خبریں

بلقیس بانو کی حمایت میں مجوزہ پیدل مارچ سے پہلے میگسیسے ایوارڈ یافتہ سندیپ پانڈے کو حراست میں رکھا گیا

گجرات پولیس نے سندیپ پانڈے سمیت سات سماجی کارکنوں کو 25 ستمبر کی دیر رات  اس لیے حراست میں لے لیا کہ وہ اگلے دن گجرات فسادات کے دوران گینگ ریپ کی  شکار ہونے والی بلقیس بانو کی حمایت میں ان کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف پیدل مارچ نکالنے والے تھے۔

گجرات پولیس کے حراست میں لیے جانے سے پہلے بلقیس بانو کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے سماجی کارکنان۔ (تصویر: twitter/@hrishirajanand_)

گجرات پولیس کے حراست میں لیے جانے سے پہلے بلقیس بانو کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے سماجی کارکنان۔ (تصویر: twitter/@hrishirajanand_)

نئی دہلی: گجرات پولیس نے 25 ستمبر کی دیر رات سات  سماجی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ یہ کارروائی ان کے اس پیدل مارچ سے پہلے کی گئی، جو وہ بلقیس بانو کی حمایت میں اظہار یکجہتی اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے نکالنے والے تھے۔

جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ان میں میگسیسے ایوارڈیافتہ سندیپ پانڈے، نورجہاں دیوان، تنوشری، نتیش گنگارمانی، کوثر علی، ٹی گوپال کرشنا اور حنیف قلندر شامل تھے۔ پنچ محل ضلع پولیس نے حراست کو احتیاطی کارروائی قرار دیا ہے۔

کارکن کو گودھرا میں قلندر کی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر شہر کے بی ڈویژن پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ کچھ کارکنوں نے تھانے سے لائیو ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے۔

سندیپ پانڈے کو کاکن پور تھانے میں حراست میں لیا گیا، اطلاعات ہیں کہ انہوں نے پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاجاً ہڑتال شروع کر دی۔

حراست میں لیے گئے تینوں افراد حنیف قلندر، نور جہاں اور تنوشری کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔ لیکن، سندیپ پانڈے کو منگل کی سہ پہر میں رہا کیا گیا۔ دی وائر کو یہ جانکاری ان کے ساتھی کوثر علی نے دی۔

وہیں دی وائر سے بات کرتے ہوئے حنیف قلندر نے بتایا کہ کل آٹھ افراد کو حراست میں لیا گیاتھا۔ باقی اب بھی کاکن پور تھانے میں ہیں۔ ہماری حراست کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

انہوں نے کہا، مجھے لگتا ہے کہ گجرات پولیس اور مودی حکومت ہمیں بلیک میل کر رہی ہے۔ ہم سب بس انصاف  کا مطالبہ کر رہے ہیں اور بلقیس کے قصورواروں کو ان کی  سزا دیے جانے  کی گزارش کر رہے ہیں۔

مجوزہ پیدل مارچ 26 ستمبر کو داہود کے رندھیک پور سے نکالا جانا تھا۔ آرگنائزر ہندو مسلم ایکتا سمیتی اسے احمدآباد تک نکالنی چاہتی تھی۔

ہندوز فار ہیومن رائٹس سے بات کرتے ہوئے سندیپ پانڈے نے کہا، ‘ہمیں گودھرا سے 15 کلومیٹر دور ایک پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ ہماری یاترا (دورہ)  بلقیس بانو سے معافی مانگنے کے لیے تھی نہ کہ حکومت کی مخالفت کے لیے۔ میں اینٹی کاسٹ ایتھسٹ (ذات پات مخالف ملحد) ہوں، لیکن ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہونے کے ناطےمجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک بدنما داغ  ہیں اور میں بہت شرمندہ ہوں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘یہ ان گاندھی کے گجرات میں ہو رہا ہے، جنہوں نے سچائی اور عدم تشدد کی بات کی تھی۔ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے کہ قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور انہیں سنسکاری برہمن بتایا جا رہا ہے جبکہ ہم پرامن مارچ کرنے والوں  کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ وہ ہم سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں؟

سوشل میڈیا پر بھی اس کی مخالفت دیکھنے کو مل رہی ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی—بھاشا کے مطابق کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ سیولیا میں تین مقامی افراد کو بھی حراست میں لیا گیا،جنہوں نے ان کے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا تھا۔

ان کے ساتھی کلیم صدیقی نے دعوی کیا، گودھرا میں پیدل مارچ  کی اجازت کے لیے پانڈے ہڑتال پر تھے۔

ہندو مسلم ایکتا سمیتی نے کہا کہ پیدل مارچ 26 ستمبر سے 4 اکتوبر تک داہود ضلع کے رندھیک پور گاؤں سے احمد آباد کے سابرمتی آشرم تک جانا تھا۔ اس کا مقصد بلقیس بانو سے 2002 کی ناانصافی اور کیس کے 11 مجرموں کی جلد رہائی سے ہونے والی تکلیف کے لیے معافی مانگنا تھا۔

سمیتی نے ایک بیان میں کہا کہ  بلقیس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیےاور حکومت کی معافی کی پالیسی کےتحت 15 اگست کو 11 مجرموں کی رہائی کے لیے وہ ان سے معافی مانگنا چاہتے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)