خبریں

دہلی وقف بورڈ معاملے میں عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو ضمانت ملی

دہلی کی اینٹی کرپشن برانچ  کے ذریعےدہلی وقف بورڈ کے کام  کاج میں مبینہ مالی خرد برد اور بے ضابطگیوں سے متعلق ایک معاملے میں گرفتار عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات سنگین نہیں ہیں۔

عآپ  ایم ایل اے امانت اللہ خان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

عآپ  ایم ایل اے امانت اللہ خان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کو عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو ضمانت دے دی، جنہیں وقف بورڈ میں مبینہ بے ضابطگیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

خصوصی جج وکاس ڈھل نے کہا، اس عرضی کو قبول کیا جاتا ہے۔ 1 لاکھ روپے کا نجی بانڈ (اتنی ہی  رقم کے نجی مچلکے کے ساتھ) بھرنا ہوگا۔

قبل ازیں منگل کو عدالت نے خان کی ضمانت عرضی پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔  اینٹی کرپشن برانچ (اے سی بی) نے 16 ستمبر کو اوکھلا کے ایم ایل اے کے کیمپس سمیت کئی جگہوں پر دن بھر کی  چھاپے  ماری کے بعدخان کو گرفتار  کیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق، خان نے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے ہوئے اصولوں اور رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 32 لوگوں کو غیر قانونی طور پر بحال کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، عدالت نے کہا کہ وقف بورڈ کے سی ای او کے بیان کے مطابق، پہلی نظر میں یہ دکھایا گیا  ہے کہ ملزم نے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سےدہلی حکومت کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھرتیوں میں صرف اپنے  رشتہ دار اور اس کے انتخابی حلقہ کے ممبران کی حمایت کی ۔

عدالت نے کہا کہ لیکن ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت نہیں ہےجس سے پتہ چلے کہ خان نے کسی کانٹریکٹ ملازم سے رشوت لی تھی۔

عدالت نے کہا کہ وقف بورڈ نے پہلے ملازمین کو بغیر کسی اصول کے بھرتی کیا تھا اور ریکارڈ پر ایسا کوئی مواد نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ بھرتی کیے گئے ملازمین میں سے کسی نے خان کو رشوت دی تھی۔

وقف بورڈ کی جائیدادوں کو لیز پر دینے کے تعلق سے عدالت نے کہا کہ پہلی نظر میں کرایہ کے سلسلے میں سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔

عدالت نے نے کہا کہ خان یا ان کے خصوصی اثر و رسوخ کو وقف فنڈ کو سونپے جانےکو ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پر کوئی مواد موجود نہیں ہےاور نہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیےکوئی ثبوت ہے کہ کسی کانٹریکٹ ملازم نے تنخواہ پانے کے بعد ملزم کو رقم واپس  کی تھی۔

مزید، عدالت نے کہا کہ پہلی نظر  میں خان کو فنڈز کی الاٹمنٹ یا اس کے غلط استعمال کا ملزم نہیں بنایا جا سکتا۔

عدالت نے کہا، مذکورہ بالا بحث سے پہلی نظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملزمین کے خلاف الزامات سنگین نوعیت کے نہیں ہیں۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ خان کے خلاف 24 مقدمات میں سے انہیں 20 مقدمات میں بری کر دیا گیا ہے اور اینٹی کرپشن برانچ کے اہلکاروں پر مبینہ حملے کے دوران ملزم ان کی حراست میں تھے۔

عدالت نے کہا کہ ایک موجودہ ایم ایل اے کے طور پر خان کے فرار ہونے کا کوئی جوکھم نہیں تھا اور پہلے سے ضبط شدہ بنیادی ثبوتوں ، جو کہ  دستاویزی نوعیت کا تھا،کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی امکان نہیں تھا۔

تاہم عدالت نے واضح کیا کہ وہ کیس کے میرٹ پر کوئی رائے ظاہر نہیں کر رہی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، سینئر ایڈوکیٹ راہل مہرا نے خان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ کسی قاعدے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے اور الزام ایک نقص ضابطہ ہے، جس کے لیے محکمہ جاتی  کارروائی کی جا سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 409 (ایک سرکاری ملازم یا بینکر، مرچنٹ یا ایجنٹ وغیرہ کے ذریعے مجرمانہ دھوکہ دہی) کے لیے تمام مواد غائب تھا اور استغاثہ نے جان بوجھ کر وقف بورڈ کے چیئرمین (خان) کو منتخب کیا۔

مہرا نے مزید کہا کہ پیسے کا بالکل غلط استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی بھی پیسےکے لین دین  کا کوئی ثبوت تھا۔ ایک ایک پیسے کا حساب رکھا گیا تھا۔

ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر اتل سریواستو نے کہا کہ اس کیس میں ضمانت دینے کی کوئی صورت نہیں ہے اور خان نے اپنے موبائل کے گم ہونے کے بارے میں ایجنسی سے جھوٹ بولا تھا۔

جج نے ان سے پوچھا کہ خان کی مبینہ بددیانتی کی وجہ سے خزانے کو کیسے نقصان ہوا، اور اگر کوئی نقصان ہوا بھی تو کتنے پیسے کا؟

دریں اثنا، خان کے مبینہ معاون اور شریک ملزم لڈن کو عدالت نے دو دن کے لیے اے سی بی کی حراست میں بھیج دیا۔

امانت اللہ خان نے ضمانت ملنے کے بعد ٹوئٹ کیا اور کہا کہ سچ کی جیت ہوئی ہے۔ وہیں عام آدمی پارٹی نے کہا کہ امانت اللہ خان کو ضمانت مل گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فرضی مقدمات کا سلسلہ رک جائے گا؟ کیا تفتیشی اداروں کا غلط استعمال رک جائے گا؟

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)