کانگریس چھوڑنے والے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ انہیں نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہے، لیکن وہ جلد ہی اس کا اعلان کریں گے کیونکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔ و ہیں، کانگریس کی جموں و کشمیر یونٹ کے پانچ رہنماؤں نے بھی آزاد کی حمایت میں پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
نئی دہلی: کانگریس سے استعفیٰ دینے والے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے جمعہ کو بی جے پی میں شامل ہونے کی بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی جموں و کشمیر میں اپنی نئی پارٹی بنائیں گے۔
آزاد نے یہاں کہا کہ وہ جلد ہی اپنے حامیوں اور لوگوں سےملاقات کے لیے جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے۔
کانگریس چیف سونیا گاندھی کو اپنا استعفیٰ بھیجنے کے بعد انہوں نے ٹی وی چینلوں سے کہا، میں جلد ہی جموں و کشمیر جاؤں گا۔ میں جلد ہی جموں و کشمیر میں اپنی پارٹی بناؤں گا۔ میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل نہیں ہوں گا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، آزاد نے کہا، مجھے ابھی ایک قومی پارٹی شروع کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہے، لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جموں و کشمیر میں انتخابات کے امکان ہیں، میں نے وہاں جلد ہی ایک یونٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے اپنی نئی پارٹی کے قیام کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔
اپنے استعفیٰ پر کسی بھی بحث میں گھسیٹے جانے سے انکار کرتے ہوئے آزاد نے کہا کہ میں نے اس فیصلے کے بارے میں کافی عرصے سے سوچا ہے اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق، نئی دہلی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے آزاد نے کہا کہ اگرچہ انہیں نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے کی کوئی عجلت نہیں تھی، لیکن وہ جلد ہی اس کا اعلان کریں گےکیوں کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔
اب جبکہ اسمبلی انتخابات میں آزاد کی شرکت پہلے سے طے شدہ ہے، وہ یہاں ذاتی اثر و رسوخ اور اپنی امیج کے پیش نظر مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں اقتدار کی کلیدبخوبی رکھ سکتے ہیں۔
سال 2005 سے 2008 تک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر آزاد کی شبیہ بہت صاف ستھری اور مثبت تھی۔ انہوں نے ترقیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھایا اور اس دوران جموں و کشمیر میں نئے انتظامی اضلاع بھی بنائے۔
آزاد کی قیادت والی مخلوط حکومت میں اتحادی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) کی جانب سے حمایت واپس لینے کے بعد انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
کانگریس کی جموں و کشمیر یونٹ کے پانچ رہنماؤں نے آزاد کی حمایت میں پارٹی سے استعفیٰ دیا
اس سے قبل، آزاد کے کانگریس سے استعفیٰ دینے کے چند گھنٹے بعد دو سابق وزراء سمیت پارٹی کے پانچ سینئر لیڈروں نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ اور قائدین کے بھی مستعفی ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزراء آر ایس چھب اور جی ایم سروری، سابق ایم ایل اے محمد امین بھٹ، سابق ایم ایل سی نریش گپتا اور پارٹی لیڈر سلمان نظامی نے آزاد کی حمایت میں استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ سابق ایم پی جگل کشور شرما اور سابق ایم ایل اے حاجی عبدالرشید، چودھری محمد اکرم اور گلزار احمد وانی سمیت پانچ مزید لیڈروں کے استعفیٰ دینے کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایک اور اہم رہنما منیر احمد میر کے بھی مستعفی ہونے کا امکان ہے۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو لکھے اپنے خط میں چھب نے کہا، کانگریس پارٹی کے رکن کی حیثیت سے کئی سالوں سےمیں نے جموں و کشمیر کی ترقی کے لیے مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں کانگریس نے میری ریاست کے مستقبل کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی رفتار کھو دی ہے۔
انہوں نے خط میں کہا، جموں و کشمیر نے گزشتہ دہائیوں میں جو ہنگامہ آرائی دیکھی ہے، اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کی طرف لوگوں کی رہنمائی کے لیے آزاد جیسے فیصلہ کن لیڈر کی ضرورت ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کانگریس کی جموں و کشمیر یونٹ کے سابق نائب صدر سروری نے پارٹی سے استعفیٰ دینے سے پہلے کئی دیگر رہنماؤں کے ساتھ دہلی میں آزاد سے ملاقات کی۔
آزاد کے حامی سمجھے جانے والے ان میں سے زیادہ تر لیڈر نئی دہلی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔
غور طلب ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے جمعہ کو تقریباً پانچ دہائیوں کے بعد پارٹی کو الوداع کہہ دیا اور دعویٰ کیا کہ ملک کی سب سے پرانی پارٹی اب ‘کلی طور پر تباہ’ ہو چکی ہے اور اس کی قیادت اندرونی انتخابات کے نام پر دھوکہ دے رہی ہے۔
انہوں نے پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی پر ‘بچکانے رویے’ کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ اب سونیا گاندھی محض نام کی لیڈر رہ گئی ہیں کیونکہ فیصلے راہل گاندھی کے ‘سیکورٹی گارڈز اور پرسنل اسسٹنٹ’ کرتے ہیں۔
آزاد نے ایسے وقت میں کانگریس سے اپنے تعلقات منقطع کیے ہیں جب پارٹی تنظیمی انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کانگریس صدر کے انتخاب کی تاریخ طے کرنے کے تناظر میں اتوار کو کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ آزاد اس وقت کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔
ان کے استعفیٰ کو، پہلے سے ہی مسائل کا سامنا کر رہی کانگریس کے لیے ایک اور جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کئی بڑے لیڈر پارٹی چھوڑ چکے ہیں جن میں کپل سبل، اشونی کمار وغیرہ شامل ہیں۔
غلام نبی آزاد کے کانگریس سے استعفیٰ کے خط کے اہم نکات
کانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کے پارٹی سے استعفیٰ کے خط کی کچھ جھلکیاں حسب ذیل ہیں۔
* آزاد نے 1970 کی دہائی میں پارٹی میں شمولیت کے بعد سے کانگریس کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا حوالہ دیا۔
* آزاد نے راہل گاندھی پر پارٹی کے اندر مشاورتی نظام کو تباہ کرنے کا الزام لگایا۔
*تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا اور ناتجربہ کار چاپلوسوں کا ایک نیا حلقہ پارٹی کے معاملات میں مداخلت کرنے لگا۔
* آزاد نے راہل گاندھی کے سرکاری آرڈیننس کو پورے میڈیا کے سامنے پھاڑنے کو ‘ناپختگی’ کی ‘مثال’ قرار دیا۔
* یہ حرکت بھی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کی 2014 میں شکست کی ایک وجہ رہی۔
* آزاد نے کہا کہ پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وہ پنچ مڑھی (1998)، شملہ (2003) اور جے پور (2013) میں منعقد پارٹی کے غور وخوض میں شامل رہے ہیں ، لیکن تینوں مواقع پر پیش کی گئی مشاورت پر کبھی توجہ نہیں دی گئی ، نہ ہی سفارشات پر عمل کیا گیا۔
* 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کو زندہ کرنے کا ایک تفصیلی ایکشن پلان ‘آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ‘اسٹور روم’ میں پچھلے نو سالوں سے پڑا ہے۔
* 2014 سے سونیا گاندھی کی قیادت میں اور پھر راہل گاندھی کی قیادت میں، کانگریس ‘شرمناک طریقے سے’ دو لوک سبھا انتخابات ہار چکی ہے۔ پارٹی 2014 اور 2022 کے درمیان ہوئے 49 اسمبلی انتخابات میں سے 39 میں بھی ہار گئی۔
* 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے پارٹی کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ الیکشن میں شکست کے بعد راہل گاندھی نے غصے میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
* یو پی اے حکومت کی ادارہ جاتی سالمیت کو ختم کرنے واکا ‘ریموٹ کنٹرول ماڈل’ اب کانگریس پر لاگو ہوتا ہے۔
* آپ (سونیا گاندھی) کے پاس صرف نام کی قیادت ہے، تمام اہم فیصلے یا تو راہل گاندھی لیتے ہیں، یا پھر ‘اس سے بھی بدتر صورت حال میں ان کے سیکورٹی اہلکاروں اور پرسنل اسسٹنٹ لیتے ہیں۔
* آزاد نے الزام لگایا کہ پارٹی کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے خط لکھنے والے پارٹی کے 23 سینئر رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی گئی،انہیں ذلیل کیا گیا، کمتر دکھایا گیا۔
* انہوں نے قیادت پر الزام لگایا کہ وہ اندرونی انتخابات کے نام پر پارٹی کے ساتھ بڑے پیمانے پر ‘دھوکہ’ دے رہی ہے۔
* پارٹی کو ‘بھارت جوڑو یاترا’ سے پہلے ‘کانگریس جوڑو یاترا’ نکالنی چاہیے تھی۔
کانگریس لیڈروں کا جوابی حملہ، کہا- پارٹی کو دھوکہ دیا، ان کا ریموٹ کنٹرول وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس ہے
کانگریس نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سمیت تمام عہدوں سے غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کو ‘ افسوسناک’ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ آزاد نے پارٹی کو دھوکہ دیا اور ان کا ریموٹ کنٹرول وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے بھی آزاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘جی این اے’ (غلام نبی آزاد) کا ڈی این اے ‘مودی مئے’ ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق مرکزی وزیر نے یہ قدم ایسے وقت پر اٹھایا جب کانگریس مہنگائی، بے روزگاری اور پولرائزیشن کے خلاف لڑ رہی ہے اور استعفیٰ دیتے ہوئےخط میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، اس کا وقت بھی صحیح نہیں ہے۔
رمیش نے کہا، کانگریس قیادت نے جس شخص کو سب سے زیادہ عزت دی، اس شخص نے کانگریس قیادت پر ذاتی حملہ کرکے اپنا اصل کردار دکھایا ہے۔ پارلیامنٹ میں پہلے مودی کے آنسو، پھر پدم وبھوشن، پھر مکان کا ایکسٹنشن… یہ کوئی اتفاق نہیں، تعاون ہے!
پارٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ غلام نبی آزاد نے راہل گاندھی کو ان کی ‘ذاتی خنث’ اور راجیہ سبھا میں نہ بھیجے جانے کی وجہ سے اپنے خط میں ‘انرگل باتیں’ کی ہیں۔
کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی چیف پون کھیڑا نے کہا، غلام نبی آزاد اور ان جیسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ پارٹی کارکن کیا چاہتے ہیں… یہ شریف آدمی پانچ صفحات کے خط میں ڈیڑھ صفحات تک یہی لکھتے ہیں کہ وہ کن عہدوں پر فائزرہے۔ لیکن پھر لکھتے ہیں کہ انہوں نے بے لوث خدمت کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ راجیہ سبھا میں نہ بھیجے جانے کی وجہ سے آزاد تڑپنے لگے۔
کھیڑا نے الزام لگایا، ان لوگوں نے پارٹی کو کمزور کرنے کاکام کیا ہے۔ آپ لوگوں کی وجہ سے پارٹی کمزور ہوئی ہے… پارٹی کارکن اس فریب کو جانتا ہے۔ کارکن یہ بھی جانتا ہے کہ اس وقت دھوکہ دینے والے کا ریموٹ کنٹرول نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خود آزاد اور مودی جی کی محبت دیکھی ہے۔ یہ محبت پارلیامنٹ میں بھی نظر آئی تھی۔ وہ محبت آج اپنے انجام کو پہنچی … ملک کا کارکن اس شخص کو معاف نہیں کرے گا۔
اپنے خط میں آزاد کے اس ذکر پر کہ راہل گاندھی نے آرڈیننس کی کاپی پھاڑ دی، کھیڑا نے کہا، آزاد نے اس وقت بات کیوں نہیں کی؟ اس وقت ایک پوسٹ تھی اس لیے بات نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ خود غرض ہیں۔ اگر کوئی عہدہ ہے تو میں نہیں بولوں گا اور جب کوئی عہدہ نہیں ہے تو میں بولوں گا۔
کانگریس کی جموں و کشمیر انچارج رجنی پاٹل نے ٹوئٹ کیا، جو لوگ سوچتے ہیں کہ دھوکے سے بازی مار گئے، حقیقت میں تو کتنوں کا بھروسہ ہار گئے… اس سوچ کے شاید غلام ہی رہے ہوں گے تبھی آج خود کو آزاد سمجھ رہے ہیں۔ برسوں اقتدار کے مزے لوٹے اور جدوجہد کے وقت موقع پرستی میں اپنوں کو چھوڑ ا، یہ سوچ غلامی اور فریب کے احساس کی عکاسی کرتی ہے۔
کانگریس ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کی پسند سے ہی پچھلے دنوں وقار رسول وانی کو جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا۔
پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا، آزاد نے کانگریس لیڈر امبیکا سونی اور رجنی پاٹل کے ساتھ چار ملاقاتیں کیں۔ آخری ملاقات 14 جولائی کو ہوئی تھی۔ انہوں نے جو فہرست پیش کی تھی اسی میں سے جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے عہدیدار بنائے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی پرسوال کرنے سے پہلے آزاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ انہوں نے آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں کانگریس کے ساتھ کیا کیا۔ وہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے فیصلے کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں