سابق نوکر شاہوں کے کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ نے ملک کے چیف جسٹس کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ مسئلہ اب صرف مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کی ‘زیادتیوں’ کا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہے، قانونی کارروائی اور’قصوروار ثابت نہ ہونے تک بے قصور ماننے’کے نظریہ کو بدلا جا رہا ہے۔
نئی دہلی: سابق نوکرشاہوں کے ایک گروپ نے منگل کو چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمنا کو خط لکھ کرکہا ہےکہ وہ ‘بلڈوزر کے ذریعے کیے جارہےانصاف ‘ کے معاملے میں مداخلت کریں اور اس قواعد کو ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ چلن اب کئی ریاستوں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ (سی سی جی) کے 90 سابق سرکاری افسران نے سی جے آئی کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر محمد پر بی جے پی کے ترجمانوں کے تبصروں کے خلاف مظاہروں کے بعد اتر پردیش میں ‘غیر قانونی حراست، بلڈوزر کے ذریعے لوگوں کےمکان گرانے اورمظاہرین پر پولیس تشدد کاسپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے خط میں کہا، (اتر پردیش میں) توڑ پھوڑ کی مہم اور سیاسی مقاصد کے لیےمیونسپل اور سول قوانین کا غلط استعمال انتظامیہ اور پولیس کے نظام کو اکثریت کے جبر کے آلے میں تبدیل کرنے کی ایک بڑی پالیسی کا صرف ایک حصہ ہے۔
سابق سرکاری عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ کسی بھی احتجاج کو روکنے کے لیے قومی سلامتی ایکٹ 1980 اور اتر پردیش گینگسٹرس اینڈ اینٹی سوشل ایکٹیوٹی (روک تھام) ایکٹ 1986 کو لاگو کرنے کے لیے ‘واضح ہدایات’ موجود ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ،اس پالیسی کو حکومت کی اوپری سطح سے منظوری حاصل ہے اور جبکہ اختیارات کے خود مختار اور بے جا استعمال کے لیے مقامی سطح کے اہلکار اور پولیس اہلکاربلاشبہ جوابدہ ہوتے ہیں، اس لیے اصل قصور سیاسی ایگزیکٹو کے اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔یہ آئینی حکمرانی کے ڈھانچے کی وہ بدعنوانی ہے جس کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ آگے آئے اور اس کے مزید پھیلنے سے پہلے اس کے خلاف کارروائی کرے۔
مزید کہا گیا ہے کہ ،اس سے بھی زیادہ تشویشناک ‘بلڈوزر جسٹس’ کا آئیڈیا ہے، جس کے تحت جو شہری قانونی طریقے سے احتجاج کرنے یا حکومت کی تنقید کرنے یا قانونی طریقے سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کی جرأت کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔ یہ متعدد ہندوستانی ریاستوں میں اب عام ہوتا جا رہا ہے۔
سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ اب صرف مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کی ‘زیادتیوں’ کا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی، قانونی کارروائی ، ‘جرم ثابت ہونے تک بے قصور مانے جانے ‘ کے خیال کو بدلا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ہم نے پریاگ راج (الہ آباد)، کانپور، سہارنپور اور دیگر شہروں – جن میں بڑی مسلم آبادی ہے – میں دیکھا ہےکہ ایک طرز کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ سیاسی طور پر ہدایت یافتہ ہے۔
سی سی جی نے کہا کہ یہ سزا سے نجات کااحساس اور اکثریتی اقتدار کا غرور ہے جو آئینی اقدار اور اصولوں کو نظر انداز کرنے کی اس مہم کو چلا رہا ہے۔
دستخط کرنے والوں میں سابق مرکزی داخلہ سکریٹری جی کے پلئی، سابق خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ، سابق انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) افسران جولیو ریبیرو، اویناش موہنانے، میکس ویل پریرا اور اے کے سامنت اور سابق سماجی انصاف سکریٹری انیتا اگنی ہوتری شامل ہیں۔
سابق سرکاری ملازمین نے 14 جون 2022 کو سی جے آئی کو بھیجی اس عرضی کی بھی حمایت کی جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سابق ججوں اور ممتاز وکلاء کے ایک گروپ کی طرف سے ان سے اتر پردیش میں حالیہ پیش رفت کا از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔
مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کے خلاف ایک پی آئی ایل جمعیۃ علماء ہند کی جانب سےجسٹس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ کے سامنے دائر کی گئی ہے۔ ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے کہا کہ ،سب کچھ منصفانہ ہونا چاہیےاور حکام کو قانون پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔
بتادیں کہ5 جون کو بی جے پی نے اپنے قومی ترجمان نوپور شرما کو معطل کر دیا تھا اور اپنے دہلی میڈیا کے سربراہ نوین کمار جندل کو پارٹی سےنکال دیا تھا۔ یہ قدم ان کے ریمارکس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سفارتی تنازعہ کے پیش نظر اٹھایا گیا تھا۔
سابق نوکر شاہوں کے دستخط شدہ اس خط میں کہا گیا ہے کہ، ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک کی سب سے بڑی عدلیہ مداخلت کے لیے آگے نہیں آتی تب تک گزشتہ 72 سالوں میں اتنی احتیاط سے تعمیر کی گئی آئینی حکومت کی پوری عمارت گرنے کا خدشہ ہے۔
اس مکمل خط کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں