ادے پورمرڈر کیس کے خلاف وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سمیت دیگر دائیں بازو کےگروپوں نے مدھیہ پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرے کیے، جن میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے بلکہ ان کے خلاف تشدد کی اپیل بھی کی گئی ۔
راجستھان کے ادے پور میں کنہیا لال کے قتل کے بعد 29 جون سے یکم جولائی کے بیچ دائیں بازو کے مختلف گروپوں نے اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں نکالی گئی ریلیوں میں اشتعال انگیز نعرے لگائے ہیں اور تشدد کی دھمکیاں دی ہیں۔
مدھیہ پردیش میں بھی تقریباً 100 مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا، جن کے متعلق وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی مرکزی کمیٹی نے 29 اور 30 جون کو ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اپنے اراکین سے کہا تھا کہ وہ ادے پور مرڈر کیس کے خلاف ریاست گیرمظاہرہ کریں۔
مدھیہ پردیش کے مالوا علاقے میں وشو ہندو پریشد کے پرچار پرمکھ (پبلسٹی ان چارج) کندن چندراکر نے کہا کہ وی ایچ پی نے اپنی اکائیوں سے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم بھیجنے کو بھی کہا تھا۔
دو صفحات پرمشتمل میمورنڈم میں وی ایچ پی نے کنہیا لال کے قتل کے لیے راجستھان کی کانگریس کی قیادت والی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور متاثرہ خاندان کو 5 کروڑ روپے کے معاوضے کے ساتھ ساتھ اس معاملے کی سی بی آئی جانچ اور راجستھان حکومت کو برخاست کر کے صدر راج نافذکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے اراکین نے دائیں بازو کے مقامی گروپوں کے ساتھ مل کر ریاست بھر میں مظاہرے کیے۔ انہوں نے’دہشت گروں’، ہرےکپڑوں میں ملبوس اور سر پر گول ٹوپی ،اور راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے پتلے جلائے۔
وی ایچ پی کی مدھیہ پردیش یونٹ کے لیگل ہیڈ راجیش تیواری نے کہا، ہم نے ریاست بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے، اشوک گہلوت یا دہشت گردوں کے پتلے جلائے اور دونوں ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ضلع حکام کو میمورنڈم سونپے۔
تیواری نے زور دے کر کہاکہ یہ مظاہرے پرامن تھے اور صرف قتل کی مذمت کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔
تاہم، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی قیادت میں ہوئے مختلف مظاہروں کے ویڈیوز تیواری کے دعووں کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ریلیاں اس وقت نکالی گئیں ، جب شہری انتخابات کی وجہ سے کئی اضلاع میں دفعہ 144 اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ نافذ تھا ۔
ساگر
ساگر ضلع میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی قیادت میں 29 جون کو ضلع کلکٹر کے دفتر میں ‘جب *** کاٹے جائیں گے، تو رام رام چلائیں گے’ نعرے لگائے گئے۔
مظاہرے کے ایک ویڈیو میں وشو ہندو مہاسبھا کے کپل سوامی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ، اگر آدھے ہندو (40 کروڑ) سڑکوں پر نکل آئے تو اس دن اس ملک کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا، ساگر کے ہندو اتنے کمزور نہیں ہیں کہ وہ ایک ہندو کی موت کا بدلہ نہیں لے سکتے۔ ساگر میں اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو کوئی مظاہرہ نہیں ہوگااور کوئی میمورنڈم نہیں دیا جائے گا۔ پوری کمیونٹی (مسلم)اس جرم کی قیمت ادا کرے گی۔
سوامی نے گزشتہ سال 24 اکتوبر کو ساگر کے تین بتی چوک پر ایسے ہی اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔
ایک تحریری شکایت میں مقامی لوگوں نے ان پر اور دوسروں پر امن وامان کو خراب کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اشتعال انگیز نعرے لگانے کا الزام لگایا تھا۔
کوتوالی پولس اسٹیشن میں درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا ہے، انہوں نے نہ صرف نعرے لگائے بلکہ اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کیا۔ ان کی حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔
اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
جیسے ہی احتجاجی مظاہرے کا ویڈیو وائرل ہوا، ساگر پولیس نے گوپال گنج تھانے میں آئی پی سی کی دفعہ 188 (سرکاری ملازم کےحکم کی نافرمانی) اور 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سےجان بوجھ کر کیا گیا بدنیتی پر مبنی عمل) کے تحت چار نامزد اور ‘دیگر’ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔
اس کی تصدیق کرتے ہوئے گوپال گنج کے ٹاؤن انسپکٹر کمل سنگھ نے بتایا، پولیس نے مظاہرےکے ویڈیو کی بنیاد پر از خود نوٹس لیتے ہوئے چار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے،ویڈیو میں وہ ایک خاص کمیونٹی کو دھمکی دے رہے تھے اور دفعہ 144کے نافذ ہونے کے باوجود بغیر اجازت ریلی نکالی گئی۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش جاری ہے اور ملزمین فرار ہیں۔
کھنڈوا
اسی طرح کھنڈوا ضلع میں، جہاں گھنٹہ گھر کے پاس منگل کی دوپہر کووی ایچ پی نے مظاہرہ کیا تھا، ‘جہادیوں کی قبر کھدے گی، کھنڈوا کی دھرتی پر’ جیسے نعرے لگائے گئے۔
اندور میں، بجرنگ دل کے راجیش بجوے نے 30 جون کو مالوا مل اسکوائر پر منعقد ایک مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر لوگوں کو اکسایا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اقلیتی برادری کو سبق سکھانے کے لیے ‘2002 کو دہرانے’ کی وارننگ دی۔ 2002 کو دہرانے سے ان کی مراد گجرات کے مسلم کش فسادات سے تھی۔
انہوں نے کہا، جو بھی نوپور شرما نے کہا، وہ صحیح ہے اور ہم بجرنگ دل کے لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے سڑکوں پر آنے اور بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔
قبائلی اکثریت والے منڈلا ضلع میں وی ایچ پی کے اودھیش پرتاپ نے بھی اسی طرح کے اشتعال انگیز بیان دیے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل اب پتلے نہیں جلائیں گے بلکہ سر قلم کرکے ادے پور جیسے واقعات کابدلہ لیں گے۔
اسی طرح کے نعرے اور دھمکیاں مبینہ طور پر راج گڑھ اور دیگر اضلاع میں بھی سنے گئے۔
وی ایچ پی کی مدھیہ پردیش یونٹ کے لیگل ہیڈ راجیش تیواری نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں کسی بھی اشتعال انگیز نعرے یا تشدد کے اپیل کی جانکاری ہے اور نہ ہی ساگر میں دائیں بازو کے چار لوگوں کے خلاف درج ایف آئی آر کا علم ہے۔
وہیں کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ضلع انتظامیہ کی اجازت سے احتجاج کرنے کا حق ہے اور کنہیا لال کے قتل کی مذمت کرنے کا حق ہے۔
انہوں نے کہا، کانگریس حکومت بھی اس کی مذمت کرتی ہے اور راجستھان حکومت قصورواروں کو سزا دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن احتجاج کی آڑ میں ایک کمیونٹی کے خلاف زہر اگلنا اور اسے دھمکی دینا مناسب نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف ضلع انتظامیہ کوکارروائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں مدھیہ پردیش میں احتجاج کی شدت سب سے زیادہ رہی کیونکہ ریاست میں انتخابی ماحول ہے۔
انہوں نے کہا،مدھیہ پردیش میں پنچایتی انتخابات ہو رہے ہیں اور ریاست میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مظاہرے ووٹرز کو پولرائز کرنے کے لیے ہوئے۔
باربار کوشش کرنے کے باوجود مدھیہ پردیش پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (لاء اینڈ آرڈر) ساجد فرید شاپو سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
بتادیں کہ کنہیا لال کے قتل کی خبر کے چند گھنٹے بعد ہی مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ میں نے ویڈیو دیکھا، یہ بہت خوفناک ہے۔ میں نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سے کہا ہے کہ وہ نگرانی رکھیں لیکن مدھیہ پردیش میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ریاست میں امن ہے۔
جس کے بعد مشرا نے راجستھان کی کانگریس حکومت پر ریاست کے ‘طالبانائزیشن’ کی اجازت دینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہیں۔
(کاشف کاکوی نیوز کلک سےوابستہ ہیں)
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں