انٹرویو: حال ہی میں نوبل امن انعام یافتہ اور فلپائن سے تعلق رکھنے والی صحافی ماریا ریسا کی ویب سائٹ ریپلر کو وہاں کی حکومت نے بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کے ساتھ بات چیت میں ماریہ نے کہا کہ صحافیوں کو لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ آج اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑیں گے تو وہ انھیں ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔
ہونولولو: چند گھنٹے قبل ہی نوبل امن انعام یافتہ اور فلپائن سے تعلق رکھنے والی صحافی ماریا ریسا کی ویب سائٹ ریپلر کو وہاں کی حکومت نے بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا تھا، اس کے باوجود وہ مستقبل کے بارے میں خاصی پرجوش نظر آئیں۔
ایسٹ ویسٹ سینٹر میں زیرو ٹرسٹ ورلڈ میں میڈیا کو درپیش چیلنجز پر اپنے کلیدی خطبے میں ریسا نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی فلپائن حکومت کی طرف سے آزاد میڈیا کے خلاف چھیڑی گئی اس لڑائی میں اس طرح کے نتیجے کے لیے تیار تھے اور وہ اپنا کام جاری رکھیں گی۔
‘اگر آپ کسی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی کو اس حد تک موڑ دیا گیا ہے کہ یہ ٹوٹ گیا ہے، تو کچھ بھی ممکن ہے… اس لیے آپ کو تیار رہنا چاہیے۔’
ریسا 2021 کے نوبل امن انعام کی مشترکہ فاتح ہیں۔ انہیں یہ ایوارڈ پریس کی آزادی کے تحفظ میں ان کی بیش بہا خدمات کے لیے دیا گیا تھا۔
ریسا کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اب بہت سے ممالک میں حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی ہے۔ انہوں نے مرض کی تشخیص کرلی ہے — سوشل میڈیا کا الگورتھم ‘غصے اور نفرت میں لپٹے ہوئے جھوٹ کو حقیقت سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلانے’ میں مدد کرتا ہے۔ یہ آسانی سے ہندوستان پر بھی لاگو ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے کام کرنے کا وہ طریقہ بھی، جو کہ مطلق العنان لیڈروں کی پہچان ہے — نیچے سے اوپر تک لگاتار بڑھتے حملے اور اس کے بعد اوپر سے نیچے تک وار۔
یہ پوچھتے ہوئے کہ فسطائی دنیا میں داخل ہونے میں ابھی کتنا وقت رہ گیا ہے، انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو اس سنگین صورتحال میں بھی فرض کے راستے پر ڈٹے رہنا ہوگا۔
اس کانفرنس میں شرکت کر رہے صحافیوں سے بات چیت کے دوران ریسا نے دی وائر کا ذکرکیا اور کہا کہ وائر اس بات کی مثال ہے کہ ناسازگار ماحول میں میڈیا کو کس طرح سے کام کرنا چاہیے۔ دراصل، انہوں نے اپنے کلیدی خطبے کی شروعات ایک سوال سے کی، جس کا جواب وہ کسی ہندوستانی سےچاہتی تھیں: ‘آپ کیا کریں گے ، اگر حکومت آپ کو بند کرنے کا حکم دیتی ہے۔’
میں نے جواب دیا کہ یہ خدشہ بجا ہے، بالخصوص یہ دیکھتے ہوئے کہ یوٹیوب خوشی خوشی حکومت کے مطالبات کے سامنے جھ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ بحیثیت آڈیو ویژول صحافی مجھے سامعین تک پہنچنے کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنے ہوں گے اور ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ ٹرک پر سوار ہوکر اور مائیک ہاتھ میں لے کر لوگوں کے درمیان جایا جائے اور ان تک ان چیزوں کی رپورٹنگ کی جائے، ان سے وہ کہا جائے جومیں یوٹیوب پر کہتی۔
ان کے سوال کا سیاق و سباق یقینی طور پر صرف خیالی نہیں تھا: انہیں کچھ گھنٹے پہلے ہی ریپلر کو بند کرنے کے حکم کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ لیکن اس کانفرنس میں شرکت کررہےدنیا بھر کے 300 صحافیوں کے لیے ان کا پیغام واضح تھا: آپ کو بدترین صورتحال کے لیے تیاررہنا ہوگا، آپ کو اپنے بدترین حالات کی ریہرسل کرنی ہوگی، آپ کو اسے اپنی یادداشت میں جذب کرنا ہوگا… ذی فہم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے اندر چستی اور صبروتحمل کا ہونا ضروری ہے ، آپ کو اپنے اندرتبدیلی لاتے ہوئے بچے رہنا ہوگا۔
اپنی تقریر کے بعد انہوں نے پروپیگنڈہ، میڈیا میں اعتماد کی کمی جیسے مسئلوں- اور یقینی طور پر ہندوستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بڑھ رہے حملوں جیسے موضوعات پر دی وائر سے بات کرنے کے لیے 10 منٹ کا وقت نکالا۔
ریسا نے کہا کہ سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کی گرفتاریاں ‘افسوسناک’ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب کو اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے، سب کو اس کے بارے میں لکھنا چاہیے۔ اسےزیادہ سے زیادہ سرخیوں میں جگہ ملنی چاہیے۔
اپنے جیل کے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب انھیں گرفتار کیا گیا، لوگ سامنے سے لڑائی کےمیدان میں نہیں آنا چاہتے ہیں… اس کی ایک وجہ ان کے اپنے مفادات ہیں…’ لیکن انھوں نے کہا ‘آپ کو سب کو ساتھ لانا پڑے گا۔ ‘سب کو کھینچ کر ایک جگہ کرنا ہوگا۔’
جھوٹی جانکاریوں کی نشر واشاعت اور جمہوریت پر اس کے مضر اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر ریسا نے اسے انفارمیشن کے سیلاب کے مسئلے کے طور پر دیکھا۔’میرے خیال میں لوگوں کے سامنے (انفارمیشن) کا سیلاب ہے۔ سوشل میڈیا نے ایک حد تک یہ کام سرانجام دیا ہے۔ ماضی میں آپ کو انفارمیشن کہاں سے ملتی تھیں؟ خبر رساں اداروں سے ،جنہیں دراصل ادارتی عمل اور تقسیم کے لیے پیسے خرچ کرنے پڑتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘آج یہ اصل میں جھوٹ کے جنگل کی طرح ہے… تو جب آپ کے سامنے یہ صورتحال ہے… عام لوگ، جن کی نوکری چلی گئی ہو،جو ایک آسان دنیا کے سوا کچھ نہیں چاہتے ہیں، جہاں کوئی اور ان کے لیے ان کی جگہ فیصلے لے سکے… ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے۔ ہندوستان پہلا ملک تھا، انڈونیشیا دوسرا… 2014 کے آس پاس، ایک مضبوط لیڈر کے لیے ایک طرح کی تڑپ تھی اور انڈونیشیا میں سہارتو [انڈونیشیا کے سابق وزیر اعظم] کے داماد پرابوو [سبیانتو جوجوہادیکوسومو، وزیر دفاع] بس جیتتے جیتتے رہ گئے۔ .. یہ وہ وقت تھا جب 2014 میں مودی جیت کرآئے۔
ریسا نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا اداروں کو اپنے قارئین اور ناظرین کی کمیونٹی کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہمیں کمیونٹی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑیں گے تو آپ اسے کھو دیں گے۔ اگر لوگ جدوجہد کرتے ہیں تو اس سے صحافیوں کا کام آسان ہوجاتا ہے۔
ان سے ہوئی بات چیت کے ایک حصے کو ذیل میں پڑھا جا سکتا ہے۔
عارفہ: ماریہ ایک فلپائنی نژاد امریکی صحافی اور رائٹر ہیں، اور ریپلر کی شریک بانی اور سی ای او ہیں۔ انہوں نے اپنے کلیدی خطبے کو ابھی مکمل کیا ہے اور اب میں ان سے جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور موجودہ دور کا سامنا صحافی کیسے کر سکتے ہیں، بالخصوص ہندوستان میں – جس طرح سے صحافیوں پر حملے ہو رہے ہیں، جس طرح سےانسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔
ماریہ، میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کو عدم اعتماد کی صورتحال کیوں محسوس ہوتی ہے؟ کیا اس کے پیچھے دو سالہ کووِڈ وبا کو بھی ذمہ دار مانتی ہیں، جس میں ہم ایک طرح کی الگ تھلگ دنیا میں رہ رہے تھے؟ کیا لگتا ہے کہ اس نے اس عدم اعتماد کو اوربڑھانے کاکام کیا ہے۔
ماریہ: جی ہاں، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کووڈ کو بھی حقیقت میں انفارمیشن کی طرح ہتھیار بنایا گیا…یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ لوگوں کو ماسک پہنے ہوئےیا بے چینی کی سطح کو دیکھتے ہیں…. کووڈ نے دراصل پہلے سے موجود مسئلے کو اوربڑھانے کا کام کیا۔
ہم لوگ زبردست انفارمیشن آپریشن کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ اس کی صرف شروعات ہے۔ میرے خیال میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ… ان پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے غیرارادی طور پر حملہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ نشانہ بناکر کیا جانے والا حملہ ہے۔ اور اس کا مقصد تباہی ہے۔
میرے خیال میں آپ کو یونیسکو کے بگ ڈیٹا کیس اسٹڈی کے بارے میں معلوم ہوگا۔ یہ کافی معلوماتی تھا۔ (انفارمیشن کے) 60 فیصدی کا مقصد ساکھ کو سبوتاژ کرنا ، 40 فیصد کا مقصد آپ کے جذبے کو ختم کرنا ہوتاہے۔ ایسے میں کہہ سکتے ہیں کہ کووڈ نے ایک اور پرت جوڑنے کا کام کیا ہے اور میں کہوں گی کہ یہ ایک وجہ ہے، گویا یہ سو سال میں آنے والا لمحہ ہے۔ [امریکی صدر کے چیف میڈیکل ایڈوائزر] انتھنی فاؤچی نے کہا کہ کووڈ کی وجہ سے یہ سو سال میں ایک بار آنے والا لمحہ ہے، لیکن سیاسی پروپیگنڈے کے اسی نیٹ ورک کا استعمال کووڈ کے پروپیگنڈے کے لیےکیا گیا، نا!
انفارمیشن کی جنگ سے اس کا اصل میں باہمی رشتہ ہے۔
آپ کوکیا لگتا ہے کہ لوگ آمروں کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے بے چین ہیں؟ اس بات پر جو فرمانبردار میڈیا ان سے ماننے کو کہہ رہا ہے۔ کیاآپ کو لگتا ہے، لوگوں نے اپنے طریقے سے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا ہم ان تمام چیزوں کا الزام لوگوں پر لگا سکتے ہیں یا آپ کو لگتا ہے کہ وہ (تاناشاہ) سوشل میڈیا اور اپنے درباری میڈیا کی مدد سے ان کی سوچ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ سوچ کی بات اتنی نہیں ہے… میرے خیال میں لوگ [انفارمیشن کے] سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور کچھ حصوں میں سوشل میڈیا کا کارنامہ ہے۔ ماضی میں آپ کو انفارمیشن کہاں سے ملتی تھیں؟ خبررساں اداروں سے جنہیں اصل میں ادارتی عمل اور تقسیم کے لیے پیسےخرچ کرنے ہوتے ہیں۔
آج یہ اصل میں جھوٹ اگلنے والی نلی کی طرح ہے… تو جب آپ کے سامنے یہ حالات ہیں… عام لوگ جن کی نوکری چلی گئی ہو، جو ایک آسان دنیا کے سوا کچھ نہیں چاہتے، جہاں کوئی اور ان کے بدلے ان کے فیصلے لے سکے… ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میرا مطلب ہےہندوستان پہلا ملک تھا، انڈونیشیا دوسرا… 2014 کے آس پاس، ایک مضبوط لیڈر کے لیے ایک طرح کی تڑپ تھی اور انڈونیشیا میں سہارتو [انڈونیشیا کے سابق وزیر اعظم] کے داماد پرابوو [سبیانتو جوجوہادیکوسومو، وزیر دفاع] بس جیتتے جیتتے رہ گئے.. یہ وہ وقت تھا جب 2014 میں مودی جیت کرآئے۔
تو اس طرح سے دیکھیں تو یہ انسانی مزاج کا مرکب ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اپنی کمیونٹی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ آج اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑیں گے تو آپ اسے کھو دیں گے۔ اور (اگر وہ یہ لڑائی لڑیں گے، تو) ویسے صحافی جو لڑائی جاری رکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے چیزیں تھوڑی آسان ہوجائیں گی۔
آپ نے بڑی دلچسپ بات کہی کہ اگر یہ جنگ حقائق کے لیے لڑی جا رہی ہے- اگر لوگوں کے ذہنوں اور حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے- تب آپ پورے انتخابی عمل اور انتخابی نظام پر کیسے یقین کر سکتے ہیں؟
آپ نہیں کر سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں انتخاب عام انتخابات ہونے میں دو سال سے بھی کم کا عرصہ ہے اور ہم ابھی سے ہی انتخابی حالت میں آگئے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ حقائق اور مین اسٹریم میڈیا کی یہ حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جمہوریت کو کس طرح سے متاثر کر رہی ہے؟
یہ اس کو ہلاک کر رہا ہے، یہ جمہوریت کا قتل کر رہا ہے اور پھر ان لوگوں کو جو اقتدار کے سامنے کھڑے ہونے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔کہہ سکتے ہیں، کہ یہ سیسیفوس اورکاساندراکے میل کی طرح ہے۔ یہ ایک ناممکن سی جنگ ہے، لیکن ہم صحافی کوشش کرنے سے باز کہاں آنے والے ہیں۔اس لیے آپ کو نیک خواہشات۔ میرا مطلب ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حوصلے کی ضرورت ہے۔
میڈیا کے رول کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ ریپلر کی طرح ہی دی وائر ایک چھوٹاسا ادارہ ہے۔ ہم غیر منافع بخش ہیں اور ہم صرف عوام کی مدد اور تعاون سے چل رہے ہیں۔
آپ کی کمیونٹی۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس قسم کا ماڈل واقعی آمروں کو چیلنج کر سکتا ہے، کیونکہ ہم کہیں نہیں ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یقیناً ہم وہاں ہیں اور لوگوں میں مزید جاننے کی، ہمیں سننے اور پڑھنے کی خواہش ہے۔ ہمیں دیکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ہم مین اسٹریم میڈیا کی جسامت اور اس کی رسائی سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم… ساتھ ہی آپ جانتی ہیں، سوشل میڈیا… ان ٹیک پلیٹ فارمز نے اسے ممکن بنایا ہے۔ لیکن ایک وجہ جس کی وجہ سے میں – ہم دو فلپائنی فیکٹ چیکنگ پارٹنرز میں سے ایک ہیں – اس میں ابھی بھی لگی ہوئی ہوں، کیونکہ ان میں ابھی کچھ کرنے کی طاقت ابھی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اوربہتر طریقے سے ساتھ آنے اور زیادہ سیکورٹی کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ ایسا کیسے کرتی ہیں؟
مجھے نہیں پتہ۔ چلیے اس کا پتہ لگاتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں کون سے نئے ماڈل آتے ہیں؟
یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کو ہم نے صرف تین ماہ میں کیا، جو کہ بہت کم وقت تھا۔ ہم نے جو کیا وہ چھ مہینے کا پروجیکٹ تھا۔ لیکن پھرسے، اس آر آئی ایس جے کی طرح،میرے حساب سے رائٹرس انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ہماری اعتماد سازی، جس کی ہمیں ضرورت ہے، کو کافی ٹھیس پہنچانے والی تھی۔
خیر، ہم یہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ ایک بہت ہی مزیدارپہلو ہے۔ ٹھیک ہے، مجھے اس مزیدار پہلو کے ساتھ ختم کرنا چاہیے تھا۔ یہ کافی خوفناک ہے، لیکن یہ ایک تخلیق بھی ہے، لہذا اس طرف ہمیں اپنے دماغ، اپنی صلاحیتوں، اپنی شراکت داریوں کو ساتھ لانا چاہیے اور ایسی چیز بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو ابھی تک وجود میں نہیں ہے۔ ہم ایسا کیسے کرتے ہیں؟
جدت(اختراع) ؟
یہ کسی حد تک اختراعی ہے، لیکن یقینی طور پر، مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگوں سے آئے گا، یہ ہمارے اثر و رسوخ کے دائرے اور ایک ساتھ آنے سے ہوگا۔ ہم یقینی طور پر ایک ساتھ فیس بک پر جا سکتے تھے…. ہے نا! میرا مطلب ہے کہ یہ شراکت داری کا ایک حصہ ہے، ..یوٹیوب دوسرا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو یہ یہ بات پتہ ہے، ہمارے لیے اب یوٹیوب پہلے نمبر پر ہے۔
یوٹیوب اس وقت ہندوستان میں ایک مسئلہ ہے۔ جیسا کہ میں صرف یوٹیوب پر ہوں، کیونکہ ٹی وی کو اقتدار نے خرید لیا ہے۔
ہاں، تقریباً پوری طرح سے…
تو اب وہ یوٹیوب پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ واحد دستیاب میڈیم ہے اور یوٹیوب نے خوشی خوشی گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور حکومت کے مطالبات کے حساب سے کام کر رہا ہے۔
ہاں، تو یہ ایک وہ اسٹوری ہے جو ہم سب کو کرنی چاہیے اور سچ کہوں تو ہم اس بارے میں بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ اہم انفارمیشن ہے۔ اس طرح سے دیکھیں ، تو مجھے لگتا ہے کہ ہم میں بہت کچھ مشترک ہے۔ یہ دوسرا پہلو، میرے خیال میں ہمیں اسے مضبوط کرنا چاہیے۔
آپ نے اس حقیقت پر زور دیا کہ آن لائن حملہ ایک آف لائن حملہ ہے – آپ نے کہا کہ یہ حقیقی دنیا کا حملہ ہے۔ ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں یہ پہلے ہی آن لائن سے آف لائن کی طرف رخ کر چکا ہے۔
قانون کو ہتھیار بنانا!
ایک پالیٹکل جرنلسٹ کے طور پر میں جیل جانے سے بس ایک ٹوئٹ یا ایک آرٹیکل کی دوری پر ہوں۔ یہ حقیقت ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کو اور میرے ادارے کو اتنے دباؤ میں کس طرح سے کام کرنا چاہیے؟ مثال کے طور پر، جب آپ کے کام کا خمیازہ آپ کوحقیقی زندگی میں بھگتنے کی نوبت آ رہی ہو؟
تو، پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو وکیلوں کی ضرورت ہے، جو ان حالات میں آپ کی مدد کریں گے۔ آپ کو اپنی کمیونٹی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آپ محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر، پلان اے کے ساتھ پلان بی اور پلان سی بھی ہونا چاہیے۔ اور آپ کو تقریباً روزانہ اس کا اندازہ لگانا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو حکومت تک بھی پہنچنا چاہیے۔
حکومت تک پہنچنا، جیسے کس طرح؟
آپ کو ان سے بات کرنے اور راستہ نکالنے کی ضرورت ہے… میرے خیال میں یہ اسٹیک ہولڈرزوالا معاملہ ہے۔ کیونکہ جیساکہ میرے لیے،مثال کے طور پرہم مارکوس کو لیں… یہ مارکوس انتظامیہ کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟ میں ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کر پائی ہوں۔ اگر میں مارکوس انتظامیہ کو شک کا فائدہ دیتی ہوں تو کیا میں بیوقوف ہوں؟ کچھ لوگ ہاں کہیں گے، ہاں۔ میں امید کرتی ہوں کہ وہ مجھے جیل میں نہیں ڈالیں گے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، آپ کو ان کے ساتھ بات چیت کرنی ہوگی، تاکہ…. آپ کے پاس بھی طاقت ہے اور ساتھ مل کر تو طاقت ہے ہی۔
آخری دو سوال۔ ایک خاتون صحافیوں کے بارے میں ہے۔ کیا آپ کے پاس ان کے لیے کوئی خاص پیغام ہے، کیوں کہ آپ جانتی ہیں کہ وہ اپنے صنف کی وجہ سے نشانہ بنائی جاتی ہیں، ویسے بھی عام طور پر انہیں اپنے کام کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم ایک پسماندہ کمیونٹی ہیں اور پھر یہ دباؤ ہے، جو ہم پر پڑتا ہے۔ کبھی کبھی اپنی طرح سے کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
جی ہاں، ہمیں ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب ایسے گروہ ہیں جو ہماری مدد کر رہے ہیں۔ اور اس کے لیے ہمیں ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ ٹھیک ہے نا؟ یہ پہلا پیغام ہے۔آپ تنہا نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو اس طرح محسوس کر رہی ہیں، اور اس سے لڑنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن زیادہ تر وقت میں صرف آپ ہی یہ لڑائی اکیلی نہیں لڑ رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی صحافی، انسانی حقوق کا کارکن یا حزب اختلاف کے سیاستدان، خواتین سیاستدان سب پر حملے ہو رہے ہیں۔ وہ یہ جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتے۔ اور اسی لیے ہم اپنے تین ستونوں کی طرف دیکھتے ہیں – ٹکنالوجی، صحافت اور کمیونٹی۔
میں ہمیشہ پریٹو کے اصول پر واپس جاتی ہوں۔ میں اپنا زیادہ تر وقت کہاں گزارتی ہوں؟ اگر ہم ایسی ٹکنالوجی کی تلاش کرسکتے ہیں ، جو مسلسل بڑھتے ہوئے زہر، جھوٹ کے وائرس کو قابو میں رکھے، تو ہم دوبارہ تعمیر کی شروعات کر سکتے ہیں۔
آخری سوال۔ ہندوستان میں دو بہت اہم لوگ ہیں۔ ایک ہیں تیستا سیتلواڑ جو انسانی حقوق کی نامور کارکن ہیں، جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کے ساتھ کام کیا…
ہاں، میں نے یہ دیکھا۔
…جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اور دوسرے ایک سرکردہ فیکٹ چیکر ہیں…
میں نے دیکھا۔
ابھی یہ دونوں جیل میں ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
یہ بہت افسوسناک ہے… ہندوستانی صحافی، اور آپ اس بات کوسمجھیں گی… آپ ان چیزوں کو جانتی ہیں… میں اپنے تجربے سے کہوں گی… جب مجھے گرفتار کیا گیا… صحافی لوگ… لوگ سامنے نہیں آنا چاہتے ہیں۔ یہ کسی حد تک اپنے مفاد کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن آپ سب کو کیسے متحد کر سکتے ہیں؟ آپ کو سب سے زیادہ بات کرنی ہوگی۔ آپ لوگوں کو ایک ساتھ لاتے ہیں۔ یہی وہ محاذ ہے جہاں سماجی کارکن صحافیوں سے بہتر ہیں۔ ہم اس محاذ پر خراب ہیں۔ ‘کیونکہ ہم سوچتے ہیں کہ اسٹوری کو ہی کہانی کہنی چاہیے۔ ٹھیک کہا نا! لیکن یہ بہت افسوسناک ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ سرخیوں میں جگہ ملنی چاہیے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر