی سے ہمت نگر، کھمبھات اور ویراول جیسے علاقوں میں لوگوں سے امن و امان اور ہم آہنگی کی اپیل کرنے کو کہا، جہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔
بتادیں کہ میوانی کی یکے بعد دیگرےگرفتاری کو گجرات اسمبلی انتخابات سے قبل اپوزیشن کی آواز کو خاموش کرانے کی مقتدرہ بی جے پی کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
میوانی کی ضمانت کے بعد چدمبرم نے آسام کے وزیر اعلیٰ کو نشانہ بنایا
کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی کے خلاف ‘جھوٹی ایف آئی آر’ درج کرانے کے سلسلے میں آسام پولیس کو ریاست کی عدالت کی سرزنش کے بعد سنیچر کو چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
چدمبرم نے پوچھا کہ کیا چیف منسٹر سی بی آئی کو یہ پتہ لگانے کی ذمہ داری دیں گے کہ کس ‘پاگل شخص’ نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی؟
سابق مرکزی وزیر داخلہ نے سلسلہ وارٹوئٹ میں کہا کہ عدالت نے پایا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میوانی ایک پاگل شخص ہے۔
انہوں نے لکھا، اگر میوانی پاگل نہیں ہیں اور پھر بھی ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی تو کوئی تو پاگل ہے؟
چدمبرم نے پوچھا کہ کیا آسام کے وزیر اعلیٰ اس کیس کو سی بی آئی کے حوالے کریں گے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ میوانی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے والا پاگل کون تھا؟
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں