وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘مفت کی ریوڑی’ والے بیان کے بعدجہاں ہر طرح کے ماہرین اقتصادیات سبسڈی کی خوبیوں اور خامیوں کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنےکے لیےمجبور ہو گئے ہیں، وہیں مودی کے لیے اس ایشو کو کھڑا کر پانا ہی ان کی کامیابی ہے۔
کس طرح کی فلاحی مدد کو مفت سہولت کہا جائے اور کس کو نہیں، یہ بحث اب شوروغل میں تبدیل ہوتے ہوئے جارحانہ ہو چلی ہے۔ تمل ناڈو کی حکمراں پارٹی ڈی ایم کے نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ بعض فلاحی اسکیموں کو ‘مفت سہولت’ قرار دینے والی پی آئی ایل میں کوئی دم نہیں ہے اور یہ آئین میں درج ریاست کی پالیسی کے ہدایتی اصولوں پر حملہ ہے۔
ڈی ایم کے کی دلیل ہے کہ ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وکیل کی طرف سے دائر عرضی سیاسی ہے اور اس میں کوئی حقیقی عنصر نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی (عآپ) اس سے کہیں زیادہ واضح رہی ہےجس نے عوامی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی پر اپوزیشن مقتدرہ ریاستوں میں اچھی طرح سے چلائی جانے والی فلاحی اسکیموں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
سپریم کورٹ بھی اب اس بحث کا حصہ ہے اور اس نے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو نوٹس بھیجا ہے۔ عدالت عظمیٰ، جس کے پاس ہیبیس کارپس اور الیکٹورل بانڈز کو چیلنج کرنے والے طویل عرصے سے زیر التواضروری معاملات سے نمٹنے کے لیے بہت کم وقت یا دلچسپی ہے کہ اس مسئلے میں اس کی خاصی دلچسپی نظر آتی ہے! وہ ایک ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ماہرین اس بحث کو مزید پیچیدہ بنائیں گے۔
پی ایم مودی ‘ریوڈی کی تقسیم’کے خطرات پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی طرف سے کیے جانے والے فلاحی اخراجات کےسلسلے میں ایک ایشو کھڑا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جہاں ہر طرح کے ماہرین اقتصادیات سبسڈی کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنے کے لیے مجبور ہوگئےہیں، وہیں مودی کے لیے اس مسئلے کوکھڑا کرنا ہی ان کی کامیابی ہے۔
مودی کا مقصد خالصتاً سیاسی تھا۔ وہ واقعی اس سنجیدہ بحث میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں کہ کس قسم کی سبسڈی بیکار ہے اور کس قسم کی سبسڈی واقعی غریبوں کے لیے مددگار ہے۔ یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک اور چال ہے۔ مودی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر ان کے آٹھ سالوں میں اتنی ترقی نہیں ہوئی ہے کہ ملازمتوں کے ذریعے اصل میں بااختیار بنایا جا سکے۔ ‘مودی نامکس’ اس کے بالکل برعکس نکلی ،جس کا وعدہ نریندر مودی نے 2014 میں عوامی طور پرکیا تھا – ‘کانگریس کی خیرات والی اکانومی’ کے بجائے لوگوں کو ترقی میں شراکت دار بنانے کے لیے اہل بنانا۔
اگرچہ اعداد و شمار سب کچھ واضح طور پر دکھاتے ہیں۔ چاہے یہ منریگا کے مختص میں زبردست اضافہ ہو، جس کی مودی نے پہلے کانگریس کی ناکامی کی یادگار قرار دے کر مذمت کی تھی، یا 2024 تک کئی بڑی فلاحی اسکیموں پر ان کی مسلسل توجہ، یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم کو اب بھروسہ ہو چلا ہے کہ ترقی نہیں بلکہ صرف فلاحی اسکیموں کی بنیاد پر ہی انتخابی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اگر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد بھی ہندوستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے، تو بی جے پی مفت راشن اسکیم کو کیوں جاری رکھے ہوئی ہے جوکووڈ–19 بحران سے نمٹنے کے لیے تھی؟ اب عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں نیچے آ رہی ہیں اور اس تناظر میں بڑے پیمانے پر مفت راشن دینے کوکو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو جیسی ریاستیں، جنہوں نے 20 سال پہلے سبسڈی والے راشن کی تقسیم کا آغاز کیا تھا، نے اس پر چھوٹی ہی سہی لیکن 2 یا 3 روپے فی کلوگرام اناج جیسی معمولی قیمت رکھی ہے۔
اگر حکومت کے دعوے کے مطابق معیشت واقعی ایک ‘مضبوط بحالی’ کا مشاہدہ کر رہی ہے، تو اسے مفت غذائی اجناس کے نظام کو ختم کر دینا چاہیے۔ یہ اندرونی طور پر مودی کے ‘مفت ریوڑیوں’ کی حوصلہ شکنی کی منطق کے مطابق ہوگا۔ مودی راج کے ‘خیرات والی معیشت’ کو تبدیل کرنے میں ناکامی کی ایک اور واضح مثال ایک پائیدار زرعی نظام تعمیرنہ کرپانے کی ناکامی ہے۔ فارم کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا اس کا وعدہ محض ایک خیالی تصور بن کر رہ گیا ہے اور کسانوں کو حقیقی طور پربااختیار بنانے کے لیے پی ایم کسان کے ذریعے نقد رقم دینا ایک ناقص آپشن ہے۔ مفت کی ریوڑی کی بحث کے درمیان پی ایم کسان کی درجہ بندی کیسے کریں گے؟ اچھی سبسڈی یا بری؟
ویسے وزیر اعظم مودی کو اس پیچیدہ بحث میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا مقصد خالصتاً سیاسی ہے۔ وہ مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی فلاحی اسکیموں، جیسے کہ پی ایم آواس یوجنا، ہر گھر نل کا جل کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنا چاہتے ہیں، اجولا یوجنا، پی ایم کی فلیگ شپ ہیلتھ انشورنس اسکیم، جہاں مختص ابھی بھی کم ہےکو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور 80 کروڑ لوگوں کے لیے مفت راشن کی اسکیم کو، ممکنہ طور پر 2024 کے عام انتخابات تک توسیع دینا چاہتے ہیں۔ مودی چاہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی حکمرانی والی ریاستیں مرکز کے ذریعے چلائے جانے والے پروجیکٹوں کے ساتھ ان کی مختص رقم کو ملا دیں، اور اپنی ضرورت کے مطابق فلاحی منصوبے شروع نہ کریں، جس سے مجموعی اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں مرکزی حکومت نے ریاست کی مخصوص اسکیموں کو فنڈ دینے کے لیے ریاستی پی ایس یو کے ذریعے بازار سے آزادانہ قرض لینے پر سختی برتی ہے۔ تلنگانہ اور کیرالہ کو اپنےپی ایس یو کے ذریعے کم قرض لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پہلی بار کیرالہ انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ فنڈ کو آر بی آئی کی اجازت کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ سے جائز قرض لینے کے بارے میں وضاحت پیش کرنے کے لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) سے ایک نوٹس موصول ہوا ہے ۔اگر اس طرح کے قرضوں کو وزیر اعظم کی کچھ اہم فلیگ شپ اسکیموں تک بڑھایا جاتا ہے تو شاید ای ڈی سوال پوچھنا بند کردے گی۔
ریاستوں کے ساتھ منطقی بات چیت کی عدم موجودگی میں وفاقی مالیاتی اصولوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ مرکزی حکومت کھلے عام ریاستوں کو اپنی فلاحی اسکیموں کو ترک کرنے اور مرکز کی طرف سے چلائی جانے والی اہم اسکیموں کے لیے فنڈز استعمال کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ مودی کے ‘ریوڑی’ والے بیان کو ان تمام پہلوؤں کے ساتھ رکھتے ہوئے دیکھا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم بالواسطہ طور پر یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ صرف مرکزی طور پر چلائی جانے والی اسکیمیں ہی لوگوں کو بااختیار بنا رہی ہیں اور یہ ‘مفت کی ریوڑی’ کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔
اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد مفت راشن اسکیم کی کامیابی سے خوش ہوکر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دو سالوں میں اپنی تمام بڑی اسکیموں کو ان کی زیادہ سے زیادہ حد تک نافذ کریں گے۔ بہت سے لوگ وقت سے پیچھے چل رہے ہیں اور مودی اب جلدی میں ہیں کیونکہ 2024 زیادہ دور نہیں ہے۔ اسکیموں کو ان کی زیادہ سے زیادہ حد تک لے جانے کے لیے بھی بڑی رقم کی ضرورت ہوگی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سب کے لیے کفایتی رہائش اور ہر گھر نل کا جل جیسے منصوبوں کی لاگت میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وزیر اعظم ریاستوں کو اپنی فلاحی اسکیمیں بنانے کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ بڑی مرکزی اسکیموں کے لیے فنڈز کو دوبارہ مختص کیا جاسکے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو نریندر مودی کے ‘مفت کی ریوڑی’ والے بیان کا خلاصہ یہی ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر