سائبر اور مواصلات کے حوالے سے یہ جنگ پوری دنیا میں فوجی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ماہرین کے مطابق اس جنگ کے بعد کئی ممالک جن میں ہندوستان، پاکستان، چین اور امریکہ بھی شامل ہیں، اپنی جنگی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کی از سر نو تشکیل کریں گے۔
سن71کی ہندوپاک جنگ کے ہیرو فیلڈمارشل سام جمشید جی مانک شا، جب کبھی دہلی آکراپنی بیٹی اورحقوق انسانی کی معروف کارکن ماجا دارووالا کے ہاں ٹھہرتے تھے، تو ملنے والوں کے لیے ان کے پاس ان گنت کہانیاں اور واقعات ہوتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 مارچ، 1971 کو شیخ مجیب الرحمان کی گرفتاری کے ایک ہفتہ بعد ہی وزیر اعظم اندراگاندھی نے کابینہ کی سیاسی امور کی کمیٹی کے اجلاس میں ان کو مشرقی پاکستان پر چڑھائی کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ مگر انہوں نے کہاکہ،
فوج گو کہ ان کا حکم ماننے کی پابند ہے، مگر اس جنگ کا اختتام ہندوستان کی شکست پر ہوگا۔
وضاحت طلب کرنے پر انہوں نے بتایا کہ،
مونسون اب شروع ہی ہونے والا ہے۔ مشرقی پاکستان کے ندی نالے اپنے جوبن پر ہوں گے۔ سڑکیں پانی سے لبریز ہوں گی، جو نہ صرف ہماری ٹینکیں، بھاری اسلحہ اور نفری کا راستہ روکیں گے، بلکہ ان کے کیچڑ میں پھنسنے کا بھی خطرہ ہے۔
انہوں نے اندرا گاندھی کو مشور ہ دیا کہ چین کو بھی اس ملٹری آپریشن سے قبل روس کے ذریعے سنبھالنا ضروری ہے۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ سکم، جو تب تک ایک آزاد ملک تھا،کے راستے چینی فوج مشرقی پاکستان کی طرف کوچ کرسکتی ہے، اورسلی گوری کوریڈور پر قبضہ کرکے شمال مشرقی صوبوں کو ہندوستان سے الگ کرسکتی ہے۔یعنی پاکستان کے بجائے ہندوستان ہی دولخت ہوجائےگا۔ یہ سن کر اندراگاندھی میٹنگ برخاست کیے بغیر ہی کرسی سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔ وزیر خوراک فخر الدین علی احمد نے مانک شا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، سام مان جاؤ۔مگر مانک شا نے اس کو جواب دیاکہ،
کوچ کی صورت میں فوج کو تمام ٹرانسپورٹ کے ذرائع یعنی سبھی ٹرینیں اور ٹرک چاہیے۔ اس وقت کھیتوں میں ربیع کی فصل تیار ہو رہی ہے، اس کو مارکیٹ تک لیجانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ مہیا نہیں ہوگا، جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو جائیں گی اور بطور وزیر خوراک اس کا سارا ملبہ تمہارے اوپر پڑے گا اور تمہیں استعفیٰ دینا پڑےگا۔
بتایا جاتا ہے کہ فخر الدین اس کے بعد اس جنگ کو دسمبر تک مؤخر کرنے کے بڑے حمایتی بن گئے۔
موجودہ تناظر میں لگتا ہے کہ روس نے جب فروری میں یوکرین پر فوج کشی کی، تو اس کے منصوبہ سازوں نے بارش کے موسم کو پلاننگ میں شامل نہ کرکے، روسی فوج کے لیے ہدف کا حصول مشکل بنادیا اور جنگ کو طوالت بخشی۔
کئی ممالک کے فوجی ماہرین کے مطابق یہ جنگ ہندوستان، پاکستان، چین نیز امریکہ کے لیے ایک سبق ہے۔ 24فروری کو روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئو کھرکئیف اور جنوب میں کریمیا کے راستے اوڈیسا کی طرف جب پیش قدمی کی، تو اس کا نشانہ یوکرین کی لیڈرشپ کو عضو معطل بنانا اور اہم تنصیبات کو اپنے قبضہ میں لینا تھا۔
اس کی اسپیشل فورسز اور پیرا کمانڈوز نے پہلے ہی دن کیئوسے دس کلومیٹر دور ہوستومال انٹونوو ایرپورٹ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ بیلا روس کی طرف سے روسی فوج کی ٹکڑی نے کیئو کی طرف مارچ شروع کردیا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ آپریشن 2008 میں جارجیا اور 2014میں کریمیا کی طرز پر ہوں گے، جو بس چند دنوں میں ہی روس کی کامیابی پر ختم ہو گئے تھے۔
مگر یوکرینی فوج نے زمینی واقفیت اور امریکی جاویلین اور ترک ڈرون طیاروں کی وجہ سے ان کا راستہ روک لیا۔ روسی فوج کی 60کلومیٹر لمبی کانوائے، یوکرینی فوج کی ہٹ اینڈ رن تکنیک اور موسم کی خرابی کی وجہ سے بھاری ہتھیاروں اور ٹینکوں کو آگے لانے میں ناکام رہی۔فروری کے بعد ان علاقوں میں زمین بارش کی شدت کی وجہ سے کیچڑ اور دلدل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق روس اس سے قبل ہی آپریشن مکمل کرنے کا خواہاں تھا۔ مگر جب یہ طول پکڑتا گیا تو یہ طے تھا کہ اب ان کی ٹینکوں کے لیے کیئو کی طرف راستہ بنانا مشکل تھا اور ایک ماہ بعد وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی کے پہلے مرحلے میں روس فضائی برتری قائم کرنے میں ناکام رہا۔ جو اب تک ایک معمہ ہے۔
ماہرین کے مطابق وہ شاید کسی جدید طیارہ کے مار گرانے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کیونکہ اس سے فوج کے مورال پر اثر پڑ سکتا تھا۔ اس کے ہیلی کاپٹروں کو امریکی اسٹنگر اور ایس 300 کے تال میل نے نشانہ بناکر خاصا نقصان پہنچادیا۔ روس ابھی بھی اس جنگ کو اسپیشل فوجی آپریشن کا نام دیتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک اس نے اسٹرائک کور کو اس میں استعمال نہیں کیا ہے، جبکہ اس کو سرحدوں پر تیاری کی حالت میں رکھا گیا ہے۔
اسی لیے ابھی تک اس جنگ میں روس نے کئی جدید میزائلوں یعنی کالیبار، کے ایچ 59، کے ایچ101، اسکندر اور سپر سانک کنزال میزائیلوں کا استعمال کرکے خاصی تباہی مچادی۔ چونکہ دونوں اطراف مضبوط فضائی دفاعی ہتھیار نصب ہیں، تو زمینی افواج کی مدد کے لیے نیچی پرواز کرنے والے ہوائی جہاز کوئی بھی اڑانے کا رسک نہیں لے رہا ہے۔
جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ جوں جوں جنگ طوالت اختیار کرتی گئی، تو روس کے لیے کئی میزائل سسٹم کم پڑتے گئے۔ مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ان کے لیے مطلوبہ پرزے ملنا مشکل ہوگئے ہیں۔ سائبر اور مواصلات کے حوالے سے یہ جنگ پوری دنیا میں فوجی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے۔
روس نے ابتدا میں یوکرین کو امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ وی سیٹ سٹیلائٹ کو ہی ہیک کردیا تھا۔ بعد میں امریکہ نے انتہائی جدید اسپیس ایکس سٹیلائٹ کو اس جنگ کے لیے وقف کردیا، جس نے یوکرین کو انٹلی جنس مہیا کرنے کے علاوہ مواصلات کے رابطوں کو بحال رکھنے میں مدد دی۔
انفارمیشن وارفیر میں امریکی کمپنیوں ایپل، مائکرو سافٹ، امیزن اور اسپیس ایکس نے یوکرین کی کافی مدد کی اور روس کو زچ کیا۔ اب تمام ممالک پر لاز م ہو گیا ہےکہ زمینی، فضائی اور بحری افواج کے علاوہ سافٹ ویر کے ماہرین کی بھی ایک فوج تیار رکھیں۔
کئیو پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد جنگ کے دوسرے مرحلے میں، روس نے مشرقی علاقوں ڈونسٹک، لوہانسک، کھرسون اور زپوریاپر توجہ مرکوز کرکے ا ن پر قبضہ جمایا۔ ان چاروں علاقوں میں، جہاں روسی نسل کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس نے رائے شماری کروانے کا بھی اعلان کردیا۔
جنوب میں ابتدائی دنوں میں کئی اور علاقوں پر قبضہ کیا تھا، مگر مارئیوپول شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس کو تین ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ جولائی میں خاصے بھاری نقصان کے بعد لیے سیچانش، سی ایویرو پر قبضہ کیا۔مگرامریکی اور یورپی ممالک کی طرف سے فراہم کردہ ہیم راس راکٹ سسٹم، ایم 777، کائسیر155اور دیگر ایسے ہتھیارں کی وجہ سے یوکرینی افواج نے روسی پیش قدمی کو سست کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس کی اسپیشل فورسز نے جنوب میں کھیرسان خطہ اور جزیرہ نما کریمیا میں روس کی ساکی ایر بیس اور میسکھ میں ایمونیشن ڈپو کو نقصان پہنچاکر نفسیاتی برتری بھی حاصل کی۔
ماہرین کے مطابق اس جنگ کے بعد کئی ممالک جن میں ہندوستان، پاکستان، چین اور امریکہ بھی شامل ہیں، اپنی جنگی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کی از سر نو تشکیل کریں گے۔
امریکہ کے لیےیہ پہلی ایسی جنگ ہے جہاں اس کے مدمقابل کو اسی طرح کی ہی ٹکنالوجی حاصل ہے۔ گو کہ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں امریکی افواج نے جنگیں لڑی ہیں، مگر اس کا حریف ٹکنالوجی کے حوالے سے اتنا طاقتور نہیں تھا۔
عراقی جنگجویا طالبان، الکٹرانک وار فیر اور ڈرون کے استعمال سے ناواقف تھے۔ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک سبق ہی ہے کہ جنگ شروع تو کی جاسکتی ہے، مگر اس کا خاتمہ اپنے بس میں نہیں ہوتا ہے۔
علاو ہ ازیں ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل منوج پانڈے کے مطابق اس جنگ کا بڑا سبق یہ ہے کہ ملٹری آپریشن کے لیے لاجسٹکس اہم رول ادا کرتی ہے۔ نقل و حمل، ملٹری و سول انفرا اسٹرکچرنیٹ ورک اور مواصلات کا رول جنگوں میں اتنا ہی اہم ہے، جتنا ہتھیاروں کا حصول۔2009میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستانی فوج نے 30سے 60دن کے تیل اور ایمو نیشن کے ذخائر رکھنے کا ایک پلان بنایا ہے۔
مگر 2017میں آڈیٹر جنرل کے مطابق ان کے اسٹوریج کی میقات 10سے 20دن تک ہی ہے۔ یعنی اس سے زیادہ د نوں تک ہندوستان جنگ جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ 2020میں بتایا گیا کہ ہندوستانی فوج نے 15دن تک شدید جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔
مگر چین اور پاکستان کے مقابلے ہندوستان کی کمزوری لاجسٹکس شعبہ میں ہے۔ خاص طور پر چین سے ملحق علاقوں میں نقل و حمل کے ذرائع خاصے محدود ہیں۔۔دفاعی تجزیہ کار منوج جوشی کے مطابق اس جنگ کا ماحاصل یہ ہے کہ لیڈر شپ کا شعور و مہارت، لاجسٹکس کا ادراک، فوج کی روایتی یک کمانڈ کے بجائے افسران کو فیصلہ کرنے کی آزادی اور ڈرون کا رول پانسہ پلٹ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس جنگ میں دور مار میزائلوں اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی اہمیت بھی اجاگر ہو ئی ہے۔ دنیا بھرکی ملٹری انڈسٹریز کو اب ٹینکوں کے ڈیزائن تبدیل کرنے پڑیں گے، کیونکہ اس جنگ میں ان کو خاصی مار پڑی ہے۔
گو کہ دنیا بھرکی ملٹری ڈاکٹرئن ابھی بھی مختصر اور تیز ترین جنگوں کے منظر ناموں پر عمل پیرا رہےگی، جس میں پیرا کمانڈوز اور اسپیشل فورسز کا رول اہم رہےگا، مگر یوکرین جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس طریقہ کار سے یہ ضروری نہیں ہے کہ جنگ فیصلہ کن طریقے سے جیتی جاسکے، اس لیے ایک بار پھر اسٹرائک کور کو بہتر بنانے اور ان کو ہی جنگ کی اولین کمانڈ دینے کے روایتی طریقے کی طرف لوٹنا ہوگا۔
Categories: فکر و نظر