خبریں

بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ہیٹ اسپیچ  کے لیے ایف آئی آر کی درخواست والی عرضی خارج

دہلی ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ نفرت انگیز تقریر یعنی ہیٹ اسپیچ کے لیے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے سلسلے میں سی پی آئی (ایم) رہنما برندا کرات اور کے ایم تیواری کی طرف سے دائر ایک عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ دونوں نے لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی تھی، جس کے نتیجے میں دہلی میں دو مختلف احتجاجی مقامات پر فائرنگ کے تین واقعات پیش آئے۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ نفرت انگیز تقریر (ہیٹ اسپیچ)کے لیے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما کے خلاف ایف آئی آر کے درج کرنے  کے سلسلے میں برندا کرات اور کے ایم تیواری کی عرضی کو سوموار کو خارج کردیا۔

عرضی گزاروں نے معاملہ درج کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کے ہدایت دینے سے انکار کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

یہ فیصلہ جسٹس چندر دھاری سنگھ نے سنایا، جنہوں نے 25 مارچ کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ وشال پاہوجہ نے 26 اگست 2021 کو ایف آئی آر درج کرنے کی عرضی کو اس بنیاد پر خارج کر دیا تھاکہ یہ معاملہ ٹکنے لائق نہیں ہے، کیونکہ مجاز اتھارٹی، مرکزی حکومت سے مطلوبہ منظوری نہیں ملی۔

جج نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے درخواست گزاروں کی درخواست پر درست فیصلہ کیا تھا اور قانون کے تحت متبادل تدبیرکی موجودگی کے پیش نظر ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا کوئی کیس نہیں بنتا ہے۔

جج نے کہا کہ دہلی پولیس نے اس معاملے میں ابتدائی تفتیش کی تھی اور ٹرائل کورٹ کو بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر کوئی قابل دست اندازی جرم کا معاملہ نہیں بنتا ہے  اور ٹرائل کورٹ کو کسی بھی انکوائری کا حکم دینے کے لیے حقائق اور شواہد کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا، جو بغیر قانونی منظوری کے قابل قبول نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ منظوری کی غیر موجودگی میں نچلی عدالت نے درخواست گزاروں کی درخواست پر مناسب فیصلہ لیا کہ اس پر غور کیا جائے یا نہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا، نچلی عدالت کسی بھی ایسے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے یا تفتیش کا حکم نہیں دے سکتی،جہاں سی آر پی سی کی دفعہ 156(3) کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے  جرم کا نوٹس لینے سے پہلے منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہائی کورٹ نے کہا، ایک بار جب تفتیشی ایجنسی اپنے شروعاتی جانچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ابتدائی طور پر کوئی قابل دست اندازی جرم نہیں بنتا ہے، تو ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کو تحقیقات کی ہدایت دینے یا ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اپنی صوابدید کا استعمال کرنا چاہیے۔

ہائی کورٹ نے 66 صفحات کے فیصلے میں کہا، تاہم، جیسا کہ پہلے کہا گیا تھاکہ کسی بھی انکوائری کا حکم دینے کے مقصدسے ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کو فوری طور پر معاملے میں اپنے سامنے حقائق، شواہد کا نوٹس لینا ہوگا، جو قانونی منظوری کے بغیر قابل قبول نہیں ہے۔

بنچ نے کہا کہ ‘باقاعدگی سے’ نفرت پھیلانے والےبیانات سمیت بعض جرائم کی  انکوائری کا حکم دینے سے بچنے کے لیے ‘صوابدید کےماتحت ہونےکےباوجودتفتیش کی ایک اضافی پرت’ منظوری کے ذریعے کوڈ کی دفعہ 196(3)کے تحت فراہم کی گئی ہے۔

بنچ نے کہا کہ اگر دفعہ 295اے، 153اے اور 505 کے تحت تحقیقات کے حکم دیے جائیں تو ایسی صورت حال پیدا ہو گی، جہاں ملک میں ہزاروں ایف آئی آر سیاسی مفاد کے لیےدرج کرائی جائیں گی۔ یہ نہ صرف اس عمل کا غلط استعمال ہوگا بلکہ فوجداری نظام انصاف کے بوجھ میں اوربھی اضافہ ہوگا۔

عرضی گزاروں نے ہائی کورٹ کے سامنے دعویٰ کیا کہ موجودہ معاملے میں دونوں رہنماؤں کے خلاف قابلِ دست اندازی  جرم  کا معاملہ بنتا ہے اور ان کے خلاف دہلی کے شاہین باغ علاقے میں سی اے اے مخالف مظاہرے کے سلسلے میں ان کی مبینہ نفرت انگیز تقاریر کے لیے  ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے اور وہ صرف پولیس سے معاملے کی تفتیش کے لیے کہہ رہے ہیں۔

دہلی پولیس نے ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے حکم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے درست کہا ہے کہ اس کے پاس اس معاملے سے نمٹنے کا اختیار نہیں ہے۔

اپنی دلیل کی حمایت میں دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی جج یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس اختیار نہیں ہے، تو اسے میرٹ پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے اور یہ صحیح طریقہ ہے۔

درخواست گزاروں نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا تھا کہ، ٹھاکر اور ورما نے لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں دہلی میں دو مختلف احتجاجی مقامات پر فائرنگ کے تین واقعات پیش آئے۔

انہوں نے ذکر کیا تھا کہ یہاں رٹھالا کی ریلی میں ٹھاکر نے 27 جنوری 2020 کو بھیڑ کو اکسانے کے لیے ‘غداروں کو گولی مارو’ جیسا اشتعال انگیز نعرہ لگایا تھا۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا تھاکہ ورما نے 28 جنوری 2020 کو شاہین باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تبصرہ کیا تھا۔

دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے جنوری 2020 میں انوراگ ٹھاکر کو ‘دیش کے غداروں کو…’ کے نعرے کے ساتھ بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے جواب میں بھیڑ نے کئی بار’گولی مارو سالوں کو’ کو دہرایا تھا۔

دوسری طرف پرویش ورما نے شاہین باغ کے مظاہرین کو ‘ریپسٹ اور قاتل’ کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شاہین باغ کے مظاہرین آپ کے گھروں میں گھس سکتے ہیں اور آپ کی بہن بیٹیوں کاریپ کر سکتے ہیں۔

بی جے پی ایم پی  پرویش ورما نے کہا تھا کہ آج وقت  ہے، آج اگر دہلی کے لوگ جاگ جا ئیں  گے تو اچھا رہےگا۔ وہ تب تک محفوظ  محسوس کریں گے جب تک ملک کے وزیر اعظم مودی جی ہیں۔ اس سے پہلے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ بٹن اتنے غصے سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے ۔

ورما نے کہا تھا، دہلی کے لوگ جانتے ہیں کہ کشمیر میں چند سال پہلے جو آگ لگی تھی، اور کشمیری پنڈتوں کی ماؤں بہنوں کی عصمت دری کی گئی تھی، وہ آگ یوپی میں، حیدرآباد میں، کیرالہ میں لگائی گئی ۔ آج وہ آگ دہلی کے ایک کونے (شاہین باغ) میں لگائی گئی ہے… وہ آگ دہلی کے گھروں میں کبھی بھی پہنچ سکتی ہے، یہ ہمارے گھروں تک پہنچ سکتی ہے۔ دہلی کے لوگوں کو اپنے فیصلے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

ہیٹ اسپیچ  پر ہائی کورٹ کا تبصرہ

تاہم، دہلی ہائی کورٹ نے نفرت انگیز تقریر یا ہیٹ اسپیچ پراس وقت تبصرہ کیاجب یہ خصوصی طور پر منتخب نمائندوں کا معاملہ ہے۔

عدالت نے کہا،جو لوگ عوامی لیڈر ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، انہیں پوری  ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ برتاؤ کرنا چاہیے۔

منتخب قائدین کو ملک کے لئے رول ماڈل قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ،قائدین کے لیے ایسی حرکتوں یا تقریروں میں شامل ہونامناسب نہیں ہے جس سے برادریوں کے درمیان دراڑ پڑتی ہو، تناؤ پیدا ہوتا ہو اور سماجی تانے بانے میں خلل پڑتا ہو۔

عدالت نے مزید کہا کہ ہیٹ اسپیچ کسی مخصوص سماجی گروپ کی رکنیت کی بنیاد پر افراد کوحاشیہ پر ڈالنے  کا کام کرتی ہیں۔

عدالت نے کہا،نفرت پھیلانے والے بیانات کو ان کی نفسیات کو نفسیاتی نقصان پہنچانے کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خوف پیدا ہوتا ہے، ہیٹ اسپیچ ٹارگٹ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا نقطہ آغاز ہیں، جو امتیازی سلوک سے لے کر بائیکاٹ، ملک بدری اور یہاں تک کہ نسل کشی تک ہو سکتی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کسی مخصوص کمیونٹی تک محدود نہیں ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کے نقل مکانی  کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کے نتیجے میں آبادیاتی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)