ایک تقریب کے دوران سری لنکا میں جاری بحران کا حوالہ دیتے ہوئے ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھورام راجن نے کہا کہ یہ ملک اس امر کے نتائج کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ جب ملک کے لیڈر ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھورام راجن نے سنیچر کو کہا کہ ہندوستان کا مستقبل لبرل جمہوریت اور اس کے اداروں کو مضبوط کرنے میں مضمر ہے، کیونکہ یہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
راجن نے اکثریت پرستی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا ایک مثال ہے کہ کیا ہوتا ہے جب کسی ملک کے رہنما ملازمتوں کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں منعقدہ کانگریس پارٹی کے ایک ونگ آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کے پانچویں کنونشن میں راجن نے کہا کہ اقلیتوں کو ‘دوئم درجے کے شہری’ میں تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کر دے گی۔
راجن نے ‘ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے لیے لبرل جمہوریت کی ضرورت کیوں ہے’ کے موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔
انہوں نے کہا،اس ملک میں لبرل جمہوریت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا یہ واقعی ہندوستانی ترقی کے لیے ضروری ہے؟ ہمیں اسے بالکل مضبوط کرنا چاہیے۔ آج ہندوستان کے کچھ طبقوں میں یہ احساس گامزن ہے کہ جمہوریت ہندوستان کو پیچھے رکھتی ہے۔ ہندوستان کے لیےمضبوط، حتیٰ کہ آمرانہ قیادت بھی چلے گی ،جس میں کچھ اور توازن ہو اور ایسا لگتا ہے کہ ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
راجن نے کہا، ‘میں مانتا ہوں کہ یہ دلیل بالکل غلط ہے۔ یہ ترقی کے پرانے ماڈل پر مبنی ہے، جس میں لوگوں اور نظریات کے بجائے اشیا اور سرمائے پر زور دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی کے معاملے میں ملک کی خراب کارکردگی ‘اس راستے کی طرف اشارہ کرتی ہے جس پر ہمیں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔’
سابق گورنر نے کہا، ہمارا مستقبل ہماری لبرل جمہوریت اور اس کے اداروں کو مضبوط کرنے میں ہے، نہ کہ انہیں کمزور کرنے میں اور یہ ہماری ترقی کے لیے واقعی ضروری ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اکثریت پسندی سے وابستہ آمریت کو کیوں شکست دیاجانا چاہیے، انہوں نے کہا، اقلیتوں کے ایک بڑے حصے کو دوئم درجے کے شہری بنانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کر دے گی اور اندرونی عدم اطمینان پیدا کرے گی۔
راجن نے کہا کہ اس سے ملک میں غیر ملکی مداخلت کے خدشات بھی پیدا ہوں گے۔
سری لنکا میں جاری بحران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملک اس امر کے نتائج کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ جب ملک کے رہنما ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
راجن نے کہا کہ لبرل ازم ایک مکمل مذہب نہیں ہے اور ہر بڑے مذہب کا نچوڑ یہ ہے کہ ہر ایک میں کیا اچھا ہے، جو کہ بہت سے طریقوں سے لبرل جمہوریت کا نچوڑ بھی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان کی سست شرح نمو صرف کووڈ 19 وبائی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ معیشت میں سست روی پہلے سے موجود تھی۔
انہوں نے کہا کہ درحقیقت تقریباً ایک دہائی کے لیے عالمی مالیاتی بحران کے آغاز کے بعد سے ہم اتنا اچھا نہیں کر رہے ہیں جتنا کہ ہم کر سکتے تھے۔ اس خراب کارکردگی کی بنیادی وجہ ہمارے نوجوانوں کے لیے اچھی ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی ہے۔
مرکز کی اگنی ویر اسکیم کے خلاف مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے راجن نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان نوکریوں کے لیے کتنے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘کچھ دیر پہلے آپ نے 35000 ریلوے نوکریوں کے لیے 1.25 کروڑ درخواست دہندگان کو دیکھا ہے۔ یہ خاص طور پر تشویشناک ہے جب ہندوستان میں ملازمتوں کی کمی ہے جہاں بہت سی خواتین اپنے گھروں سے باہر کام نہیں کررہی ہیں۔ ہندوستان کی خواتین لیبر فورس کی شرکت 2019 میں 20.3 فیصد ہے جو کہ جی 20میں سب سے کم ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ حکومت کے ‘ترقی کے وژن’ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ‘آتم نربھر’ لفظ کے ارد گرد مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا،اب یہ بہتر رابطے، بہتر رسد، بہتر سڑکوں پر زور دیتی ہے اور اس کے لیے مزید وسائل وقف کرتی ہے، کسی نہ کسی طرح یہ (خود انحصاری کا وژن) پچھلی دہائیوں کی اصلاحات کا تسلسل لگتا ہے اور یہ اچھی بات ہے۔
سابق گورنر نے کہا کہ بہت سے طریقوں سے ‘آتم نربھر’ جو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ کسی ایک کوناکام ماضی کی طرف لے جاتا ہے، جہاں توجہ جسمانی سرمائے پر تھی، انسانی سرمائے پر نہیں، سیکورٹی اور سبسڈی پر تھا، نہ کہ لبرلائزیشن پر، سب سے اہل کو کامیاب ہونے دینے کے بجائےے پسندیدہ کو آگے بڑھنے کے لیے چننے پر تھا۔
انہوں نے کہا کہ ترجیحات کا غلط احساس تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم پر خاطر خواہ خرچ نہیں ہو رہا جس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
راجن نے کہا، کئی بچے دو سال سے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ ان کا انسانی سرمایہ، جو ان کے لیے اور ہمارے آنے والے سالوں کے لیے سب سے اہم اثاثہ ہے، کچھ ایسا ہے جسے ہم نظرانداز کر رہے ہیں۔ ہم انہیں تعلیمی میدان میں خاطر خواہ وسائل نہ دے کر ناکام کر رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں