وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق ایک ٹوئٹ کی وجہ سے گرفتار کیے جانے کے بعد رہا کیے گئے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے کہا کہ ان کے خلاف درج معاملے گجرات اسمبلی انتخابات سے پہلے انہیں ‘بدنام’ کرنے کی ‘ منصوبہ بند سازش’ تھی۔ انہوں نے اسے ’56 انچ کی بزدلانہ کارروائی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے پیچھے پی ایم او میں بیٹھے کچھ ‘گوڈسے بھکت’ تھے۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق ایک ٹوئٹ کی وجہ سے آسام پولیس کے ذریعےگرفتار کیے گئے دلت رہنما اورگجرات کے آزاد ایم ایل اے جگنیش میوانی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ سوموارکو اپنی رہائی کے دو دن بعد انہوں نے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف درج معاملے گجرات اسمبلی انتخابات سے قبل انہیں ‘برباد اور بدنام کرنے’ کی ‘ منصوبہ بند سازش’ کا حصہ تھی۔
انہوں نے اسے ’56 انچ کی بزدلانہ کارروائی’ قرار دیا۔ انہوں نے راجدھانی دہلی واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں نامہ نگاروں سے کہا، پی ایم او میں بیٹھے کچھ ‘گوڈسے بھکت‘ میری گرفتاری کے پیچھے تھے۔
میوانی نے اعلان کیا کہ وہ سڑکوں پر اتریں گے اور 1 جون کو متعدد ایشو پر ‘گجرات بند’ کو یقینی بنائیں گے، جن میں 22 اگزام پیپر لیک کرنے والوں، مندرا بندرگاہ سے 1.75 لاکھ کروڑ روپے کی منشیات کی برآمدگی کے لیے ذمہ دار لوگوں پر کارروائی کی مانگ کے ساتھ، اونا میں دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف درج تمام مقدمات کوواپس لینے کے لیے دباؤ بنایا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ’56 انچ کےسینے’ والے بیان کا استعمال کرتے ہوئےان پر بالواسطہ حملہ کرتے ہوئے میوانی نے صحافیوں کو بتایا، میری گرفتاری 56 انچ کی بزدلانہ کارروائی ہے اور اس نے گجرات کے وقار کو مجروح کیا ہے۔
کانگریس کو حمایت دینے والے وڈگام سے آزاد ایم ایل اے میوانی نے کہا، آسام پولیس کے ذریعے میری گرفتاری ایک منصوبہ بند سازش تھی۔ یہ ایک ایم ایل اے کے پروٹوکول اور ضابطے کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
جگنیش میوانی کو آسام پولیس 19 اپریل کو گجرات سے گرفتار کر کے شمال مشرقی ریاست آسام لائی تھی۔ آسام پولیس نے میوانی کے خلاف یہ کارروائی اس وقت کی جب انہوں نے وزیر اعظم مودی کے بارے میں ایک مبینہ ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ وزیر اعظم مودی ‘گوڈسے کو بھگوان مانتے ہیں’۔
آسام پولیس نے گجرات سے ایم ایل اے میوانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنانے والے ایک ٹوئٹ سے متعلق ایک معاملے میں سوموار (25 اپریل) کو ضمانت ملنے کے فوراً بعد ایک خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔
بارپیٹا کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ مکل چیتیا نے میوانی کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں 26 اپریل کو پانچ دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد میوانی نے 28 اپریل کو نئی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت کے بعد انہیں ضمانت مل گئی۔
آسام میں بارپیٹا ڈسٹرکٹ جج نے 29 اپریل کو میوانی کو ضمانت دے دی تھی اور مبینہ حملہ کے معاملے میں ‘جھوٹی ایف آئی آر’ درج کرنے پر آسام پولیس کی سرزنش کی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ،کوئی بھی سمجھدار شخص دو مرد پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں کسی خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ریکارڈ میں ایسا کچھ بھی درج نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ ملزم جگنیش میوانی پاگل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، جنوبی ہند کی فلم ‘پشپا: دی رائز’ کے مشہور ڈائیلاگ کا حوالہ دیتے ہوئے ایم ایل اے نے کہا کہ وہ اس طرح کے دباؤ کے آگے جھکیں گے نہیں کیونکہ وہ ‘فائر’ ہیں نہ کہ ‘فلاور’۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ حکومت نے ان کے اور ان کی ٹیم کےپاس سے ضبط کیے گئے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سمیت الکٹرانک آلات میں ‘کچھ لگایا’ دیا ہو۔
میوانی نے کہا کہ انہوں نے صرف ٹوئٹ کر کے وزیر اعظم سے گجرات میں امن اور ہم آہنگی کی اپیل کرنے کو کہا تھا، ایک ایسی ریاست جسے وہ ‘مہاتما (گاندھی) کا مندر’ مانتے ہیں۔
انہوں نے کہا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ امن اور ہم آہنگی کی اپیل نہیں کرنا چاہتے؟ میں بی جے پی کے لیڈروں کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ گوڈسے بھکت نہیں ہیں تو وہ لال قلعہ سے گوڈسے مردہ باد کہیں۔
انہوں نے کہا، یہ میرا الزام ہے کہ یہ وزیراعظم کے دفتر کی طرف سےرچی گئی ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ گجرات میں جلد الیکشن ہونے والے ہیں اور یہ مجھے برباد کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اب تک انہوں نے میرے ضبط شدہ کمپیوٹر میں کچھ ڈال دیا ہوگا۔
میوانی نے یہ بھی پوچھا کہ کیا بی جے پی یا وزیر اعظم انہیں صرف ایک ٹوئٹ کے لیے گرفتار کرنے میں دلچسپی لے سکتے ہیں، جیسے کہ وہ دہشت گرد تھے۔
انہوں نے کہا، ایسی چیزیں ہماری جمہوریت کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خاتون پولیس افسر پر ان کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے ‘دباؤ’ ڈالا گیا تھا، لیکن وہ اس کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔
میوانی نے اعلان کیا کہ انہیں ہراساں کرنے کی کوشش ناکام رہی۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے اس دعوے پر کہ انہیں گرفتاری کے بارے میں علم نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ کو بھی میری گرفتاری کا علم نہ ہو۔ انہوں نے اپنے سیاسی آقاؤں کے کہنے پر میرے خلاف جرائم درج کروائے ۔
میوانی کے مطابق، یہ شرمناک ہے کہ عدلیہ کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آسام پولیس اسٹیٹ بن رہا ہے۔ آئندہ اقدام کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خلاف درج تمام مقدمات کو چیلنج کریں گے۔
اپنے مطالبات کی فہرست رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح ان کی تحریک کے دوران پاٹیدار برادری کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لیے گئے تھے، اسی طرح اونا میں تمام دلتوں اور میرے وڈگام اسمبلی حلقہ میں اقلیتوں کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کو واپس لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ، پیپر لیک معاملے کی تحقیقات خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے کرائی جانی چاہیے اور مندرا بندرگاہ سے 1.75 لاکھ کروڑ روپے کی منشیات ملنے کے معاملے میں گوتم اڈانی کی تحقیقات کی جائے۔
گجرات کے ایم ایل اے نے کہا کہ گجرات میں 22 پیپر لیک ہوئے، مندرا بندرگاہ سے 1.75 لاکھ کروڑ روپے کی منشیات ملی اور ایک دلت خاتون نے ایک موجودہ وزیر کے خلاف ریپ کا الزام لگایا، جس پر گجرات اسمبلی میں بحث ہوئی تھی۔ ان معاملات میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
میوانی نے کہا کہ، اس کے علاوہ ایک دھرم سنسد کے منتظمین کے خلاف ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی، لیکن ایک ٹوئٹ پر ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی اور ایک خاتون کو دوسرا مقدمہ درج کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
میوانی نے کہا، میرا ٹوئٹ سیدھا تھا۔ میں صرف وزیر اعظم سے امن اور ہم آہنگی کی اپیل کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔ یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہ مجھے برباد کرنے کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ مجھے ایف آئی آر کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔ میرے خلاف جو دفعات لگائی گئیں ان کے بارے میں مجھے آگاہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،مجھے اپنے وکیل سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک ایم ایل اے کے طور پر میرے خصوصی حق کی خلاف ورزی کی گئی۔ گجرات قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو میری گرفتاری کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔ شاید مجھے آسام لے جانے کے بعد اور جب میں ان کی حراست میں تھا تب انہیں مطلع کیا گیا تھا۔ اس سے گجرات کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے۔ گجرات حکومت کو بھی شرم آنی چاہیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں