بی جے پی کے اس دور میں ہر کام مودی کے نام پر ہوتا ہے۔ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اپنے معمول کے فیصلوں کے پیچھے عزت مآب وزیر اعظم کی مؤثر قیادت کو کریڈٹ دیتے ہیں۔ مہاراشٹر کے معاملے میں بی جے پی کیا کہنا چاہتی ہے۔وہ پہلے طے کر لیں کہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کو اعزاز بتا کر دیویندر فڈنویس کی توہین کرنی ہےیا جے پی نڈا کی ؟ کیا یہ نڈا کو تمسخر کا نشانہ بنا نا نہیں ہے کہ وہ کم از کم ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا فیصلہ لینے لگے ہیں؟
مبارک ہو، جے پی نڈا نے فیصلہ لیا ہے! نڈا نے فیصلہ لیا ہے!
ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کس کا تھا؟ بی جے پی صدر جے پی نڈا کا؟ کیا مودی- شاہ ماؤنٹ آبو میں ‘سمر ہالی ڈے’ منا رہے تھے؟
نڈا کا فیصلہ، نڈا کا فیصلہ، اس طرح سےمشتہرکیا جا رہا ہے، جیسے بی جے پی کے قومی صدر نے پہلی بار کوئی فیصلہ لیا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سے پہلے نڈا نے کب کسی کو وزیر اعلیٰ یا نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے؟
کیا دیویندر فڈنویس کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کے پیچھے نڈا کا آزادانہ فیصلہ تھا؟ کیا اس کے پیچھے مودی-شاہ کی ہدایات نہیں ہوں گی؟
بی جے پی کے اس دور میں ہر کام مودی کے نام پر ہوتا ہے۔ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اپنے معمول کے فیصلوں کے پیچھے عزت مآب وزیر اعظم کی مؤثر قیادت اور ہدایات کو کریڈٹ دیتے ہیں۔ مودی کا فیصلہ ہوتا، تب کہا جاتا کہ دیویندر فڈنویس نے بخوشی مودی کافیصلہ قبول کرلیا۔ ان سےیہ کہنے کی سعادت اور خوش قسمتی بھی چھین لی گئی کہ مودی جیسے عظیم لیڈر کے حکم پر وہ کسی دوسری پارٹی کے باغی لیڈر کے نائب بھی بن سکتے ہیں، بس یہ نہیں پوچھیں گے کہ شندے کو وزیر اعلیٰ کیوں بنایا جبکہ بی جے پی کے پاس 106ایم ایل اے تھے۔
میں اس فیصلے کو کسی کی بے عزتی کے طور پر نہیں دیکھتا، لیکن بی جے پی اس معاملے میں کہنا کیا چاہتی ہے۔ بی جے پی پہلے طے کرلے کہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کو اعزاز سمجھ کر دیویندر فڈنویس کی توہین کرنی ہےیا جے پی نڈا کی؟
کیا جے پی نڈا کوتمسخر کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہےکہ وہ کم از کم ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا فیصلہ لینے لگے ہیں؟ کیا بی جے پی یہ کہہ رہی ہے کہ مبارک ہو، جے پی نڈا نے فیصلہ لیا ہے؟
ایک سو چھ ایم ایل اے والی بی جے پی چیف منسٹر کا عہدہ ایک ایسے گٹ کو دیتی ہے، جس کے پاس پچاس ایم ایل اے ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہ ابھی ایک گٹ کی حالت میں ہے۔ یہ گٹ شیو سینا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے ، شیو سینا ہے یا نہیں، فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
لیجسلیٹو پارٹی پارٹی کا حصہ ہوتا ہے، پارٹی نہیں۔ کہیں بی جے پی کے ترجمان اور مودی سرکار کے وزراء یہ بھی نہ کہنے لگ جائیں کہ شندے کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ شندے کا تھا! یہ مودی– شاہ کا نہیں تھا۔
اگر کہتے ہیں کہ حکومت بنانے اور شندے کو وزیر اعلیٰ بنانے کی سطح کا فیصلہ مودی-شاہ کا تھا، تب جے پی نڈا کا بھی ایک طرح سے ‘اُپ مکھیہ منتری کرن’ ہو جاتا ہے۔ بی جے پی نے کسی کی اوقات بتانے کا نیا سیاسی اوزار بنایا ہے، جسے میں ‘اُپ مکھیہ منتری کرن’ کہتا ہوں۔ اس کے تحت یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ جے پی نڈا نہیں لیتے، لیکن نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ جے پی نڈا لیتے ہیں۔
مودی حکومت کے وزراء اور بی جے پی کے ترجمان بتا رہے ہیں کہ دیویندر فڈنویس کتنے عظیم ہیں۔ بی جے پی میں کارکن پارٹی کو آگے فردکو پیچھےرکھتا ہے۔ کیا حلف لینے سے پہلے دیویندر فڈنویس ڈپٹی چیف منسٹر بننے کی خوشی میں لڈو کھا رہے تھے؟ کیا انہیں ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے بی جے پی لیڈر لڈو کھلارہے تھے؟
یہاں غور طلب ہے کہ دیویندر فڈنویس نے یہ قربانی اپنی پارٹی کی کسی نئی قیادت کے لیے نہیں دی ہے۔ ان ایکناتھ شندے کے لیے دی ہے، جن کی پارٹی ابھی طے نہیں ہے۔ گودی میڈیا کس سے بات کر کے جشن منا رہا تھا کہ دیویندر مہاراشٹر کے نریندر ہیں۔ اسے کون فرضی خبروں کی سپلائی کر رہا تھا؟
اب اس چکر میں بی جے پی شندے کو عظیم ترین لیڈرکہنا شروع نہ کردے۔ اس سوال کو دفن ہی نہ کردے کہ دل بدل کے پہلے فائیو سٹار ہوٹل، چارٹرڈ طیارے پر کروڑوں روپے شندے نے اپنی جیب سے دیےیا بی جے پی نے دیے؟ اگر بی جے پی نے دیے تو کیا پارٹی نے اس ہزاروں کروڑ روپے کےفنڈ سے خرچ کیے جو پراسرار الیکٹورل بانڈز کے ذریعے ملے ہیں؟ جن وسائل کے استعمال سے ایکناتھ شندے شیو سینا سے نکلے ہیں ، کیا وہ بھی شندے کی طرح عظیم اور اخلاقیات کے پیکر ہیں؟
مودی حکومت کے وزراء اور بی جے پی کے ترجمان کوئی بھی دلیل دے سکتے ہیں۔ یہ بھی کہنے لگ جائیں گے کہ شندے قوم کے پہلے سپاہی ہیں جنہوں نے دل بدل جیسا قومی فریضہ سرانجام دیا۔ اس لیے ایسی خوش نصیبی کو گنواناٹھیک نہیں ہوگا۔ اس خوش نصیبی کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دیویندر فڈنویس سے کہا جائے کہ آپ شندے کے قدموں میں بیٹھ کر مہاراشٹر کی خدمت کریں اور نائب وزیر اعلیٰ بنیں!
کمال ہے۔ وزیر اعلیٰ بننے کا موقع شندے کو اور عظیم بننے کا موقع دیویندر کو؟
دیویندر فڈنویس بھی یہ مضمون پڑھ کر روتے روتے ہنسنے لگ جائیں گے۔تب پھر عظمت کا یہ احساس دیویندر میں خود سےکیوں نہیں پیدا ہوا؟ خود ہی نڈا جی سے بول دیتے کہ وہ ایکناتھ شندے جیسے عظیم لیڈر کے نائب کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں؟
جو شندے اپنی پارٹی کے نہ ہوئے ان کےسامنے دیویندر کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی بتا رہی ہے کہ دیویندرصرف پارٹی کے ہیں! ان کے اندراور لڈو کھانے کی خواہش ہے ہی نہیں؟ یہ اتنا بڑا فیصلہ ہے تو گودی میڈیا کے اینکرز اور صحافی مایوس کیوں ہوگئے؟
کرکٹ میں کپتانی کا عہدہ چھوڑ کر کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہو جاتا ہے۔اسی ٹیم میں بنا ڈپٹی ہوئے کھیلتا ہے۔ لیکن یہ جے شاہ کی بی سی سی آئی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ امت شاہ کی بی جے پی کا معاملہ ہے۔ جہاں بڑے بڑے فیصلے مودی-شاہ کے اشارے پر لیے جاتے ہیں۔
ایک باہری پارٹی کے لیڈر کے آگے بی جے پی اپنے بڑے لیڈر سے کہتی ہے کہ آپ ان کے نائب بنیں اور بی جے پی کا ترجمان ایسے کہانی سنا رہا ہے جیسے بھگوان رام کے قدموں میں بھرت ہونے کا موقع آ گیا ہے۔
کیا بی جے پی واقعی یہ مانتی ہے کہ لوگوں میں عقل وشعور نہیں ہے؟ وہ وہی مانیں گے جو بی جے پی کہے گی۔ اس کا اپنا کوئی دماغ نہیں ہے۔ جب اور جیسا بی جے پی سوچتی ہے، تب اورویسےعوام سوچتی ہے؟
بی جے پی اس طرح سے کیوں مشتہر کررہی ہے کہ پہلی بار پارٹی کے صدر نے کوئی فیصلہ لیا ہے؟ کیا یہ اپنے صدر کو تمسخر کا نشانہ بنانا نہیں ہےکہ قومی صدر وزیر اعلیٰ یا حکومت بنانے کا تو نہیں لیکن نائب وزیر اعلیٰ کس کو بنانا ہے،اس کا فیصلہ لینے لگے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ دیویندر فڈنویس نے نڈا کی بات مان کر نڈا کو بھی عظیم اور بااثر ہونے کا موقع فراہم کیا ہے کہ اس پارٹی میں قومی صدر کاکہنا بھی مانا جاتا ہے۔ پھرجو بی جے پی کوٹے سے باقی وزیر بنیں گے، ان کے بارے میں کون فیصلہ لے رہا ہے ؟ وہ عظیم ہستی کون ہے جس کی تشہیر نہیں ہو رہی ہے؟
کیا جے پی نڈا نے اس وقت بھی فیصلہ لیا تھا جب آسام میں کانگریس سے آئے ہمنتا بسوا شرما کو نائب وزیر اعلیٰ سے وزیر اعلیٰ بنایا گیا؟ آسام میں تو الیکشن سربانند سونےوال کی قیادت میں جیتا گیا۔ عوام سے نہیں کہاگیا کہ اس بار بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ہمنتا بسوا شرما کو وزیر اعلیٰ بنائیں گے؟
غنیمت ہے کہ آسام میں نڈا نے سونےوال کو نہیں کہا کہ آپ اپنے نائب رہ چکے ہمنتا بسوا شرماکے ڈپٹی بن جائیے؟ سونےوال کو مرکز میں وزیر بنایا گیا۔
ایکناتھ شندے ہمنتا بسوا شرما اور جیوترادتیہ سندھیا سے آگےکے لیڈر ہیں۔ ایکناتھ سے پہلے اپنی پارٹی توڑ کر آنے والے ان لیڈروں نے پہلے بی جے پی میں رہ کر انتظار کیا پھر اقتدار حاصل کیا۔
ہمنتا بسوا شرما کو پانچ سال تک نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنا پڑا۔ جیوترادتیہ سندھیا کو راجیہ سبھا اور مرکز میں وزیر بننے سے پہلے طویل انتظار کرنا پڑا۔ دونوں مودی کی قیادت میں سچے سیوک بن گئے۔ ایکناتھ شندے نے اپنی قیادت میں بی جے پی کوسیوک بنا دیا۔ یہ ان کی سیاسی صلاحیتوں کا کمال ہے۔
ایکناتھ شندے سمجھ گئے ہیں کہ بی جے پی کو اقتدار چاہیے۔ بی جے پی اقتدار کے لیے اخلاقیات کی سیاست نہیں کرتی۔ تو بی جے پی سے اسی بنیاد پر ڈیل کی جا سکتی ہے۔ اپنی شرطوں پر بھی بی جے پی کومنایاجا سکتا ہے۔
اور بی جے پی نے ایکناتھ کی شرائط مان کر ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے کہ آپ پارٹی توڑ کر آئیں، ہم آپ کی حکومت بنائیں گے۔ اپنے لیڈر کو آپ کا نائب بنائیں گے۔ ہم بی جے پی ہیں۔ صرف اپنی حکومت ہی نہیں بناتے ہیں بلکہ دوسروں کی حکومت بھی بناتے ہیں۔ نتیش کمار گٹھ بندھن توڑ کرآئے تو بی جے پی نے انہیں وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایکناتھ شیوسینا کو توڑ کرآئے تو بی جے پی نے انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا۔
بی جے پی کے پاس حکومت بنانے اور چیف منسٹر بنانے کے کئی ماڈل ہیں۔ دیویندر کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کے ساتھ ‘اُپ مکھیہ منتری کرن’ کا ماڈل بھی لانچ ہوگیا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر