کیا یاسین ملک اپنے اوپر عائد الزامات کے لیے قصوروار ہیں؟ یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ نہیں ہیں، لیکن جو حکومتیں برسوں سے جاری تنازعات کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ ہیں، ان کے پاس اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے اور طریقے ہیں۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے لیڈر یاسین ملک کو گزشتہ دنوں ایک خصوصی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد مودی حکومت کے پیروکاروں نے اس کو ‘مسئلہ کشمیر’ کے خاتمے کی سمت میں ایک بڑا قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
ملک نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے ان کے خلاف لگائے گئے ٹیرر فنڈنگ کے الزام کی مخالفت نہیں کی اور اب ان کی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا امکان نہیں ہے۔ دیگر الزامات کے علاوہ ، ان پر 1990 میں ہندوستانی فضائیہ کے چار جوانوں کے قتل کا مقدمہ بھی درج ہے ۔ گزشتہ سال انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ان کے خلاف قتل کے الزامات طے کیے تھے، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ اگر ان کے خلاف ثبوت اتنے ہی مضبوط تھے تومعاملے کو اس مرحلے تک پہنچنے میں 31 سال کیوں لگ گئے۔
ٹیرر فنڈنگ کے معاملے میں، پراسیکیوٹر نے ان مبہم دعووں کا حوالہ دیتے ہوئے سزائے موت کا مطالبہ کیا کہ ملک وادی سے پنڈتوں کے جبری اخراج کے لیے ذمہ دار تھے۔ ججوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا، لیکن اگر ملک کو 1990 کے قتل کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، تو موجودہ سیاسی ماحول کے پیش نظر ان کی پھانسی پہلے سے طے شدہ نتیجہ ہے۔
جموں و کشمیر کے تئیں موجودہ حکومت کی پالیسی اور رویہ ایسا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے اپنے آپ کویہ یقین دلا دیا ہے کہ وادی میں امن، سلامتی اور استحکام لانے کا یہی واحد راستہ ہے۔
سال 1989-90 میں کشمیر میں شورش شروع ہونے کے بعد نئی دہلی میں آنے والی حکومتوں کے لیے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں تھی، لیکن کوئی بھی وزیر اعظم کبھی اتنااحمق نہیں تھا کہ وہ یہ مان لے کہ سیاست اور حکمرانی کے فن کو الگ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ یقین مسئلہ کشمیر پر نریندر مودی کاانوکھا کنٹری بیوشن ہے۔
بلاشبہ، ان کے پیش رووں میں سے کوئی بھی اتنا دلیر یا ایماندار نہیں تھا کہ وہ ملکی سطح پر سمجھدار سیاسی اقدامات کی پیروی کر سکے۔ پاکستان کی سرپرستی میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپوں نے نئی دہلی کو جموں و کشمیر کو بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ کے بجائے ‘سکیورٹی’ مسئلہ کے طور پر پیش کرنے کا ضروری بہانہ فراہم کیا۔ پھر بھی، رائے سینا ہل پر موقع پڑنے پراس لا فائدہ اٹھانے کے لیے کافی لچک اور ذہانت موجود تھی — اور اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ نے ایسا کیابھی تھا۔سال 2000 میں حزب المجاہدین کے ساتھ جنگ بندی اور 2004-2007 کی بیک چینل بات چیت اس کی مثالیں ہیں۔
اگرچہ دونوں وزرائے اعظم نے، بالخصوص گھریلو محاذ پر بات چیت اوروابستگی کی بنیادی ضرورت کو تو تسلیم کیا، لیکن دونوں کے ہی پاس نہ تو سیاسی طاقت تھی اور نہ ہی اعتماد تھا کہ وہ عام کشمیریوں کی شکایات اور خدشات کو دور کرنے کے لیے آگے بڑھ سکیں۔
سال 2015 میں، جب بی جے پی نے جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے مفتی محمد سعید کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی، یہاں تک کہ ‘اتحاد کے ایجنڈے’ پر دستخط بھی کیے، تو ایسا لگا کہ نریندر مودی نے بھی اپنے پیش روؤں کے راستے کو ہی اپنا یا ہے– ریاست کے مسائل کی سیاسی جہت کو پہچاننے کا۔
لیکن پہلے دن سے ہی یہ واضح ہو گیا کہ مودی کو صرف اور وقت چاہیے تھا۔ 2018 میں مرکزی راج نافذ کیا گیا تھا اور 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو تقسیم کر تے ہوئے انڈین یونین کی ایک ریاست کے طور پراس کو ملی خود مختاری اور حیثیت چھین لی گئی۔
یہ فیصلہ ریاست کی سیاست اور حکمرانی کا باقاعدہ خاتمہ تھا۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں – جو ان تمام سالوں میں ہندوستانی حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں – کو بدنام کیا گیا اور ان کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیاگیا۔ 2020 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن منتخب عہدیداروں کو اپنے گھرچھوڑنے تک کی بھی آزادی نہیں ہے۔
میڈیا، انسانی حقوق کے محافظوں اور بار ایسوسی ایشن جیسی سول سوسائٹی کی تنظیموں پرغیرمعمولی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ دہشت گردی کی ایف آئی آر اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یاسین ملک کے خلاف معاملے کو ‘مین سٹریم’ کی سیاست اور کسی بھی قسم کی پرامن سیاسی سرگرمیوں کی اس طرح کی مجرمانہ کارروائی کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جے کے ایل ایف اب بیتے دنوں کی بات ہے، اوریہی اس کے لیڈر بھی حال ہے۔ وہ کسی فوج کو کوئی حکم نہیں دیتا، لیکن وہ جن عزائم کی نمائندگی کرتے ہیں یا آواز بلند کرتے ہیں وہ ان کی قید یا موت کی سزا سے خاموش نہیں ہوں گے۔ کیا وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے لیے قصوروارہیں؟ یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ نہیں ہیں، لیکن جو حکومتیں برسوں سے جاری تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنےکے لیے سنجیدہ ہیں، ان کے پاس اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے اور طریقے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی حکومت کو نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالم (این ایس سی این)، جس نے دہائیوں سے ہندوستانی ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی، کے ساتھ لمبی بات چیت کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔
کوئی بھی سنجیدگی سے یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ این ایس سی این کے رہنما، جو 2015 کے امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جب نریندر مودی کے ساتھ اسی کمرے میں بیٹھے تھے، تب ان کے ہاتھ ہندوستانی فوجیوں کے خون سے رنگے نہیں تھے۔ ایسا ہی تھا اور غیر قانونی ہلاکتوں کے لیےہندوستانی حکومت بھی ذمہ دارتھی۔ اس کے باوجود دونوں فریقوں نے بغیر کسی بڑی اخلاقی ناراضگی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
بہر حال، سچائی یہی ہے کہ ‘کشمیر کی شورش آج زیادہ مہلک ہوتی جا رہی ہے’ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہندوستانی حکومت علیحدگی پسندوں سمیت تمام سیاسی شخصیات سے بات چیت شروع کر سکتی ہے –ان کے ساتھ بھی، جو کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔
تاہم، مودی حکومت نےکشمیر میں ‘ناگالینڈ’ کی حکمت عملی پر عمل کرنے کے بجائے ان رہنماؤں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، جنہیں وہ ناقابل قبول سمجھتی ہے۔ حریت کے بارے میں بھول جائیے، اب اس کے دشمنوں کی فہرست میں محبوبہ مفتی اور وحید پارہ جیسے پی ڈی پی لیڈروں کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس کے لیڈر بھی شامل ہیں۔ حکومت ان کی سیاسی معنویت کو کم کرنے کے لیے بدعنوانی سے لے کر دہشت گردی کے الزامات تک جا چکی ہے۔
مودی حکومت براہ راست مرکزی کنٹرول کے ذریعے تحریر شدہ جبر اور انتخابی ہیرا پھیری کی سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اب یہاں جمہوری سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ زمینی تشدد،اشتعال اور ‘ہندوستان’ کے درمیان کوئی سیاسی حفاظتی والو نہیں بچا ہے۔ یقیناً یہ کسی بھی طرح سے امن یا خوشحالی کا راستہ نہیں ہے اور شاید مودی کو اس بات کا علم ہے۔ تاہم، ان کے لیے باقی ہندوستان میں ان کی ‘مضبوط’ حکمت عملی کا مظاہرہ ہی معنی رکھتا ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر