فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے انہیں بدھ کو ہی رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف اتر پردیش میں درج تمام معاملے دہلی پولیس کو تحقیقات کے لیے سونپ دیے اور یوپی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایس آئی ٹی کو بھی ختم کرنے کی ہدایت دی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ان کے مبینہ توہین آمیز ٹوئٹ کے سلسلے میں اتر پردیش میں درج تمام معاملوں میں بدھ کو ضمانت دے دی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، جب یہاں کی ایک عدالت نے انہیں دہلی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کے سلسلے میں ضمانت دے دی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ اگر ان کے خلاف اسی طرح کی کارروائی کے لیے کوئی اور ایف آئی آر دائر کی جاتی ہے تو انہیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔
بنچ نے محمد زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کی جانچ کے لیے اتر پردیش حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایس آئی ٹی کو بھی ختم کرنے کی ہدایت دی۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سوریہ کانت اورجسٹس اے ایس بوپنا کی بنچ نے کہا کہ راجدھانی کی پٹیالہ ہاؤس عدالت میں چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے 20000 روپے کا ضمانتی بانڈ جمع کرنے کے بعد زبیرکو اتر پردیش میں درج تمام مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا جائے گا۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، بنچ نے ہدایت دی کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے 20000 روپے کی ضمانت کی رقم جمع کرانے کے فوراً بعدتہاڑ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بدھ کی شام 6 بجے سے پہلے زبیر کو رہا کر دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں اتر پردیش میں زبیر کے خلاف درج تمام مقدمات تحقیقات کے لیے دہلی پولیس کو سونپ دیے اور انھیں دہلی پولیس کے خصوصی سیل کے ذریعے درج موجودہ ایف آئی آر کے ساتھ جوڑ دیا۔
بنچ نے کہا کہ زبیر اتر پردیش پولیس اور دہلی پولیس کی طرف سے درج تمام ایف آئی آر کو رد کرنےکی اپیل لے کر دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ تمام ایف آئی آر اب ایک ساتھ جوڑ دی گئی ہیں۔
بنچ نے کہا کہ زبیر کو لگاتار حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا، جب دہلی کی ایک عدالت نے انہیں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی طرف سے درج ایف آئی آر میں ضمانت دے دی تھی، جو پہلے سے ہی ان کے ادارے کےٹوئٹ اور مالی اعانت کی پوری جانچ کر رہی ہے۔
بنچ نے کہا کہ یہ منصفانہ اور مناسب ہو گا کہ تمام معاملات کی الگ الگ افسران سے تفتیش کرانے کے بجائے ایک اتھارٹی سے تفتیش کرائی جائے۔
سپریم کورٹ نے زبیر کو آئندہ ٹوئٹ کرنے سے روکنے سے انکار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وکیل کو بحث کرنےسے روکا جا سکتا ہے۔
دو گھنٹے سے زیادہ کی سماعت کے بعد ایک فیصلہ جاری کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ایک صحافی کو ٹوئٹ کرنے اور لکھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اگر وہ ٹوئٹ کرکے کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔
زبیر کے خلاف اتر پردیش میں کل 7 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں ہاتھرس میں دو اور سیتا پور، لکھیم پور کھیری، مظفر نگر، غازی آباد اور چندولی پولیس اسٹیشنوں میں ایک ایک ایف آئی آر شامل ہے۔
گزشتہ 18 جولائی کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ محمد زبیر کے خلاف جلد بازی میں کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔وہ ان کی عرضی پر 20 جولائی کو سماعت کرے گی، جس میں مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں ان کے خلاف اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں درج ایف آئی آر کو ردکرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھا کہ بار بار ایف آئی آر درج کرنے اور گرفتار کرنے کا عمل ایک ‘شیطانی چکر’ ہے۔
گزشتہ 14 جولائی کو محمد زبیر نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا اور اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں ان کے خلاف درج چھ ایف آئی آر کورد کرنے کی اپیل کی تھی۔
گزشتہ 15 جولائی کو دہلی کی ایک عدالت نے چار سال پرانے ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کیس میں محمد زبیر کو ضمانت دے دی تھی۔
ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ،جمہوریت ایک ایسی حکومت ہے جو آزادی خیال سے چلتی ہے۔ جب تک لوگ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتے تب تک جمہوریت نہ تو ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی صحیح طریقے سے چل سکتی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جانگلا نے کہتے ہوئے کہ اپنے ٹوئٹ میں زبیر حکمراں جماعت پر تبصرہ کرتے کر رہے تھے،کہا؛ہندوستانی جمہوریت میں سیاسی جماعتیں تنقید سے بالا ترنہیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں پر تنقید کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں۔ صحت مند جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے۔ اس لیے کسی سیاسی پارٹی کی تنقید کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295اےکا استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
دہلی میں درج معاملے میں سب سے پہلے کیا تھا گرفتار
معلوم ہو کہ محمد زبیر کو گزشتہ 27 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
زبیر کی گرفتاری 2018 کے اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
اس سلسلے میں دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق، ٹوئٹر صارف ہنومان بھٹ نے سال 2018 میں زبیر کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک فلم کے اسکرین شاٹ والے ٹوئٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ ، ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔
بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
اب یہ ہینڈل دوبارہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے ،تاہم زبیر سے متعلق ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
دریں اثنا، دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔
زبیر کی گرفتاری گجرات میں ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے کنوینر وکاس اہیر سے جڑے گمنام اور غیرمصدقہ اکاؤنٹ کے ایک نیٹ ورک کی برسوں سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔
اتر پردیش میں درج معاملے
ایک ٹوئٹ میں محمد زبیر نے کٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پورضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انہیں (یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ) کو کچھ ویڈیوز میں نفرت انگیز تقاریر کرتے، مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑکاتے یا مسلم خواتین کے ساتھ ریپ کرنےکی دھمکی دیتے ہوئے دیکھا گیا۔
گزشتہ سال 25 نومبر کو آشیش کٹیار نامی صحافی نے لکھیم پور کھیری میں زبیر کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ اپنی شکایت میں انہوں نے زبیر پر ٹوئٹ کے ذریعے اپنے چینل (سدرشن ٹی وی) کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، لکھیم پور کھیری پولیس نے عدالت کی ہدایت پر 18 ستمبر 2021 کو محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی 16 مئی 2021 کو کیے گئے ایک ٹوئٹ کے لیے ان پر دفعہ 153اے (دو گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت الزام لگایا گیا تھا
اس ٹوئٹ میں زبیر نے بتایا تھا کہ انتہا پسند دائیں بازو کے چینل سدرشن ٹی وی نے 2021 میں غزہ پٹی پر اسرائیلی بمباری کی رپورٹنگ کے دوران مشہور مدینہ مسجد کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویر کا استعمال کیا۔
بتادیں کہ 14 جون 2022 کو دیپک شرما نامی ایک دائیں بازو کے کارکن نے الزام لگایا کہ انہوں نے چار سال قبل ایک ٹوئٹر پوسٹ میں ہندو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا تھا۔
اس کے بعد ہاتھرس میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں